1. ہوم/
  2. آپ بیتی/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. کتابِ زندگی (1)

کتابِ زندگی (1)

پڑھنے والے اکثر سوال کرتے ہیں کہ جماعت چہارم کے طالب علم نے جس کی عمر مشکل سے ساڑھے آٹھ پونے نو سال تھی گھر سے نکل کر کراچی جانے کا ہی فیصلہ کیوں کیا۔ کیا حالات تھے اور حوصلہ کیسے ہوا۔

ہم 14بہن بھائی تھے، تھے اس لئے کہ ایک بہن اور دو بھائی وفات پاچکے ہیں۔ بہن بچپن میں وفات پاگئی تھی میں آج تک اپنی اس معصوم صورت انمول سی بہن کو نہیں بھول پایا۔ 65 برس کا سفر حیات مکمل ہونے کو ہے شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ مجھے اپنی وہ مرحومہ بہن یاد نہ آئی ہو۔ وہ مجھ سے چھوٹی تھی اسے گود میں لئے پھرتا اس سے کھیلتا اور باتیں کرتا رہتا تھا۔ ایک دن وہ بھائی کی گود خالی کرکے رخصت ہوگئی۔

والد بزرگوار فوج میں تھے 1950ء کی دہائی میں برپا ہوئی اینٹی قادیانی تحریک کے دوران جب مولانا سید مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو سزائے موت سنائی گئی تو میرے والد بھی ان بارہ فوجی افسروں میں شامل تھے جنہوں نے آفیسر میس تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس امر پر اتفاق کیا کہ حکومت کو سزائیں سنانے کی بجائے مسئلہ کا قابل عمل حل نکالنا چاہیے۔

چند دن بعد ان تمام افراد کو جبری ریٹائر کردیا گیا۔ والد محترم سید محمود انور بخاری نے دوسری جنگ عظیم سے قبل رائل آرمی میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ فوج سے رخصت کئے جانے کے بعد انہوں نے ملتان میں متعدد کاروبار کئے یہ کاروبار منافع بخش تھے لیکن ہمارے والد کے لئے نقصان کا باعث بنے اس کی ایک وجہ ناتجربہ کاری رہی اور دوسری وجہ کاروبار ملازموں کے سر چھوڑ کر خود اپنے دوست مولانا خان محمد ربانی مرحوم کے ساتھ جماعت اسلامی کی دعوتی سرگرمیوں میں مصروف رہنا۔

کاروبار میں اوپر نیچے نقصانات کے بعد کچھ عرصہ مقامی طور پر ملازمتیں بھی کیں بعدازاں سعودی عرب چلے گئے۔ والدہ محترمہ جنہیں اہل ملتان آج بھی سیدہ عاشو بی بی وعظ والی کے نام سے یاد کرتے ہیں خواتین کی محافل میں وعظ کرتی تھیں۔

ہمارے نانا مفتی سید عبدالرحمن شاہ بخاریؒ اپنے وقت کے معروف عالم دین اور خطیب تھے۔ ایک مذہبی خاندان تھا ویسا جیسا اس وقت اور اب بھی ہوتا ہے۔ نمازوں کی ادائیگی کے لئے پابندی بلکہ بچوں پر اس حوالے سے سختی۔ سختی بھی ایسی کہ اب بھی یاد کرتا ہوں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔

ہمیں صبح نماز کے لئے بیدار کیا جاتا منہ ہاتھ دھوتے وضو کرتے گھر سے نماز کی ادائیگی کے لئے نکلتے۔ دونوں بڑے بھائی مسجد چلے جاتے مگر میں خونی برج سے 14 نمبر چونگی جانے والی سڑک (ٹی بی ہسپتال روڈ) پر واقعہ چاچا حاجی یار محمد المعروف یارو فلودے والا کی دکان پر پہنچ جاتا۔

دوسری جماعت کا طالب علم تھا۔ گھر کا ماحول مذہبی ہونے کے ساتھ لکھنے پڑھنے کے حوالے سے خوشگوار تھا۔ میں چاچا یارو سئیں کو اخبار کی سرخیاں پڑھ کر سناتا اس عمل میں 20سے 25منٹ لگتے۔ انہیں کوئی سرخی پسند آتی تو کہتے "بی بی دا پوتر آ میکوں اے خبر سنڑا" (بی بی جی کے صاحبزادے مجھے یہ خبر پڑھ کر سنائو) چاچا یار محمد اخبار کی سرخیاں اور ایک دو خبریں جو انہیں سرخیوں سے دلچسپ لگتیں سننے کے بعد گرمیوں میں مجھے ایک پیالہ دہی (پائو بھر) برف ڈال کر دیتے اور سردیوں میں سوہن حلوہ کا ایک ٹکڑا ساتھ میں چائے کا آدھا کپ۔ یہ میرا مختانہ تھا۔

گھر والوں کو یہ تاثر دے رکھا تھا کہ میں نماز چوک پر ٹی بی ہسپتال والی سڑک کی سمت واقعہ گھڑی والی مسجد میں پڑھتا ہوں۔ دن مہینے سال گزرتے گئے۔ والد صاحب سعودی عرب سے رخصت پر آئے انہوں نے بچوں کے معمولات دریافت کئے پھر انہوں نے محلہ کی تین مسجدوں کے پیش نماز صاحبان سے اپنے بچوں کی نماز باجماعت میں شرکت بارے معلومات حاصل کیں۔

اب ستم یہ ہوا کہ جس مسجد میں میں نماز پڑھنے کا دعویدار تھا اس گھڑی والی مسجد کے پیش نماز چچا سید انور شاہ گیلانی نے والد صاحب کو بتایا کہ صاحبزادہ نماز پڑھنے تو نہیں آتا البتہ حاجی یار محمد کی دکان پر انہیں اخبار کی سرخیاں پڑھ کر سناتا ہے۔

ابا جان نے مزید چھان بین کی ہم مجرم ٹھہرائے گئے۔ نماز کے چور بچے کے ساتھ مذہبی گھرانے میں جو سلوک ہوتا ہے وہ ہمارے ساتھ ہوا اور خوب ہوا جو سوٹی ابا جان کے ہاتھ میں تھی وہ ہم پر ٹوٹ گئی تو دوسری سوٹی استعال ہوئی اس مار پیٹ کے ردعمل میں ہم نے کہہ دیا

"یہ عربی ڈانس نہیں ہوتا مجھ سے"

ابا حضور کا غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا مارنے کی ایک اور شفٹ لگی۔ یہ دو شفٹوں کی مار چوتھی جماعت میں پڑھنے والے بچے کو گھریلو ماحول اور والد کا باغی بناگئی۔

پرتشدد کارروائی نے دل و دماغ میں گرہ ڈال دی۔ معصوم ذہن میں نماز نہ پڑھنے پر ہونے والے تشدد نے عجیب و غریب سوالات کاشت کردیئے۔ ایک سوال مجھے آج بھی یاد ہے وہ یہ کہ اگر نماز نہ پڑھنے پر کسی بچے کو اس کا باپ اس بے رحمی سے مارتا ہے تو جس خدا کی نماز ہے وہ کیا کرے گا۔

اس سوال نے والد اور خدا دونوں کا باغی بنادیا۔ ہمارے ذہن میں یہ نقش ہوگیا والد اور خدا مطلب کی محبت کرتے ہیں۔

اسی واقعہ یعنی مارپیٹ کے بعد کے اگلے چند روز گھر کا ماحول میرے لئے بدترین رہا بہن بھائی والد سے چھپ کر مجھے اپنے حصے کی چیز کھانے میں شریک کرتے۔ میری والدہ، بڑی بہن اور ایک بڑے بھائی (میں اپنے اس بڑے بھائی کو ہمیشہ سے بھیا ابو کہتا ہوں) مجھے پیار سے کہتے سمجھاتے کہ میں عربی ڈانس والے کفریہ کلمات پر والد صاحب اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگوں اور نماز باقاعدگی سے پڑھا کروں مگر میرے اندر جس ضد اور انکار نے جگہ بنالی تھی اس میں والدہ، باجی اور بھائی کی محبت بھری باتیں دراڑ نہ ڈال سکیں۔

والد صاحب کو کھانا بنانے کا بہت شوق تھا وہ توے پر قیمے والی ٹکیاں بہت اچھی بناتے تھے ویسی لذیذ ٹکیاں پھر نصیب نہیں ہوئیں۔

انہی دنوں میں ایک دن جو میرے حافظے پر نقش ہے اس دن خوب بارش ہوئی۔ آموں کا موسم بھی تھا، والد صاحب ڈھیر سارے آم لائے اور قیمہ بھی انہوں نے توے پر قیمے والی ٹکیاں بنائیں آم بالٹی میں پانی اور برف میں ٹھنڈے ہورہے تھے سارے بہن بھائی دوپہر کے کھانے کے لئے والد و والدہ کے اردگرد چوکڑیاں مارے بیٹھے تھے دو یا تین ٹکیاں اور ایک ایک آم سب کو ملا۔ مجھے عادت تھی (اب بھی ہے) کھانا تیزی سے کھاتا ہوں اس دن آدھی روٹی باقی تھی آم ختم ہوگیا۔

میں نے ابا جان سے دوسرا آم مانگا انہوں نے غصہ سے کہا "بے نمازی کو کھانا دینا بھی گناہ ہے، تم تو کفریہ کلمات کہتے ہو جو دے دیا وہی کافی ہے"۔

والدہ کچھ کہنے لگی تھیں کہ والد صاحب نے انہیں خاموش رہنے کو کہا۔ باقی کی آدھی روٹی میں نے پانی کے ساتھ کھالی اس دوران میرے بڑے بھائی (بھیا ابو) نے اپنے ہاتھ میں موجود آم مجھے دینے کی کوشش کی تو والد محترم نے انہیں ڈانٹ دیا، اس پر بچپنے کے غصے میں، میں نے کہہ دیا میں عاشو بی بی کا یبٹا ہوں خیرات نہیں لیتا۔

والد صاحب نے تڑخ کر کہا تو پھر مزدوری کرو اور جی بھر کے آم کھائو۔

مجھے آج بھی یقین ہے کہ انہوں نے یہ بات محبت میں کہی ہوگی لیکن میرے دل میں ایک اور گرہ پڑگئی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد جب سب سوگئے میں جاگتا رہا اور کراچی سے آنے والے ان رشتہ داروں کی باتوں کو یاد کرتا رہا جو ہماری والدہ سے کرتے تھے یہی کہ خالہ جان، ممانی، پھپھو، چچی جان، کراچی بڑا غریب پرور شہر ہے ہم دن میں محنت مزدوری کرتے ہیں شام کو پڑھتے ہیں ایک کزن نے بتایا تھا وہ صبح کالج جاتا ہے اور شام کو ملازمت کرتا ہے۔

یہ دوپہر اور رات میں کراچی کی باتیں یاد کرتے سوچتے گزاریں اور فیصلہ کیا کہ مجھے یہ گھر چھوڑ کر کراچی چلے جانا چاہیے۔ وہاں میں بھی بھائی منور (ایک کزن) کی طرح محنت مزدوری کرکے پڑھوں گا۔

مجھے یاد ہے کہ ہفتہ دو ہفتہ قبل عید گزری تھی عیدی کے پیسے میرے پاس تھے والد صاحب جب سعودی عرب سے رخصت پر آئے تھے تو انہوں نے سب بہن بھائیوں کو پانچ پانچ روپے دیئے وہ بھی میرے پاس تھے۔

جہاں تک مجھے یاد ہے میرے پاس کل ملاکر 21روپے تھے۔ گھر سے جانے کا فیصلہ کرتے وقت مجھے یاد آیا کہ بھائی منور کہتے تھے میں جب بھی کراچی سے آتا یا واپس جاتا ہوں خیبر میل ایکسپریس سے سفر کرتا ہوں۔

یہ مجھے یاد تھا یہ گاڑی دوپہر میں ملتان سے کراچی روانہ ہوتی ہے سو ڈیڑھ دن کی سوچ بچار کے بعد اس سے اگلی دوپہر جب سب گھر والے کھانا کھاکر سوگئے میں نے ایک جوڑا کتابوں والے تھیلے میں رکھا چپکے سے گھر سے نکلا النگ کے راستے تیزی سے حرم گیٹ پہنچ کر ریلوے سٹیشن جانے والے تانگے میں سوار ہوگیا۔

(لیجیے سفر حیات کی کہانی کا پہلا باب لکھ دیا دوسرا باب آپ گزشتہ قسط میں پڑھ چکے ہیں)۔