1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. ووٹ کس کا؟

ووٹ کس کا؟

بس اب تین سے چار ہفتے رہ گئے ہیں اور اس کے بعد موجودہ وفاقی حکومت اور دو صوبائی حکومتیں تحلیل ہوجائیں گی اور پھر دو تین ماہ بعد انتخابات منعقد ہونگے۔ اور پھر جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوگا تو پھر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اور مختلف اشتہاروں کے ذریعے ہمیں درس دیا جائے گا کہ جی نکلیے!اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیجیے اور ملک کو بہترین لوگوں کے سپرد کیجیے۔ بلکہ کہا جائے گا کہ اگر آپ نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہ کیا تو آپ مجرم ہونگے۔ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم باہر نکلیں اور صحیح بندوں کا انتخاب کریں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کا انتخاب کیا جائے؟ کس جماعت کا انتخاب کیا جائے؟

اب اگر ہم امریکہ میں ہوتے تو اس سوال کا جواب بڑا آسان ہوتا۔

آپ گوگل کریں"مائگریشن ٹو فلوریڈا"، یعنی فلوریڈا کی جانب حجرت۔ اعداد و شمار کے مطابق، لاکھوں لوگ نیو یارک اور کیلیفورنیا جیسی ریاستوں کو خیر باد کہہ کر فلوریڈا جا رہے ہیں۔

فلوریڈا ریاست کے گورنر ران ڈیسینٹس اس بات کا ذکر گاہے بگاہے اپنی تقریروں میں کرتے ہیں۔ ان کے ناقدین جب بھی ان کے خلاف تنقید کرتے ہیں تو وہ یہ اعداد و شمار پیش کرکے پوچھتے ہیں کہ پھر بتائیں لوگ ہماری گورنری کے دور میں فلوریڈا کیوں متنقل ہورہے ہیں؟

خاص طور پر جب لوگ نیو یارک اور کیلیفورنیا جیسی ریاستوں کو خیر باد کہہ کر فلوریڈا آرہے ہیں تو اس کا مطلب صرف ایک ہے: فلوریڈا میں ماحول بہتر ہے، امن کے حوالے سے، تعلیم کے حولاے سے، بچوں کو پالنے کے حوالے سے، کاروبار کرنے کے حوالے سے۔

اس کے برعکس کیلی فورنیا ہر سال کئی ہنریافتہ اور مالدار لوگوں کو کھو رہا ہے۔ ایلون مسک اپنی کمپنی "ٹیسلا"کے ہیڈ کوارٹر کو کیلی فورنیا سے ٹیکسس منتقل کر چکے ہیں۔ اور کئی نامور لوگ کیلی فورنیا حکومت کی ناقص کارکردگی کے مارے ریاست کو خیر باد کہہ رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کا دور ہے۔ آ پ یو ٹیوب یا گوگل پر جاکر اس حوالے سے پڑھ یا دیکھ سکتے ہیں کہ میں جو کہہ رہا ہوں صحیح ہے یا نہیں؟

اب یہ نیو یارک اور کیلی فورنیا سے سرمائے اور ہنر کی فلوریڈا کی جانب منتقلی ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ملک میں اگر کوئی صنعتکار کراچی، حیدرآباد، فیصل آباد، لاہور وغیرہ جیسے شہروں کو، اور پنجاب اور سندھ جیسے صوبوں کو، چھوڑ کر بلوچستان یا کے پی کے منتقل ہورہا ہو۔ آپ نے یہ تو سنا ہوگا کہ ہمارے بلوچ اور پٹھان بھائی اپنے علاقے چھوڑ کر روزگار کے لیے شہروں میں آ بستے ہیں، تاکہ ان کے بچے اچھی تعلیم پاسکیں، لیکن آپ نے یہ نہیں سنا ہوگا کہ سندھ اور پنجاب کے شہری علاقوں میں رہنے والے مالدار، نوکری یافتہ اور ہنرمند کے پی کے یا بلوچستان جانا چاہتے ہیں۔ چھٹیوں کے لیے تو یہ ہوتا ہوگا یا سیر و سیاحت کے لیے، لیکن مستقل طور پر کوئی بھی کراچی والا بلوچستان یا کے پی کے کا رخ نہیں کرتا۔

اور یہ اس لیے نہیں ہے کہ لاہور، فیصل آباد، کراچی وغیرہ جیسے شہروں میں انتظامیہ بڑی تگڑی ہے۔ نہیں۔ یہ تو کئی سالوں سے رواج چلا آرہا ہے۔ ہنر، تعلیم، اورسرمائے کا گٹھ جوڑ ان شہروں کو خوشحال بنا کر بیٹھا ہے، لہذا غریب علاقوں سے لوگ یہاں حجرت کرتے ہیں۔

اب آپ مجھے بتائیں یہاں کوئی رون ڈیسنٹس کی مانند کارکردگی کا مظاہر ہ کر رہا ہے؟ ہمارے ملک کی تمام نامور جماعتیں حکومت میں رہ چکی ہیں، لیکن کوئی بھی یہ دلیل نہیں پیش کرسکتا کہ دیکھیں جہاں ہم ہیں وہاں حکومت اتنی بہترین ہے کہ لوگ حجرت کرکے ہمارے پاس آرہے ہیں۔

اعداد و شمار کا ٹوپی ڈرامہ پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ عمران خان صاحب اپنی دور حکومت کے حوالے سے 6 فیصد ترقی کی شرح کا ڈھنڈور ا پیٹ رہے ہیں۔ (جبکہ ایک جگہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میرے پاس اختیار ہی نہیں تھا دوران اقتدار، سب کچھ فوج کر رہی تھی، تو بھئی ترقی اپنے خاطے میں کیسے ڈال رہے ہو تم؟)لیکن اگر ترقی حقیقی ہو تو لوگ اس ترقی کی وجہ سے اس جگہ منتقل ہوتے ہیں۔ جو ہمیں کسی بھی دور حکومت میں نظر نہ آیا۔ نہ وفاقی حکومت کسی بھی دور کی یہ اعداد و شمار پیش کرسکتی ہے کہ دیکھیں جی ہمارے دور میں بے انتہا بیرون ملک رہنے والے پاکستانی ریکارڈ نمبروں میں پاکستان مستقلاً منتقل ہوئے، نہ کوئی صوبائی حکومت بتا سکتی ہے کہ دیکھیں جی ہمارے اقتدار کے دوران معمول سے ہٹ کر ہمارے صوبے میں حجرت ہوئی۔ محض چند سڑکیں، چند اعداد وشمار جو ان کے حق میں جارہے ہوں، ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہ سب خالصتاً ٹوپی ڈرامہ ہے اور کچھ نہیں۔

اب مجھے بتائیں کس جماعت کا ہم انتخاب کریں؟ پی ٹی آئی کا؟ نون لیگ کا؟ پی پی پی کا؟ یہ ساری جماعتیں حکومت کر چکی ہیں۔

کے پی کے میں پی ٹی آئی ساڑھے نو سال برسر اقتدار رہی، کوئی ایسی تبدیلی دیکھنے کو ملی جو دوسرے صوبوں میں دیکھنے کو نہ ملی ہو؟ آج عمران خان اور ان کے حواری کہتے ہیں ہمیں ووٹ دیں، ملک کے مسائل کا حل ہمارے پاس ہے۔ بھئی!کے پی کے کے قرض آپ نے اتار دیے؟ وفاقی مالی معاونت کے باوجود اپنے بل بوتے پر آپ صوبہ چلا سکتے ہیں؟ وہاں قانون کی حکمرانی قائم کردی؟

حالت یہ ہے کہ وزیر اعلی کے ہیلی کاپٹر کا ناجائز اور بے جا استعمال اتنا کیا گیا کہ قانون بنانا پڑا تاکہ عمران خان بچ سکیں۔ احتساب اور قانون کی حکمرانی اسے کہتے ہیں؟ صوبے کے ہیلی کاپٹر کو آپ نے اپنا ذاتی رکشہ بنا لیا۔ اور باتیں یہ کہ ہمارے پاس فورینزک لیب میں ماہرین کو بھرتی کرنے کے لیے فنڈز نہیں۔ جی ہاں، کے پی کے کی فورینزک لیب میں جو نمونے حاصل ہوتے ہیں، انہیں پنجاب بھیجا جاتا ہے مزید تحقیق کے لیے۔ البتہ جب بھی خان صاحب مارچ اور دھرنےکا اعلان کرتے تھے تو سرکاری گاڑیوں اور وسائل کا استعمال کرکے یہ لوگ اسلام آباد اور پنجاب ضرور داخل ہوجاتے تھے۔ عمران خان کو ہیلی کاپٹر کے جھولے دلوانے کے لیے اور مارچ اور دھرنوں میں پہنچنے کے لیے فنڈز ہیں، البتہ فورینزک لیب میں ماہرین کو بھرتی کرنے کے لیے رقم مختص کرنا محال ہے۔ سبحان اللہ!

اور یہ تو ایک معمولی سا پہلو میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ عمران خان کے جھوٹ، دوغلے پن اور منافقت پر ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے کئی سو صفحات پر مشتمل۔ جو شخص کہے کہ میرے پاس اختیار ہی نہیں تھا، جبکہ ملک کے سب سے اہم اور طاقتور ادارے —آئی ایس آئی —کے سربراہ کو چھٹی کے دن فارغ کردیتا ہے، کئی لوگوں کی سفارش، تنقید اور تنبیہ کے باجود پاکستان کے سب سے بڑے اور طاقتور صوبے کو ایک نالائق اور بدعنوان کی سربراہی میں دے دیتا ہے، وہ اپنے گھٹیا ہونے کی اس سے بڑی سند اور کیا دے سکتا ہے؟

کے پی کے چھوڑیں، ساڑھے تین سال وفاق میں حکومت کرنے کے باوجود، یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تو اختیار ہی نہیں تھا، ہماری تو تیاری ہی نہیں تھی۔ تو بھائی!بنی گالہ اور زمان پارک میں بیٹھ کر یوتھیوں اور عمران ڈوز کو بیوقوف بنائیں۔ ایک دہائی ایک صوبے پر حکومت کرنے کے بعد بھی جو کہے کہ ہم تیار نہیں تھے، اختیار نہیں تھا، تو اسے ووٹ نہیں جوتے پڑنے جاہییں۔

دوسری طرف پی پی پی اور ن لیگ کو لے لیجیے۔ ن لیگ پنجاب پر ایک دہائی سے زائد حکومت کرچکی ہے، پی پی پی سندھ میں دو دہائی سے بھی زیادہ بھٹو دور سے لے کر اب تک حکومت کرتی رہی ہے۔ کوئی ایک پنجاب کا رہنا والا دکھائیں یا سندھ کا رہنا والا، جو کہے کہ "سبحان اللہ!جب سے یہ آئے ہیں ہم بڑے خوش ہیں، برکت ہی برکت ہے صوبے میں۔ "مالی معاملات ہوں یا سیاسی، کہیں بھی کوئی خاطر خواہ مثبت تبدیلی آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، صرف وہ اعداد و شمار جو ان کے حق میں جائیں ان کا استعمال کیا جائے گا اور چند ٹوپی ڈرامہ پر مبنی ترقیاتی منصوبے دکھائے جائیں گے۔

ان لوگوں کی ذاتی دولت میں جس قدر اضافہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد نمایاں ہوتا ہے اتنا اضافہ ملکی دولت میں ہمیں نظر نہیں آتا۔

باقی بچیں چھوٹی چھوٹی جماعتیں جیسے ایم کیو ایم، جے یو آئے، جماعت اسلامی۔۔ تو یہ سب کسی نہ کسی مخلوط حکومت کا حصہ رہی ہیں۔ ایم کیو ایم اپنے ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد پر کہتی ہے کہ ہمیں ووٹ دیجیے۔ لیکن ابھی دیڑھ دہائی بمشکل گزری ہے، ان کے منصوبوں کا حال ہم حیدرآباد اور کراچی میں دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ وہ فرنگی، گورے، اور انگریز جو کام ایک صدی یا اس سے بھی زائد پہلے کرکے گئے ابھی بھی موجود ہیں۔ حتی کہ کئی عمارتیں جو وہ ہمارے لیے چھوڑ گئے ہم نے ان کی دیکھ بھال نہیں کی، لیکن پھر بھی وہ آج تک قائم ہیں۔ دوسری طرف ہمارے منصوبے ایک دہائی بھی اپنی پائیداری کا ثبوت نہیں دے پاتے۔

سوائے 1970ء کے انتخابات کے ہر انتخابات متنازعہ رہے ہیں۔ ہارنے والا ہار نہیں مانتا۔ پھر احتجاج اور دھرنے اور جلوس کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اور یہ کسی بھی سرمایہ کار کو بھگانے کے لیے کافی ہے۔ جو حکومت سے باہر ہوں وہ حکومت کو گرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ 1988ء سے لے کر مشرف کی ایمرجنسی تک نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان میوزیکل چئیر کے کھیل نے کافی پہلے جمہوریت کا پاکستان میں مستقبل واضح کردیا تھا۔ لیکن پھر 2008ء میں جمہوریت کے ذریعے ملک سے انتقام لیا گیا۔ آج پندرہ سال کی جمہوریت کے بعد ہم کونسی ایسی چیز جو ملک میں مثبت ہوئی ہے دکھا سکتے ہیں تاکہ ہمارا قومی وقار بلند ہوسکے؟ جواب آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ کچھ بھی نہیں۔

اب یہ سب جانتےہوئے کس جماعت کو ووٹ دیں ہم؟

ملک سدھارنے کا سادہ فارمولا یہ ہے: ہر شعبے سے جڑے کئی اعلی کارکردگی اور ایمانداری کا مظاہرہ کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ کئی زمیندار ہیں جو کسانوں کے ساتھ ظلم نہیں کرتے، مثالی پیداوار فی ایکڑ محیا کرتے ہیں، جدید طرز پر ذراعت کے شعبے کو اپنی نجی زمین میں چلا رہے ہیں، ان کو ذراعت کی وزارت دینا بنتا ہے نہ کہ اس سیاستدان کو جو پیسہ چلا کر وزیر بنتا ہے۔ کئی پولیس کے اعلی افسران ہیں جو ایمان داری اور کارکردگی کے حوالے سے اپنا لوہا منوا چکے ہیں، انہیں وزارت داخلہ چلانے دیں نہ کہ شیخ رشید اور رانا ثناء اللہ کو، جنہیں کوئی تجربہ اس محکمے کے حوالے سے نہیں۔

لیکن ایسا ہوتا دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ جمہوریت کی دیوی کی پرستش کی جارہی ہے۔ میں جمہوریت کو برا نہیں سمجھتا۔ لیکن اگر آپ کو ٹی وی بنانی ہے تو آپ مرچ مصالحے تو استعمال نہیں کریں گے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے پاس وہ پرزے ہی نہیں جو جمہوریت کو صحیح طور پر پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہیں۔

ایک طرف وہ سیاستدان ہیں جو اربوں روپے کے محلات میں رہتے ہیں، وہ بھی ملک سے باہر۔ دوسری جانب ایسے سیاستدان ہیں جو نوجوانوں کو کہتے ہیں کہ مجھے بچاؤ، میری ڈھال بنو، پڑھائی چھوڑو، گالیاں دو میرے ناقدین کو، میرے جلسوں میں اور دھرنوں میں شریک ہوجاؤ اور میرے لیے اپنا مستقبل تباہ کرو۔

جمہوریت کے بغیر کئی ملک آج بھی ترقی کر رہے ہیں۔

دبئی، سعودی عرب، اور قطر جیسے ممالک میں ہمارے کئی پاکستانی بھائی روزی کی تلاش میں جاتے ہیں۔ افسوس!کہ وہاں وہ راستے تعمیر کرنے میں، ملک کی ترقی میں وقت صرف کر رہے ہیں۔ نہ کہ سیاستدانوں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات سننے میں۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ دھاندلی روکنی ہے، بیلٹ پیپر کہاں چھپنے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ انہیں بس کام سے مطلب ہے۔ افسوس!

چین میں کوئی جمہوریت نہیں۔ ایک ہی جماعت ہے۔ لیکن وہ بھی ترقی یافتہ ملک ہے۔ جنوبی کوریا میں کئی سال آمریت رہی، آج وہ دنیا کی معیشت پر چھا چکا ہے۔ ترکی میں کئی سالوں تک فوج بر سر اقتدار رہی، لیکن اس دوران وہاں ہمیں ترقی دیکھنے کو ملی۔

ہمارے اپنے ملک میں ایوب خان دور میں وہ پے آئی اے کا ادارہ (جس کے بارے میں اب کہا جاتا ہے کہ اس کی تو نجکاری بھی ممکن نہیں، کوئی مفت میں بھی پی آئی اے نہیں لے گا، کیونکہ خسارہ اتنا زیادہ ہوگیا ہے)اس وقت عالمی ریکارڈز قائم کر رہا تھا، دوسرے ملکوں کی ائیر لائنز کو تربیت دے رہا تھا۔ مشرف دور میں ہی وہ میڈیا آزاد ہوئی جو آج بڑی فعال ہے—ساتھ ساتھ اسی مشرف کو گالیاں دیتی ہے کہ وہ آمر تھا۔ ٹیلی کوم اور انٹرنیٹ کے شعبے نے جو ترقی دیکھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

لیکن کیا کریں۔ ہمیں ترقی راس ہی نہ آئی۔ ہمیں چیخنے چلانے والے، بڑے بڑے وعدے کرنے والے سیاستدان چاہیے تھے، وہ ہمیں مل گئے۔ کوئی بات نہیں، جمہوریت کو موقع تو دیں۔ پھل بھی نصیب ہوگا۔ اسی امید پر ہماری دنیا قائم ہے۔

البتہ میرا سوال ابھی بھی جواب کا منتظر ہے: ووٹ کارکردگی کی بنیا د پر کسے دیں؟

باشام باچانی

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔