1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. ملتان اور ملتانیوں کی یادیں، باتیں

ملتان اور ملتانیوں کی یادیں، باتیں

نئے سال کو پہلی سلامی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں ملی۔ اس پر شکریہ ادا کرنا ہے کہ گھبرانا ہے؟ وزیراعظم نے بتایا ہے کہ "ملک میں خاموش انقلاب آرہا ہے"۔ فقیر راحموں کے بقول اس کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ مسائل، حالات، مہنگائی تینوں مل کر لوگوں کی ایسی ٹھکائی کریں گے کہ لوگ رونا اور ہنسنا دونوں بھول جائیں گے۔

سال کے پہلے دن "نور پیر ویلے" ایک دوست کا پیغام موصول ہوا "شاہ جی زندگی ہر نئے دن کے ساتھ تلخ ہوتی جارہی ہے دعائوں کی درخواست ہے"جوابی پیغام بھیجا، حضور آپ خوش قسمت ہیں والدہ محترمہ حیات ہیں ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیجئے اور دعائیں سمیٹ لیجئے"۔

اچھا ویسے یہ فقط آج (یعنی یکم جنوری 2022ء کی بات نہیں ہر نئے سال کے پہلے دن پچھلے برس کے خسارے کا حساب کرتے ہوئے سب سے زیادہ امڑی یاد آتی ہیں اور ملتان۔ کچھ دوست اکثر پوچھتے ہیں امڑی اور ملتان کو اتنا یاد کیوں کرتے ہو؟ عرض کرتا ہوں اس لئے کہ میری شناخت کے یہی دو حوالے ہیں۔ وعظ والی سیدہ عاشو بی بی مرحومہ کا بیٹا اور ملتانی ہونا۔ بھلا کوئی آدمی اپنی شناخت کے سچے سُچے حوالوں کو لمحہ بھر کے لئے بھول بھی سکتا ہے۔

پچھلے سال کی آخری اور نئے سال کی پہلی درمیانی شب میں یادوں کی دستک پھوار میں تبدیل ہوگئی۔ ایک ایک کرکے ماہ و سال کی یادوں نے کبھی مسکراہٹیں عطا کیں اور کسی لمحے آنسو، یادیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ نیند نجانے کب آئی۔ پھر خود کو امڑی کے شہر میں پایا۔ خود کو بغیر سہارے کے چلتے گھومتے دیکھا۔ خونی برج چوک سے النگ کی سیڑھیاں چڑھ کر بالائی سڑک سے پاک گیٹ کے راستے صرافہ بازار سے ہوتا ہوا مسجد ولی محمد کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔

چوک بازار میں خاصی رونق تھی مردوزن کا ہجوم، بس ایک آدھ چہرے پر اطمینان دیکھائی دیا۔ اکثریت تو جیسے مشینی انسان تھے۔ ضرورتوں سے بندھے ہوئے۔ سپاٹ چہرے، ایسا کیوں ہے؟ فقیر راحموں نے کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا"یار شاہ جی تلخی حالات نے زندگی کی مسکراہٹیں چھین لی ہیں "۔

ہم دیر تک مسجد ولی محمد کی سیڑھیوں پر بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اب تک کے سفر حیات میں بچھڑ جانے والوں کو یاد کیا کبھی تاریخ کے اوراق الٹے۔ نذر عباس بلوچ۔ سعدی خان۔ لالہ عمر علی خان بلوچ۔ عزیز نیازی۔ تاج محمد لنگاہ، حسن رضا بخاری (رضو شاہ)، عطاء اللہ ملک، لالہ زمان جعفری، حکیم محمود خان، الطاف چغتائی سمیت بہت سارے ملتانیوں کویاد کیا جو سفر حیات طے کرکے منوں مٹی کی چادر اوڑھے سورہے۔ مرزا گلزار احمد مرحوم بہت یاد آئے۔ ان کے آستانے پر لگی سجی محفلیں بھی۔ ملتان ملتان ہے۔ جنت نشان ملتان۔

قدیم تاریخ کی نشانیوں سے بھرا ملتان۔ حملہ آور آئے جی بھر کے لوٹا، اُجاڑا، جلایا، ملتانیوں نے شہر پھر بسالیا۔ آج حملہ آوروں کے نام کتابوں میں ملتے ہیں اور ملتان اپنی جگہ آباد ہے۔ پھل پھول رہا ہے آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب قلعہ کہنہ قاسم باغ کا کیفے عرفات، گھنٹہ گھر چوک کا کیفے شاہد، کچہری روڈ کا ہوٹل فاران اور ڈیلیکس ہوٹل کے ساتھ نواں شہر میں بابا ہوٹل اور چند دوسرے مقامات پر سپہر سے رات گئے محفلیں سجی رہتی تھیں۔

شاعر، ادیب، سماج سدھار، سیاسی کارکن اور قلم مزدوروں کی ان محفلوں میں تاریخ، سیاسیاتِ عصر اور علم و ادب کے فیض لٹائے جاتے تھے۔ ڈیرہ اڈا کا ہوٹل شب و روز بھی کچھ دانشوروں کا مستقل ٹھکانہ تھا۔ گلگشت کالونی کے گول باغ کے سبزہ زار پر اس شہر کے زندہ چہرے زندگی سے بھرپور گفتگو کرتے دیکھائی سنائی دیتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب راجہ پرہلاد کا دانش کدہ (جسے لوگ پرہلاد مندر کہا کرتے تھے اسکی طرز تعمیر کی وجہ سے) علمدار اسلامیہ کالج کا ہوسٹل تھا۔

راجہ پرہلاد کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے قدیم تاریخ کے اس ملتانی حکمران بارے کہا جاتا ہے کہ وہ اس خطے کے پہلے توحید پرست حکمران تھے۔ جس عمارت کو مندر کہا جاتا تھا وہ ان کے دور کا دانش کدہ تھا یوں سمجھ لیجئے توحید پرستوں کا مکتب (تعلیمی ادارہ)۔ یہ دانش کدہ بابری مسجد کے بدلے میں ریزہ ریزہ کیا گیا۔ حضرت شہاب الدین سہروردی شہید کے خلیفہ اول بہاء الدینؒ زکریا ملتانی (بہاوالحق زکریاؒ) اس دانش کدہ کے پہلو میں آباد ہوئے تھے۔ یہیں ان کی خانقاہ ہے۔

جناب زکریا ملتانی اور پرہلاد کا دانش کدہ دونوں صدیوں تک پڑوسی رہے۔ کیسا شاندار وقت تھا۔ گھٹن، تعصب، نفس پرستی، محفوظ وقت، پھر چند بونے بوزنے تاریخ اور روایات کو جوتے مارنے لگے۔ خیر ان بونوں بوزنوں کا ذکر کیا کرنا۔ شہر کا حوالہ تو اب بس شاہ رکن عالمؒ ہیں اور شاہ شمس سبزواریؒ (جنہیں لوگ شاہ شمس تبریزؒ بھی کہتے ہیں) شاہ جمال ملتانیؒ بھی اسی شہر کا حوالہ ہیں۔ خانقاہوؒں میں آرام کرتے ان بزرگوں کےعلاوہ بھی اس شہر کے درجنوں حوالے ہیں اپنے اپنے وقت کے۔

مولانا نور احمد خان فریدیؒ، عمر کمال خان ایڈووکیٹ، منشی عبدالرحمان خان، ڈاکٹر مہر عبدالحق، سید حسن رضا گردیزی، ممتازالعیشی، محمد حنیف، عتیق فکری، حیدر عباس گردیزی، سید محمد قسور گردیزی، سید شوکت حسین گیلانی، ولی محمد، قاری نورالحق قریشی، شیخ ریاض پرویز، ارشد ملتانی، اشفاق احمد خان، ایم اے گوہیر، عارف محمود قریشی اور راشد رحمان یہ سبھی اپنے اپنے وقت میں ملتان اور ملتانیوں کے روشن چہرے تھے۔

حیدر گردیزی بھی کیا کمال کے انسان تھے۔ علم و ادب اور درس و تدریس کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی بڑے بڑے نام اٹھے اس شہر سے اور اپنا آپ منوایا۔ فخر بلوچ، اصغر ندیم سید، پروفیسر شوق صاحب، عاصی کرنالی، ادمی کس کا ذکر کرے اور کسے بھلادے۔ ملتان اور ملتان کے باسی بھلابھلائے جاسکتے ہیں۔

بیرونی حملوں اور قبضہ گیریوں کے باوجود ملتان قائم و دائم ہے۔ قاسم خان خاکوانی تھے اور بہت ہیں۔ ملک الطاف کھوکھر بھی اسی شہر کی عوامی سیاست کا چہرہ ہیں۔ جسٹس فخرالنساء، ایک سے بڑھ کر ایک چندے آفتاب لوگ۔ ہمارے دوست منصور کریم سیال اب گوشہ نشین ہوچکے کبھی وہ محفلوں کی جان ہوتے تھے۔ مختصر یہ کہ ملتان ملتان ہے کرہ ارض پر اس جیسا دوسرا شہر کوئی نہیں۔ کسی بھی ملتانی سے پوچھ کر دیکھ لیجئے وہ سات سمندر پار بھی بستا ہو تو ملتان اس کے دل میں بستا ہے۔

ملتانیوں کا محبوب اول و آخر ملتان ہی ہے۔ یادیں یہاں تک پہنچی تھیں کہ فقیر راحموں کہنے لگے چلو شاہ جی۔ ہم مسجد ولی محمد کی سیڑھیوں سے اترے اور چوک بازار میں رواں دواں انسانوں کے ہجوم میں شامل ہوگئے۔ بازار کے اختتام پر حسین آگاہی چوک کی طرف مڑتے ہی مرحوم حافظ عبدالرحیم ربانی یاد آئے۔

یہیں ان کا بک سٹال ہوا کرتا تھا۔ حافظ صاحب مولانا خان محمد ربانی کے بھائی تھے۔ یہ دونوں بزرگ ہمارے بابا جان مرحوم کے دوست تھے۔ بابا جان کے دوستوں کی یاد آئی تو ملک علی بچہ مرحوم یاد آگئے۔ کبھی بہت حیرانی ہوتی تھی کہ ایک طرف خان محمد ربانی ہمارے بابا کے دوست ہیں تو دوسری طرف ملک علی بچہ آگ اور پانی کا یہ میلاپ۔

ہمارے بابا جان کے ایک اور دوست تھیے اللہ ان کی مغفرت فرمائے انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ملتان کی خصوصی فوجی عدالت میں ہمارے خلاف گواہی بھی بڑے دھڑلے سے دی تھی۔ ملتان اور ملتانیوں کی یادوں پر دفتر کے دفتر تحریر کئے جاسکتے ہیں لیکن کالم کے دامن میں گنجائش تحریر نویس کو پابند کرتی ہے۔ امڑی کا شہر ملتان دائم آباد رہے۔