1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. پیپلز پارٹی ڈیجیٹل میڈیا کے میدان میں

پیپلز پارٹی ڈیجیٹل میڈیا کے میدان میں

تاخیر سے ہی سہی بالآخر پیپلزپارٹی کو خیال آہی گیا کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، منظم انداز میں اس محاذ پر بھی پیش قدمی کی جائے۔ پی پی پی ڈیجیٹل میڈیا کا قیام اسی سوچ کا عملی نتیجہ ہے۔ 30 اپریل کی سپہر پی پی پی ڈیجیٹل میڈیا سنٹرل پنجاب کا کنونشن لاہور میں ہوا۔ یقیناً پیپلزپارٹی کے حوالے سے ایک اچھی موثر بلکہ جاندار تقریب تھی۔ قدیم اور متروک جیالوں کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی نمائندگی بہت بھرپور رہی۔ پی پی پی کی ذیلی تنظیموں نے اپنی زندگی کا ثبوت دیا۔

ایک طویل عرصہ سے منفی پروپیگنڈے کو جھیلتی پیپلزپارٹی کو جوابی حکمت عملی اپنانے کا جب بھی مشورہ دیا جواب ملا، ہم سیاسی لوگ ہیں ہماری پارٹی کی ایک تاریخ ہے، جدوجہد اور قربانیوں سے عبارت، ہمیں کیا ضرورت ہے جھوٹ بولنے والوں کو جواب دے کر وقت ضائع کریں، ہم اپنا کام کررہے ہیں بس یہی ٹھیک ہے۔

لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ پی پی پی کو احساس ہوگیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر اور گالی کا دلیل سے دینا بہت ضروری ہے۔ پیپلزپارٹی میں موجود کچھ دوستوں اور عزیزوں کاموقف ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے انچارج کے طور پر شرجیل انعام میمن کا انتخاب درست نہیں۔ میں ذاتی طور پر ان عزیزوں اور دوستوں کی رائے کی حمایت کرسکتا ہوں نا مخالفت، یہ خالص ان کی جماعت کا اندرونی معاملہ ہے۔

ویسے سیاسی جماعتوں میں"پیا چاہے تو سہاگن ہو" کے مصداق معاملہ ہوتا ہے۔

آج کے اس دور میں جب ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت اور دوسری تنظیمیں سوشل میڈیا کی طاقت کا مہارت کے ساتھ استعمال کررہی ہیں، پیپلزپارٹی نے اس میدان میں بہت دیر بعد قدم رکھا۔ حالانکہ پاکستان میں جدید الیکٹرانک اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی بانی محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہیں۔

محترمہ ویسے تو پاکستان کے جدید میزائل پروگرام کی بھی بانی بھی تھیں یہ وہی تھیں جو شمالی کوریا سے جدید میزائل ٹیکنالوجی پاکستان لے کر آئیں تب کچھ عرصہ بعد جب ہمارے نظام میں موجود امریکی پٹھوئوں کے ذریعے امریکہ کو اس امر کی اطلاع ملی تو کہا گیا کہ اگر ہمیں اس وقت بھنک بھی پڑجاتی کہ بینظیر بھٹو شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی لے جارہی ہیں تو عالمی قوانین خاطر میں لائے بغیر ان کے جہاز کو حادثے سے دوچار کردیا جاتا۔

اچھی بات یہ ہے کہ پاکستانی ریاست نے زیادہ دیر تک ان کے اس احسان کا بوجھ اٹھائے نہیں رکھا بلکہ ایک دن لیاقت باغ کے باہر سڑک پر انہیں ماردیا۔

معاف کیجئے گا بات کہاں سے شروع ہوئی اور کدھر نکل گئی مگر کیا کیجئے یہی اس ملک کی تاریخ ہے اور تاریخ کے نام پر ہمیں جو قصے کہانیاں پڑھائی جاتی ہیں ان میں خود کو یا پچھلی نسلوں کو تلاش کرکے دیکھادیجئے۔

ایک شاندار تقریب تھی لیکن کیا بذریعہ ڈیجیٹل میڈیا پی پی پی کی نشاط ثانیہ کا باعث بن سکے گی؟ یہ اہم اور بنیادی سوال ہے اس سے ملتے جلتے خیال کا حامل ایک سوال تقریب میں میرے ساتھ بیٹھے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا تو عرض کیا، "پیپلزپارٹی کو بالغ نظر سیاسی کارکنوں، نئے خون یعنی طلباء، مزدور اور کسانوں کی ضرورت ہے یہی نشاط ثانیہ کی ضمانت بن سکیں گے"۔

ایک جملہ اور بھی کہا تھا لیکن حد ادب کی وجہ سے تحریر نہیں کررہا۔

پی پی پی ڈیجیٹل میڈیا یقیناً ایک اچھا قدم ہے لیکن کیا پیپلزپارٹی کے پاس اب کارکنوں کا وہ سرمایہ ہے جو نئی نسل کی تاریخی اور عصری امور کے حوالے سے رہنمائی اور تربیت کرسکے؟ مثال کے طور پر 30 اپریل کی تقریب کے لئے سٹیج سیکرٹریز کے طور پر جن دو نوجوانوں (ایک نوجوان اور ایک صاحبزادی) کا انتخاب کیا گیا ان کی گفتگو میں جذبہ تو تھا لیکن مطالعہ اور خود پی پی پی کی تاریخ کا شعور نہیں تھا۔

مناسب ہوتا یہ کام پی پی پی اپنی صفوں میں موجود ان لوگوں سے لیتی جو پاکستانی سیاست، ریاست اور پیپلزپارٹی کی تاریخ کے ساتھ تاریخ و سیاسیات کے تقابلی مطالعے کے حامل ہوتے کیونکہ یہ کنونشن بنیادی طور پر تربیتی کنونشن تھا لیکن بن دعوت ولیمہ گیا۔

اسی طرح کنونشن کے مقام پر ایک دو اداروں کو کہہ کر کتابوں کے سٹال لگوائے جاسکتے تھے یا پھر پی پی پی کا شعبہ اطلاعات خود یہ ذمہ داری اٹھاتا اور مختلف اداروں سے شائع شدہ بھٹو صاحب اور محترمہ بینظیر بھٹو کی کتابوں اور ان پر لکھی گئی کتابوں کے ساتھ تاریخ و سیاسیاست کی منتخب کتب کا سٹال لگوالیتا۔

اس موقع پر پی پی پی کے ماضی اور حال کے ساتھ مستقبل کے بیانیہ سے شرکاء کو متعارف کروانے کے لئے کم از کم 8یا 12 صفحات کا ایک بروشر شائع کرالیا جاتا۔ لمز یونیورسٹی کے جس پروفیسر صاحب کو تقریر کے لئے بلایا گیا وہ خود نہیں جانتے تھے کہ ان کا موضوع کیا ہے اور سیاسی تقریب کے شرکاء کو کیسے کسی خاص موضوع کے حوالے سے رہنمائی دی جاسکتی ہے۔

تقریب کے اصل میزبان اور مہمان خصوصی شرجیل انعام میمن دو گھنٹے کی تاخیر سے کنونشن میں پہنچے۔ یہ پیپلزپارٹی کی عمومی روایات کے یکسر برعکس ہے۔ معلوم نہیں وہ ذاتی طورپر تاخیر سے تقاریب میں شرکت کے عادی ہیں یا انہیں لانے والوں کا خیال تھا کہ مہمان خصوصی جتنی دیر سے آئے کارآمد ہوتا ہے۔

اپنے مہربان دوستوں رانا شرافت علی ناصر عبدالرزاق سلیمی اور ڈاکٹر محمد ضرار یوسف کی دعوت پر اس تقریب میں بطور مبصر شریک ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سارے دوستوں اور عزیزوں سے ایک ہی چھت کے نیچے ملاقات ہوگئی۔

پیپلزپارٹی نے اگر اپنے سوشل میڈیا گروپ کو مستقل رکھنا ہے تو پھر اسے کارکنوں کی سیاسی تربیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے لئے اضلاع اور تحصیل کی سطح پر سٹڈی سرکلز کا قیام اشد ضروری ہے۔ جہاں اہل دانش کے علاوہ سوشل میڈیا کو مہارت کے ساتھ استعمال کرنے اور منفی پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے رہنمائی ہو۔

ایک کلچر جو ہر جگہ ہے وہ ہے پسندوناپسند کا یہ بہرحال سیاسی تاریخ رکھنے والی پیپلزپارٹی میں بھی ہے اور تقریب کے دوران بغور اس کا مشاہدہ بھی کیا۔ سیاسی جماعتوں کی اپنے نظریاتی کارکنوں سے دوری کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں اولاً پسندوناپسند اور ثانیاً طبقاتی احترام و دوری۔

ایک زمانے میں یہ خرابیاں پی پی پی اور بعض دیگر ترقی پسند جماعتوں میں نہیں پائی جاتی تھیں لیکن اب ہر جگہ یکساں حالات ہیں۔ پی پی پی کو اپنے اس نئے شعبہ کو ان خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے احتیاط کے ساتھ تنظیم سازی اور دوسرے مراحل طے کرنا ہوں گے۔

ویسے بہتر ہے کہ خود پی پی پی بھی عشروں سے اپنی جڑوں میں بیٹھی ان خرابیوں سے نجات حاصل کرے۔ راجہ پرویز اشرف کے سپیکر قومی اسمبلی بننے کے بعد سے پی پی پی سنٹرل پنجاب قائم مقام صدارت کے ذریعے چلائی جارہی ہے۔ یہ مسئلہ بھی تاخیر کے بغیر حل کیا جانا ضروری ہے۔

سیاسی جماعتوں کے آگے بڑھنے کے دو ذریعے ہوتے ہیں، نظریاتی تنظیمی ڈھانچہ اور مرکزی شخصیت۔ پی پی پی کے پاس مرکزی شخصیت تو ہے نظریاتی تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے۔ ایک طویل عرصہ سے کاغذی انتخابات کی خانہ پری اور نامزدگیوں کے نوٹیفکیشنوں سے کام چلایا جارہا ہے۔

پی پی پی کے ساتھ ساتھ اس کی ذیلی تنظیموں کی ازسرنو تنظیم سازی بہت ضروری ہے۔ یقیناً بھٹو صاحب بڑے آدمی تھے محترمہ بینظیر بھٹو بھی صد ہزار ہا بار لائق احترام سیاستدان تھیں۔ پی پی پی والے دوست آصف علی زرداری کو سیاسی دائو پیچ کا ماہر سمجھتے اور امام سیاست کہتے ہیں لیکن اگر پیچھے ایک منظم اور حقیقی عوام دوست جماعت ہی نہ ہو تو فائدہ؟

یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ پی پی پی کوئی سوشلسٹ جماعت ہے نا طبقاتی جدوجہد والی پارٹی یہ ایک قومی جمہوری پارٹی ہے جس میں معاشرے کے تمام طبقات کے لوگ موجود ہیں البتہ ان طبقات میں بُعد بدرجہ اتم موجود ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر پی پی پی کے کچھ لوگوں کا رویہ مذہبی جماعتوں کے کارکنوں جیسا ہوتا ہے انہیں بھی پارٹی یہ باور کرائے کہ آپ ایک قومی جمہوریت سیاسی جماعت کے رکن ہیں۔

حرف آخر یہ ہے کہ پی پی پی ڈیجیٹل میڈیا صرف کنونشنوں کے انعقاد تک ہی محدود نہ رہے بلکہ جس مقصد کیلئے یہ شعبہ قائم کیا گیا ہے اس مقصد کے حصول پر بھی بھرپور توجہ دی جانی چاہیے۔