1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. مظلوم یا ملزم؟

مظلوم یا ملزم؟

بالفرض ایک والد صاحب ہیں جن کے دوتین صاحبزادے ہیں۔ سبھی بیٹے والد کی بہت عزت کرتے ہیں، حتی کہ انہوں نے دنیا دیکھی ہی والد کی نگاہ سے ہے۔ انہیں اصل دنیا کا علم ہی نہیں۔ وہ والد کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ایک دن والد صاحب گھر آتے ہیں اور کہتے ہیں میرے پیارےبچو! چلو میں تم لوگوں کو پہلوانوں کے پاس لے جاتا ہوں۔ تم لوگ پہلوان بنو گے۔ اور بچے، کیونکہ انہوں نے اصل دنیا دیکھی نہیں، ان کی بات مان کر دنگل کی راہ لیتے ہیں۔ وہاں مختلف پہلوان کھڑے ہیں۔ اب یاد رہے والد نے جلد بازی کی ہے۔ اگر وہ بچوں کا خیر خواہ ہوتا تو پہلے ان کی پہلوانی کے میدان میں تربیت کا بندوبست کرتا۔ انہیں ایسی غذا کھلاتا، انہیں ایسی ورزش کرواتا، کہ وہ پہلوانوں کا مقابلہ کرتے۔ لیکن بچوں کی حالت یہ ہے کہ وہ قد، جسم اور طاقت میں پہلوانوں کے خلاف ایک فی صد کی بھی طاقت نہیں رکھتے۔

اب پہلوان ان بچوں کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ کبھی وہ لڑنے سے منع کرتے ہیں تو کبھی بچوں کو ہلکی سی مار سے دور کردیتے ہیں۔ جبکہ والد صاحب دور کہیں بیٹھے ہیں اپنی "بلٹ پروف" گاڑی میں اور جب وہ شیشہ نیچے کرتے ہیں تو اپنے بچوں کو کہتے ہیں: میرے بچو!خوف کے بت توڑ دو۔ آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملے گی۔ جاؤ پہلوانوں کا مقابلہ کرو۔ حقیقی آزادی اور جہاد میں ہم مصروف ہیں۔ اور پھر گفتگو کے بعد والد صاحب سر پر بلٹ پروف بالٹی ڈال دیتے ہیں۔

جب پہلوان کہتے ہیں کہ بھئی! آپ کیوں نہیں تشریف لاتے۔ تو والد صاحب فرماتے ہیں کہ میری جان کو خطرہ ہے۔ مجھے مار دیا جائے گا یا گرفتار کرلیا جائے گا۔ اور اسی دوران وہ بچے اپنے والد کے ارد گرد ڈھال بنا کر پہلوانوں سے مخاطب ہوتے ہیں: سن لو!ہمارے والد ہماری سرخ لکیر "ریڈ لائن" ہیں۔ انہیں پچھاڑنے کا سوچنا بھی مت۔ ورنہ منہ کی کھاؤ گے۔ وہ پہلوانوں کو پیٹرول بم دیکھاتے ہیں اور لاٹھیاں بھی۔

پہلوان پھر بھی بچوں کو اور والد کو بخشتے ہیں۔ ایک سال تک مسلسل والد صاحب اپنی گاڑی میں بیٹھ کر پہلوانوں کو گالیاں دیتے ہیں اور بچے بھی پہلوانوں کو تنگ کرتے ہیں۔ لیکن جب پہلوان بچوں کے قریب جاتے ہیں تو والد صاحب لوگوں کے سامنے ایک مہم چلا دیتے ہیں۔ کہتے ہیں: اوئے! میرے بچوں کو مار رہے ہو۔ اوئے!میرے بچوں کو تم نے "ننگا"کردیا۔

ایک سال بعد بالآخر پہلوانوں کا صبر جواب دے جاتا ہے۔ وہ والد صاحب کی گاڑی کے شیشے توڑ کر انہیں لے جاتے ہیں۔ بچے اس کے رد عمل میں پہلوانوں کے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں۔ بلکہ کئی سال پرانی تاریخی چیزیں بھی جلادیتے ہیں۔ جیسے کہ کسی پہلوان کے والد کا انعام یا خط یا کچھ بھی۔ پہلوان پھر ان بچوں کو مارنا شروع کرتے ہیں۔ بچوں کے سر پھٹ جاتے ہیں۔ وہ ہسپتال چلے جاتے ہیں۔ والد صاحب البتہ محفوظ ہیں اور وہ پہلوانوں کی گرفت سے بچ کر اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔

اگلے دن والد صاحب پوری دنیا کے سامنے اپنی مظلومی کے رونے روتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم مذمت کرتے ہیں کہ پہلوانوں کے گھر جلے۔ کہتے ہیں ہمارے بچے تو اس میں ملوث ہی نہیں تھے۔ بلکہ پہلوانوں نے ہی اپنے بندے بھیجے جنہوں نے ان کے اپنے گھر جلائے۔ تاکہ ان کے خلاف مقدمہ مضبوط ہوسکے۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ جی آپ کے بچے آپ کو اپنی سرخ لکیر کہتے تھے، اس پر موصوف کہتے ہیں کہ جی یہ انہوں نے کہا تھا۔ میں تو انہیں یہ نہیں کہا۔ کہتے ہیں کہ ہم تو پر امن لوگ ہیں۔ کبھی کوئی تشدد اور انتشار کی بات نہیں کی۔ جبکہ ان کے ماضی کے بہت سے واقعات توڑ پھوڑ کے موجود ہیں۔ کہتے ہیں پہلوانوں نے مجھ سے لڑنا تھا تو میرے پاس آتے اور کہتے آؤ۔ میں تو نہیں ڈرتا پہلوانوں سے۔ جبکہ حقیقت میں جب پہلوان ان کے قریب آتے تھے تو بچے پیڑول بم دیکھاتے۔

ایسے بندے کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہونگے؟ کوئی بھی ذی شعور ایسے بندے کو مظلوم تو دور انسان بھی نہیں سوچے گا۔ جو بندہ پہلے خود بغیر تربیت کے اپنے بچوں کو دنگل لاتا ہے۔ پھر جب بچوں کو مار پڑتی ہے تو ان کی حالت کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ کہتا ہے: دیکھو جی!ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔

اگر پہلوانوں کو اسٹیبلمنٹ سمجھا جائے اور بچوں کو جاہل پی ٹی آئی کے کارکنان اور والد کو عمران خان سمجھا جائے تو آج کی صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔

وہی اسٹیبلشمنٹ جو بقول پرویز الہی، عمران خان کی نیپیاں بدلتی رہی، جو عمران خان کو لانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی، دس سال زور لگا کر، عمران خان کے مخالفین کو جیل ڈال کر، ان کو وزیر اعظم بنانے میں کامیاب ہوئی، اسی اسٹیبلشمنٹ نے پندرہ دنوں میں پوری پی ٹی آئی کا صفایا کردیا۔ یہی طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس پہلے بھی موجود تھی۔ لیکن داد دیں کہ انہوں نے مسلسل برداشت کرنے کو ترجیح دی۔ جب تک 9 مئی جیسا سانحہ پیش نہ آیا، اسٹیبلشمنٹ نے عمران کان کو بخشا۔

آج عمران خان جھوٹ کے اوپر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ کہتے ہیں میں تو گرفتاری سے ڈرتا نہیں۔ گرفتار کرنا تھا تو مجھے وارنٹ دیکھا کر گرفتار کر لیتے۔ جبکہ حقیقت بچے بچے کو پتہ ہے۔ بچوں، نوجوانوں اور خواتین کی ڈھال کا استعمال کرکے وہ کئی دنوں اور مہینوں سے گرفتاری سے بھاگ رہے تھے۔ بلکہ اب تو انہوں نے مدعا کارکنان پر ڈال دیا ہے۔ کہہ رہے ہیں یہ سرخ لکیر والی بات میں نے تو نہیں کہی۔ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ گرفتاری سے نہیں ڈرتے تھے تو ضمانتوں کے اوپر ضمانتیں کیوں کروا رہے تھے؟ کارکنان پیڑول بم کیوں استعمال کر رہے تھے۔ پولیس کو مار کیوں رہے تھے چند مہینے پہلے۔ آپ نے انہیں کہا تھا کہ نوجوانو!ہٹ جاؤ۔ آپ کا بہادر لیڈر گرفتاری دے گا۔

آپ کو یاد ہوگا عید سے پہلے عمران خان نے کارکنان سے التجا کی تھی کہ تیار رہیں، یہ لوگ عید کے دن بھی کاروائی ڈال سکتے ہیں۔ بھئی!آپ تو گرفتاری سے بھاگ ہی نہیں رہے تھے۔ تو کارکنان کو اپنے ارد گرد جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یعنی عمران خان ایسا جھوٹ بول رہے ہیں جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ چند دن پہلےفرمایا کہ جو ان کی خواتین کارکنان گرفتار ہوئیں، ان کے ساتھ جیلوں میں زیادتی ہورہی ہے۔ ویڈیو آچکی ہے، معتدد خواتین کہہ رہی ہیں ایسا نہیں ہوا۔ خواتین پولیس اہلکار اور انتظامیہ جیل جاکر ساری خواتین سے تفتیش کر آئے ہیں۔ یہ سب جھوٹ نکلا۔ لیکن عمران خان نے ایسے سنگین الزام لگانے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ وہ خواتین کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں۔

بلکہ وہ تو کہہ رہے ہیں ہم نے 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ نہیں کیا۔ وہ تو کوئی اور خلا سے مخلوق آئی اور ہمارے درمیان شامل ہوکر اس نے یہ سب کیا۔ الٹا اتنا بڑا جھوٹ غیر ملکی صحافیوں کو انٹرویوز دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تو کبھی انتشار اور فساد کی سیاست کی ہی نہیں۔ ہم تو ہمیشہ پر امن رہے ہیں۔ اتنا بڑا جھوٹ وہ بھی سیدھے منہ۔ استغفر اللہ!لوگوں کو وہ وقت نہیں بھولا، کم از کم عقل مند وں کو، جب پی ٹی وی کے دفتر پر حملہ ہوا اور عارف علوی اور عمران خان کی گفتگو لیک ہوئی۔ جس میں عارف علوی انہیں بتا رہے ہیں کہ جی پی ٹی وی کے دفتر پر حملہ ہوا ہے۔ عمران خان رد عمل میں کہیں بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ "او ہو!ہماری تو یہ پالیسی نہیں۔ ہم تو پر امن رہیں گے۔ "وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اس لیک میں وہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیے جاسکتے ہیں کہ جتنا دباؤ ڈالیں گے اتنا نتائج ہمارے حق میں ہونگے۔

بالفرض آپ کے کارکنان نے یہ نہیں کیا۔۔

جبکہ حقیقت سب کو پتہ ہے۔ عمران کان کے اپنے بھانجے کور کمانڈر کی وردی کے ساتھ کیا کرتے ہوئے پکڑےگئے ہیں، سب کو پتہ ہے۔ چوہدری اعجاز اور ان کے صاحبزادے کی آڈیو لیک آچکی ہے۔ سب کو پتہ ہے۔ کس نے کیا کیا اس دن۔ لیکن عمران خان سیدھا سفید جھوٹ بول رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں ہم تو اس دن پر امن احتجاج میں ملوث تھے۔ لہذا اس دن جس نے بھی اپنے لیڈر کے عشق میں توڑ پھوڑ کی اور آج وہ جیل میں سڑرہا ہے، ان کے ساتھ اچھا ہوا۔ آپ نے اپنے ملک اور اس کی افواج اور ملک کے بہادر لوگوں کی نشیانیوں کو ایک زانی جمع بزدل کے لیے مسمار کیا، آج وہ شخص آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ اس کا آپ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ بالکل ٹھیک ہوا ان بے شرموں کے ساتھ۔

چلیں ایک منٹ کے لیے مان لیتے ہیں کہ وہ آپ کے کارکنان نہیں تھے جنہوں نے توڑ پھوڑ کی اور جلاؤ گھیراؤ کی راہ اپنائی۔ لیکن آپ یہ تو مانتے ہیں کہ آپ لوگوں نے احتجاج کرنا تھا انہی جگہوں پر جہاں یہ سب کچھ ہوا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے، آپ کے نوجوانوں کی زبان کے بارے میں بچہ بچہ آشنا ہے، آپ کو نہیں پتہ وہ پولیس پر پیٹرول بم پھینک چکے ہیں، وہ پہلے پارلیمان اور پی ٹی وی کے دفتر پر حملہ آور ہوچکے ہیں، وہ درخت جلا چکے ہیں، جلسے میں خود آپ کی بات نہیں مانتے، آپ کو ان کو چپ کرانا پڑتا ہے، خواتین کے ساتھ جلسے میں کیا ہوتا ہے، غریدہ فاروقی کے ساتھ کیا ہوا آپ کو معلوم ہے، آپ اچھی طرح اپنی جماعت کے نوجوان اور کارکنوں کی بدتمیزی اور بے حیائی سے آشنا ہیں، لیکن پھر بھی آپ نے انہیں حساس مقامات پر احتجاج کے لیے لے جانا پسند کیا۔

یہ اس طرح ہے جیسے ایک بندہ، جو بندوق کا وزن برداشت نہ کرسکتا ہوں، جو بندوق چلانا اور سنبھالنا نہ جانتا ہو، وہ بھری بندوق بازار لے جائے جہاں بوڑھے، بچے، نوجوان، خواتین وغیرہ سب موجود ہوتے ہیں۔ وہاں جب اس سے گھوڑا چل جائے اور کئی لوگوں کی لاشیں گر جائیں، تو وہ کہے کہ پولیس مجھے کیوں گرفتار کرکے لے جارہی ہے، یہ گھوڑا تو میرے کسی دشمن نے چلایا مجھے بدنام کرنے کے لیے۔

ایک سال تک آپ مسلسل فوج کو، اعلی فوجی افسروں کو اور پورے نظام اور حکومتِ وقت کو گالیاں دیتے رہے، الزام بغیر کسی ٹھوس شواہد کے لگاتے رہے، آپ کی سوشل میڈیا بریگیڈ فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کو نشانہ بناتی رہی، آپ نے دارالحکومت کے کئی درخت جلائے، آپ کے کارکنان پولیس پر پیٹرول بم پھینکتے رہے، آپ نے خاتون جج کو دھمکی دی۔۔ اور اب آپ حیران ہیں کہ ہمیں قید کیوں کیا جارہا ہے؟ ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم نے کیا کیا ہے؟ بھئی!اور کیا کیا جائے آپ کے ساتھ؟

جہاد، حقیقی آزادی کی باتیں آپ کرتے رہے۔ کبھی فرصت ملے تو پڑھیں کہ جہاد کے لیے کیا کچھ درکار ہے۔ کبھی آزادی کی تاریخ پڑھیں۔ پتہ تو چلے کہ آزادی اور جہاد کا مطلب کیا ہے۔ ہم نے تو جب بھی انقلاب اور آزادی اور جہاد کا سنا تو اس میں یہی پایا کہ ان گنت دن تشدد، قید اور قربانیاں درکار ہوتی ہیں۔

آپ کو پتہ تھا کہ آپ کس قسم کی تقریر کرتے ہیں، کس قسم کے الزام لگاتےہیں، کس قسم کے دباؤ کا استعمال کرتے ہیں، تو نوجوانوں کی کچھ دن تربیت کرتے۔ انہیں دھوپ میں کئی دن بیٹھاتے۔ انہیں گندے کھانے کو کھانے کا عادی بناتے۔ انہیں مارتے پیٹتے تاکہ وہ جیل اور تشدد کے عادی ہوتے۔ اور اگر یہ ممکن نہیں تھا تو سیدھا کہتے کہ بھئی!ہم جہاد اور آزادی کی لڑائی کے لیے قابل نہیں۔

آپ کی مثال وہ ہے کہ آپ کو الیکٹریشن بھی بننا ہے، لیکن ساتھ ساتھ کہتے ہیں: بھئی!مجھے بجلی سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ میں بجلی کی تار کو نہیں پکڑوں گا۔ کرنٹ لگ گیا تو؟ تو بھئی!الیکٹریشن بننے کا خواب بھی مت دیکھ!

میں نے پچھلے سال نومبر کے مہینے میں ایک مضمون لکھا تھا جو اسی ویب سائٹ پر شائع ہوا، عنوان تھا: "عمران خان کا انجام کیا؟"۔ اس میں میں نے لکھا تھا کہ:

"لیکن فکر نہ کریں۔ اس پاک وطن کو جس نے بھی اپنے مفادات اور انا اور غرض کی خاطر نقصان پہنچایا ہے وہ عبرت کا نشانہ بنا ہے۔ انشاء اللہ عنقریب اس شخص(یعنی عمران خان) کا بھی یہی حال ہوگا۔ اندرا گاندھی نے پاکستان کو دو ٹکڑے کیا، پڑھیں اس کی موت کیسے ہوئی۔ پڑھیں کہ شیخ مجیب کا قتل کس طرح ہوا۔ دیکھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا کیا انجام ہوا۔ دیکھیں ضیاءالحق کی موت کیسے واقع ہوئی۔ دیکھیں آج مشرف کس حالت میں ہے۔ دیکھیں الطاف حسین کی کیا حالت ہے۔ کاش یہ شخص جانتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوگا"۔

ابھی تو دعوت شروع ہوئی ہے۔ مشکل سے ایک مہینہ گزرا ہے، اچھے اچھوں کی ہوا نکل گئی ہے اور عمران خان کی رہائش گاہ ویران پڑی ہے۔ ابھی تو موصوف نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ فلم جب اختتام کو پہنچے گی، تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بابِ عبرت میں ایک نیا مضمون لکھا جائے گا۔ اور اس بار اللہ کرے ہم اس باب کو پڑھیں جو کئی سالوں سے تحریر کیا جارہا ہے۔

باشام باچانی

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔