1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. بات رشتے کی چلی ہے، کہیں ہائے نہ بنے

بات رشتے کی چلی ہے، کہیں ہائے نہ بنے

بات رشتے کی چلی ہے، کہیں ہائے نہ بنے
ماں کو لڑکا نہ جچے، باپ کی رائے نہ بنے

ساگ وہ آن پڑا ہے مرے گھر میں کل سے
پھینک دیں؟ دل نہ کرے اور بنائے نہ بنے

تیرے اجداد کو فرعون سے نسبت ہوگی
عقل کی بات سنے، اپنا بنائے، نہ بنے

کیجئے عشق، جہاں حیلہ گری ممکن ہو
کیا بنے بات جہاں بات گھمائے نہ بنے

ہم کو ٹھکرائے اگر، غیر کے گھر میں تجھ سے
گول روٹی نہ بنے، ڈھنگ کی چائے نہ بنے

ہاتھ باندھے ہوں ترے، ناک پہ مکھی بیٹھے
منہ بنانے سے ہٹے اور اڑائے نہ بنے

فربہی حسن کی، عشاق کی دشمن ٹھہری
کہ اٹھائے نہ اٹھے اور بھگائے نہ بنے

عشقِ دیرینہ کی آمد پہ ادھیڑوں کی دعا
درد جوڑوں میں اٹھے، آئے تو جائے نہ بنے

ہو گئے تیس برس ان سے ملاقات ہوئے
نام یوں دل پہ لکھا ہے کہ مٹائے نہ بنے

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ بکسا حامد
جو اٹھائے نہ اٹھے اور گرائے نہ بنے

وہ جو قامت پہ بہت ناز کیا کرتے تھے
مہر کو گہن لگا شام کے سائے نہ بنے