1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. کیا لکھیں، کیا پڑھیں

کیا لکھیں، کیا پڑھیں

یار کیا لکھوں، کیا لکھوں، سمجھ نہیں آرہا کیا لکھوں؟ دماغ تو میرا ساتھ نہیں دے رہا، البتہ ہاتھ کے ذریعے میں نے یہ دو جملے تو لکھ ڈالے۔ اگر آپ کو لکھنے کا شوق ہو تو آپ ہر حالت میں لکھنا چاہتے ہیں۔ اور انسان لکھنے کا بھی تب شوقین بنتا ہے جب اس کے اندر مطالعے کی عادت پیدا ہوجائے۔
آپ کو ہر معاشرے میں ایسے لوگ ملیں گے جو دن رات پڑھتے رہتے ہیں۔ کسی کو تاریخ پڑھنے کا شوق ہوتا ہے تو کسی کو افسانوں کا، کوئی مذہبی لٹریچر میں گم ہوجاتا ہے تو کوئی دنیاوی کتابوں کو اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ جب کسی کے مطالعے کا یہ عالم ہو جائے کہ اس کی الماری کتابوں کے ڈھیر سے بھر جائے تو انسان پھر مایوس بھی ہوجاتا ہے۔ وہ تلخ حقائق جو ہمیں کتابوں سے دریافت ہوتے ہیں، وہ ہمیں آہستہ آہستہ منفی سوچ کا مالک بنا دیتے ہیں۔ آپ نے بہت سے دانشوروں سے ایسی باتیں تو ضرور سنی ہوں گی: "بھائی دنیا تباہ ہونے والی ہے۔ ۔ ۔ قیامت قریب ہے۔ ۔ ۔ دنیا میں ایمانداری ختم ہوتی جارہی ہے۔ ۔ ۔ " وغیرہ، وغیرہ۔ ایسے لوگوں کولگتا ہے کہ اس طرح لوگ سدھر جائیں گے۔ آپ محض لوگوں کو ان کی برائیاں گنواتے رہو، اور دنیا خودبخود سیدھی ہوجائے گی۔
خیر یہ لوگ اپنے آپ کو بھی دھوکا دے رہے ہیں اور دوسروں کو بھی۔
میں سمجھتا ہوں مایوسی بھی ایک بیماری ہے۔ ۔ ۔ نہیں!میں سمجھتا نہیں، حقیقتاً مایوسی ایک بُری چیز ہے۔ حضرت یعقوب ؑنے اپنے بیٹوں سے کیا کہا تھا آپ کو معلوم ہے؟نہیں؟تو یہ پڑھیے: "اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ "(سورۃ یوسف، آیت نمبر 87)
سیدھی سی بات ہے، اگر آپ مایوس ہیں، اور آپ کا قلم بھی آپ کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے، تو وہ مایوسی آپ کے ذریعے دوسروں تک منتقل ہوتی ہے۔ نتیجہ؟میں سمجھتا ہوں کہ مجھے آگے کچھ سمجھانے کی ضرور ت نہیں ہے۔ آپ لوگ سمجھدار ہیں الحمدللہ، خود نتیجہ اخذ کیجیے۔
لٹریچر ایک معاشرے کو بگاڑ بھی سکتا ہے اور سدھار بھی سکتا ہے۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں:"لٹریچر پیش قدمی کرتا ہے۔ رائے عام اس کے پیچھے آتی ہے۔ "(ص67، پردہ، سید ابوالاعلی مودودی، اسلامک پبلیکیشنزلمیٹڈ، لاہور، 1993۔ ) وِل اسٹور کا کہنا ہے (ملاحظہ ہو ان کی کتاب سیلفی) کہ این رینڈ کے افسانے سلیکون ویلی (بڑی بڑی ٹیک کمپنیوں کا مرکز—مثلاً، فیس بک، مائکروسوفٹ، وغیرہ) میں اتنے مقبول ہیں کہ وہاں کام کرنے والے لوگ این رینڈ کے بتائے ہوئے فلسفے کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ وِل اسٹور کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ فلسفہ امریکا اور مغرب کے لیے خطرناک ثابت ہورہا ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسری مثال ملاحظہ ہو۔ ڈینیل کہن مین ایک مشہور نوبل انعام یافتہ ماہر نفسیات ہیں۔ 1955ء میں انہیں اسرائیل کی ڈفینس فورس نے ایک ذمے داری سونپی۔ کسی بھی نوکری کو حاصل کرنے سےپہلے آپ کو انٹرویو کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ ڈینیل کہن مین کے ذمے آیا کہ وہ پوری اسرائیلی آرمی کےانٹرویو کے نظام کو بہتر بنائیں۔ ڈینیل کہن مین بتاتے ہیں کہ وہ اس وقت پال میل کی ایک کتاب پڑھ رہے تھے اور انہوں نے پھر اس کتاب کے ذریعے انٹرویو کا نظام تعمیر کیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ نظام آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ بہت سالوں بعد جب ڈینیل کہن مین کونوبل انعام ملا وہ اسرائیل کے دورے پر گئے تو انہیں آرمی والوں نے بتایا کہ وہ آج بھی ان کا بنایا ہوا انٹرویو کانظام استعمال کر رہے ہیں۔ جی ہاں!ایک کتاب نے پوری آرمی کے بھرتی کے نظام کو متاثر کردیا۔ (ص229 تا 232، تھنکنگ، فاسٹ اینڈ سلو، ڈینیل کہن مین، پینگوئین بکس، 2012۔ )
اب آپ نےدیکھا کہ کس طرح لٹریچر فائدہ بھی دے سکتا ہے اور نقصان بھی۔ لیکن یہ بات صرف لٹریچر تک محدود نہیں۔ کچھ لوگ اپنی زبان سے شعلے برساتے ہیں تو کوئی اپنی زبان کو مرہم بنا لیتا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار وہ رسول پاک ﷺکے ساتھ کسی سفر میں شریک تھے۔ وہ رسول پاکﷺکے قریب آئے اور کہنے لگے۔ "اے اللہ کے رسول!مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کرادے اور دوزخ سے دور کردے۔ "رسول پاک ﷺنے فرمایا:"تم نے بہت عظیم اور اہم بات پوچھی ہے۔ "پھر رسول پاکﷺنے انہیں بتایا کہ نماز قائم کرو، صدقہ دو، شرک سے اجتناب کرو، صرف اللہ کی عباد ت کرو، زکوۃ دو، حج کا احتمام کرو، روزے رکھو۔ ۔ ۔ لیکن پھر آگے رسول پاک ﷺنےپوچھا:"میں تمہیں ان سب کاموں کی بنیاد نہ بتاؤں؟"معاذبن جبل کہتے ہیں:"میں نے عرض کیا:ضرور بتلائیے۔ آپ ﷺنےاپنی زبان پکڑ کر فرمایا:اس کو روک رکھو۔ "اس بات پر معاذ بن جبل نے رسول پاکﷺسے پوچھا:"اے اللہ کے نبی !جو گفتگو ہم کرتے ہیں اس پر بھی کیا مؤاخذہ ہوگا؟"رسول پاکﷺنے فرمایا:"اے معاذ!لوگوں کو اندھے منہ دوزخ میں گرانے کا باعث صرف ان کی زبان کی کھیتیاں ہی تو ہوں گی۔ "(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3973، مترجمین:مولانا ضیا الرحمن اور مولانا محمد یامین، ناشر:دارالاشاعت)سورۃمومنون(آیت نمبر3)میں فرمایا گیا ہے کہ مومن فضول باتوں سے اجتناب کرتا ہے۔ رسول پاکﷺنے اسی لیے کہا۔ "جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھےاسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کہےیا خاموش رہے۔ "(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3971)حضرت موسیؑ اور حضرت ہارونؑ سے اللہ تعالی نے فرمایا:"تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ، بلاشبہ وہ سرکش ہوگیا ہے چناچہ تم دونوں اس سے نرم بات کہنا، شاید کہ وہ نصیحت پکڑے یا ڈرے۔ "(سورۃطٰہٰ، آیت 43 تا 44)فرعون جیسے شخص کے لیے بھی اللہ تعالی نے فرمایا کہ نرم لہجہ رکھو، شاید وہ نصیحت پکڑے۔ ایک مسلمان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی آواز دھیمی رکھے۔ (سورۃ لقمان، آیت نمبر 19)
قرآن پاک میں تفصیل سے منافقین کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زبانی اقرار تو کرتے ہیں کہ وہ اللہ پر اور آخرت پر ایمان لائے ہیں، لیکن درحقیقت وہ مومنین نہیں۔ اب یہ تو ایک مسئلہ ہے۔ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ کون سچا مومن ہے اور کون جھوٹا؟گھبرائیں نہیں!آپ کے رب نے—اپنی آخری کتاب(قرآن پاک)کے ذریعے—ان منافقین کی خصوصیات بیان کردی ہیں۔ ان خصوصیات کے ذریعے ہم باآسانی جان سکتے ہیں کہ کون سچا مومن ہے اور کون جھوٹا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:"اور یقیناً آپ ا نہیں گفتگو کے لب و لہجے سے پہچان لیں گے۔ "(سورۃ محمد، آیت نمبر 30) ایک مومن کا لب و لہجہ کیسا ہوتا ہے وہ ہم پہلے بتا چکے ہیں، ظاہر ہے ایک منافق کا لب و لہجہ اس کے الُٹ ہوگا۔ اگر ایک مومن دھیمے لہجے میں گفتگو کرے گا تو منافق اونچے لہجے میں بات کرے گا۔ ایک مسلم اگر فضول باتوں سے اجتناب کرے گا، تو منافق ظاہر ہے فضول باتوں سے لطف اٹھائے گا۔ رسول پاکﷺنے فرمایا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی پردہ پوشی کرو۔ (ملاحظہ ہو سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر2546) ایک منافق اس بات سے گریز کرے گا۔ وہ طعنہ زنی اور عیب جوئی سے کام لے گا۔ اسی لیے اللہ تعالی فرماتے ہیں:"خرابی ہے ہر طعنہ زن، عیب جو کے لیے۔ "(سورۃ ہمزہ، آیت نمبر1)ابن ہشام لکھتے ہیں:"جب حضور نے غزوہ تبوک کے واسطے لوگوں کو صدقہ دینے کی رغبت دلائی تو عبدالرحمن بن عوف نے چار ہزار درہم دیئے اور عاصم بن عدی نے سو وسق کھجوریں لاکر ڈھیر کردیں۔ منافقوں نے ان کی اس فراخ دلی کو دیکھ کر کہا کہ یہ صدقہ ان لوگوں نے ریا اور دکھاوے کے واسطے دیا ہے۔ اور ابو عقیل نے جو ایک غریب آدمی تھے ایک صاع کھجوریں لاکر اس ڈھیر میں ڈال دیں۔ منافق اس کو دیکھ بہت ہنسےاور کہنے لگے ایسی ذرا سی کھجوروں کی خدا کو کیا ضرورت ہے اسے ان کی کچھ پرواہ نہیں ہےاور ایک منافق نے دوسرے کی طرج آنکھ سے اشارہ کرکے مضحکہ اڑایا۔ "(ص474، سیرت ابن ہشام، جلد دوم، مترجمین:مولوی قطب الدین احمد اور سید یسین علی حسنی نظامی دہلوی، ناشر:مکتبہ رحمانیہ۔ )منافقوں کے اس رویے پر یہ آیت نازل ہوئی:"جو لوگ عیب جوئی کرتے ہیں کھلے دل سے خیرات کرنے والے مومنوں پر، (ان کے)صدقات کی بابت اور ان پر بھی جو اپنی (تھوڑی سی)محنت مزدوری کے سوا کچھ نہیں رکھتے، تو وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ بھی ان کا مذاق اڑائے گا اوار ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ "(سورۃ توبہ، آیت نمبر 79)
شروع میں میں نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا:کیالکھوں؟مجھے اُس کا جواب مل گیا۔ اپنی زبان اور قلم کا استعمال احتیاط سے کریں۔ دھیمے لہجے میں بات کریں، فضول باتوں سے اجتناب کریں، عیب جوئی سے پرہیز کریں، مایوسی نہ پھیلائیں—کیونکہ جیسے حضرت یعقوب ؑ نے کہا، مایوس تو کافر ہی ہوتے ہیں، ایک مومن تو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ رسول پاک ﷺنے فرمایاکہ دینی فرائض کی بنیاد زبان کو قابو رکھنے پر منحصر ہے۔ لہذااپنی زبان کا استعمال نہایت احتیاط کے ساتھ کریں۔ ظاہر ہے، ان تعلیمات پر سو فی صد عمل کرنا تو ممکن نہیں۔ لیکن ہم کوشش تو ضرور کرسکتے ہیں کہ اللہ نے جتنی قوت دی ہے اس کو استعمال کریں اور ان ہدایات کی پیروی کریں۔

باشام باچانی

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔