1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. میں نہیں مانتا

میں نہیں مانتا

آپ نے اپنی زندگی میں یہ دیکھا ہوگا کہ اکثر لوگ حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کو ترجیح دیتے ہیں۔ مثلاً، کوئی بیچارہ کہہ بیٹھے کہ "میں شادی شدہ کرنےکے بعد خوشحال زندگی گزاروں گا، اپنی بیوی کو خوش رکھوں گا" تو اکثر لوگ اسے کچھ اس قسم کی باتیں سناتے ہیں:"اچھا جی، دیکھیں گے۔ کرو تو سہی شادی پھر دیکھتے ہیں۔" کوئی کہے گا:"شادی؟ اور وہ بھی خوشحال؟ کیوں اپنے آپ کو بیوقوف بنا رہے ہومیاں! شادی صرف تین مہینے کی ہوتی ہے، پھر صرف لڑائی ہوتی ہے۔"دعا کس چیز کا نام ہے، ہمیں کیا معلوم۔ اسی طرح اگر کوئی کہے کہ"میں انشاءاللہ ایماندار افسر بن کر دکھاؤں گا" تو پھر ہمارا رویہ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے:"لو کرلو بات!او بھئی!جب آئیں گے نا رشوت دینے والے تمہارے پاس روزانہ لاکھوں کروڑوں لے کر، تب تمہیں پتہ چلے گا کہ ایمانداری محض کتابوں اور خطبوں میں جگہ بناتی ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے تو مال کی ضرورت ہے۔" یہ منفی رویہ نہ صرف ہمارے لیے نقصان دہ ہے، بلکہ اس شخص کے لیے بھی جس کے سامنے ہم اس قسم کی فضول باتیں بکتے ہیں۔ اصولاً تو ہمیں اس شخص کو دعا دینی چاہیے۔ ہمارے الفاظ کچھ اس قسم کے ہونے چاہییں:"انشاءاللہ!اللہ تمہیں ہر نیک کام میں کامیاب کرے۔"

اس موقع پر مجھے اپنی زندگی کا ایک واقعہ پیش کرنے کا جی چاہ رہا ہے۔ سناؤں؟ سناؤں؟ ظاہر ہے۔ آپ لوگ کیوں منع کریں گے۔ میرا ایک دوست مجھے بار بار کہے جارہا تھا کہ"دیکھو، شادی سے پہلے تو بھابھی محترمہ تمہیں محسوس کرا رہی ہیں کہ وہ زیادہ خرچ نہیں کریں گی۔ لیکن شادی کے بعد دیکھنا کیسے وہ بھی دوسری بیویوں کی طرح تمہاری جیب پر ڈاکا ماریں گی۔ آخر عورت کی فطرت کو کوئی تبدیل کرسکتا ہے بھلا؟ ہر عورت یہی کرتی ہے۔" خیر شادی ہوئی، اور میری اہلیہ صاحبہ نے ثابت کیا کہ وہ جیب پر ڈاکا مارنے کے بجائے اس کی سلائی کرنا چاہتی ہیں (یعنی وہ تو جیب کو بند کرنا چاہتی ہیں تاکہ پیسے نکلے ہی نہیں) تو میں نے اسی دوست سے کہا:"اب سناؤ۔"تو وہ کہنے لگا:"ابھی شادی کو تھوڑا اور وقت دو، پھر پتہ چلے گا۔"یعنی ہمیں ماننا ہی نہیں کہ دنیا میں اچھائی نام کی کوئی چیز بھی ہے۔ خود برے ہیں تو سمجھتے ہیں ساری دنیا بری ہے۔ خیر، شادی کو ڈھائی سال ہوگئے ہیں، اور میری اہلیہ ابھی بھی جیب کی سلائی میں مصروف ہیں۔

کسی حد تک اس میں ہمارے بڑوں کا قصور بھی ہے۔ بچوں کو سمجھانے کے بجائے انہیں طعن اور طنز کا شکار بنایا جاتا ہے۔ وہ کیا خوب فرمایا گیا ہے قرآن میں: "خرابی ہے ہر طعنے دینے والے اور عیب نکالنے والے میں۔" (سورۃ ہمزہ، آیت 1) کسی چھوٹے بیچارے سے غلطی ہوجائے، تو اسے طعنہ دیا جاتا ہے:"یہ بچے ہیں، انہیں کیا معلوم۔"کوئی چھوٹا بیچارہ ایسی چیز لے آئے، یا کوئی ایسا سودا کر آئے جو زیادہ سود مند نہ ہو، تو اکثر بڑے کہتے ہیں:"ٹھگ لیا تمہیں دکان والوں نے۔ تم بچوں کو کیا معلوم لین دین کے بارے میں۔"اچھا جی، اگر چھوٹوں کو کچھ نہیں معلوم تو آپ کو کس لیے بھیجا گیا ہے؟ بے شک وہ بیچارے تجربہ نہیں رکھتے، لیکن انہیں تجربہ دینے کی صلاحیت کس کے پاس ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ والدین بچوں کو سکھائیں، بجائے اس کے کہ انہیں ڈانٹیں۔ وہ اگر کوئی کمی کوتاہی کر رہا ہے تو آپ کی ذمے داری ہے کہ اس کمی کو پر کریں۔ طعن اور طنز سے تو وہ نہیں سدھرنے والا۔ (وہ الگ بات ہے کہ پیار سے سمجھانے کے بعدبھی، اور وہ بھی لگاتار۔ اگر وہ نہ سدھرے تو معاملہ دوسری نوعیت کا ہوجائے گا۔ پھر آپ کوخاموشی اختیارکرنی چاہیے۔ آپ اپنی ذمے داری پوری کرچکے۔)

اصل بات یہ ہے کہ ڈانٹنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ اب تربیت کا ہی معاملہ لے لیجیے۔ آئے روز ہمیں والدین سے یہ شکایت موصول ہوتی ہے کہ"اولاد بگڑ گئی۔ ہماری بات نہیں سن رہی۔"وغیرہ، وغیرہ۔ لیکن تربیت پر کتنے لوگ دھیان دیتے ہیں۔ بلکہ دیکھا جائے تو بہت سے والدین بچوں کو خود بگاڑتے ہیں۔ وڈیو گیم، سمارٹ فون، پی سی یا لیپ ٹوپ وغیرہ، حتی کہ(قانوناً) وقت سے پہلے گاڑی یا بائیک کی سہولت، یہ سب کچھ کون بچوں کو مہیا کرتا ہے؟ ظاہر ہے:والدین۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ان ساری سہولتوں سے بچوں کو محروم رکھا جائے۔ لیکن ساتھ ساتھ کتابیں، ورزش کا سامان وغیرہ جیسی چیزیں بھی تو بچوں کی زندگی میں داخل کرنی چاہییں۔ دین سے لگاؤ اور اس کی تعلیم تو والدین کی اول ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن یہاں زیادہ سے زیادہ یہ کہ مولوی صاحب کو آدھے گھنٹے کے لیے مدعوکیاجاتا ہے تاکہ وہ بچوں کو قرآن پڑھائیں، البتہ اس دوران بچے ترجمے اور تفسیر سے بالکل محروم رہتے ہیں۔ تو پھر کہاں سے بچہ سدھرے گا؟

دراصل اپنی گریبان دیکھتے ہوئے ہمیں موت پڑ جاتی ہے، نہیں، بلکہ ہم تو اندھے ہوجاتے ہیں۔ اپنی غلطیوں پر ہماری نگاہ نہیں رہتی۔ پھر ہمیں ایک بہانہ مل جاتا ہے اپنی تقدیر کو کوسنے کا۔ تقدیر سے شکوہ ہر دوسرے غلط انسان کی کہانی ہے۔ بہت سے لوگ پوچھتے ہیں: "میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہورہا ہے؟ "میں ایسے دولوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے دو یتیموں کی ملکیت پر ڈاکا مارا ہے۔ اس کا غلط استعمال کیا ہے۔ ان یتیموں کو اپنی میراث سے محروم کیا ہے۔ کبھی ان یتیموں کو نہیں بتایا کہ آپ کی ملکیت سے کتنا بن رہا ہے۔ ان دونوں سے میں نے یہ جملہ کثرت کے ساتھ سنا ہے، کیونکہ ان کے برے اعمال ان کی تقدیر پر اثر کرتے ہیں "پتہ نہیں کونسا گناہ کیا ہے میں نے کہ یہ سب ہورہا ہے میرے ساتھ۔"اب آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن اور حدیث میں یتیم کی عزت اور اس کی ملکیت کی حفاظت پر کتنا زور دیا گیا ہے۔ یہاں میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ایک ایک حدیث اور آیت کو بیان کروں۔ البتہ سورۃ فجر کی کچھ آیات ہیں جنہیں میں یہاں بطور سند پیش کرنا چاہتا ہوں: "انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جب اسے اس کا رب بذریعہ اپنی نعمت اور عنایت آزماتا ہے، تو وہ کہتا ہے:میرے رب نے مجھ پر کرم کیا۔ البتہ جب اسے رزق کی تنگی سے آزمایا جاتا ہے، تو وہی انسان شکایت کرتا ہے:میرے رب نے مجھے ذلیل کیا۔ نہیں!بلکہ تم نہیں یتیم کو عزت دیتے۔ اور تم مسکین کی کفالت پر زور نہیں دیتے۔ تم میراث سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔ مال کی محبت میں تم شدیدیت سے گرفتار ہو۔"(آیت 15 تا 20) یعنی اللہ آپ کو ذلیل نہیں کرتا رزق کی تنگی سے۔ آپ اپنے اعمال کے ذریعے اپنے رزق پر لات مارتے ہیں۔ یتیم کے ساتھ برا رویہ رکھوگے، اس کی میراث کو سمیٹ کر کھا جاؤ گے تو پھر کس منہ سے تم کہتے ہوکہ"میری کیا غلطی؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کونسا گناہ کیا میں نے؟"؟

پر جی کیا کریں۔ گناہ چیز ہی ایسی ہے کہ انسان کی آنکھیں کھلتی ہی نہیں۔

پی ٹی وی دور کے ڈرامے دیکھنے کا اگر آپ کو شوق ہو تو اشفاق احمد صاحب کا ڈرامہ"سائیں اور سکائی ٹرسٹ" ضرور دیکھیں۔ ڈرامے میں ایک بزرگ کا قول بہت معنے خیز ہے۔ فرمایا:"سن بیٹے!ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہا کر۔"مخاطب کا جواب آتا ہے:"جی بہتر سائیں!"سائیں پھر فرماتے ہیں:"کام بھی ہم تمہیں بتا دیتے ہیں "مخاطب الجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن سائیں اسے کہتے ہیں:"سنو بیٹے!سنو!تم ہر وقت اپنی غلطیوں پر نظر رکھا کرو۔ ایک ایک کر کے اپنے وجود کے کرتے سے غلطیوں کی جوئیں نکالتی رہا کرو۔ اپنی غلطیوں پر نظر رکھنے والا آدمی دنیا میں سب سے زیادہ مصروف رہتا ہے۔ اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کی غلطیاں پکڑے۔ تو بیٹے!تم بھی مصروف رہا کرو۔"

خیر اشفاق احمد صاحب تو اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں۔ ساتھ ساتھ ایسے ڈرامے بھی۔ البتہ حبیب جالب کا قول ہم نے کچھ زیادہ ہی اپنے گلے لگا لیا ہے:"میں نہیں مانتا!میں نہیں مانتا!"میرے نزدیک اپنی غلطیوں کی نشان دہی کرنا، اعتراف کرنا اپنی کمزوری کوتاہی کا، ایک بہادری کا کام ہے۔ اللہ ایسے بہادری ہم سب کو دے۔ آمین!

باشام باچانی

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔