1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. پُر پیچ و تاب، شعلہ سا، ہم پر گزر گیا

پُر پیچ و تاب، شعلہ سا، ہم پر گزر گیا

پُر پیچ و تاب، شعلہ سا، ہم پر گزر گیا
ٹانگوں کے بیچ تیز کوئی یارکر گیا

مودی، مرا رقیب، پری زاد کا غرور
سنتے ہیں، اب کے جائے گا، لیکن اگر گیا

"پینسٹھ تلک رہے گی مری جان نوکری"
کہہ کر اسی خوشی سے اٹھاون کا مر گیا

جس کی دلہن کی کھوج رہی دو جہان تک
رشتہ ہوا کزن سے، ممانی کے گھر گیا

"سب کھا گئے ہو، چار چھے کیلے تو چھوڑ دو"
یہ کہہ کہ اس درخت سے بندر اتر گیا

چوری کھلا رہی تھی ہمیں دلبری کے ساتھ
نیت نہیں بھری تھی مگر پیٹ بھر گیا

اس نے کہا کہ خاک محبت کریں، "یہ بِل!"
عشاق میں جو شیخ تھا، خرچے سے ڈر گیا

عینِ شباب ہم کو رکھا لڑکیوں سے دور
ہم کو ڈبو کے، پھر وہ سمندر اتر گیا

گھٹنوں کا، پیٹ درد کا، دل کا، دماغ کا
آئی مطب میں وہ، تو ہر اک ڈاکٹر گیا

بوسہ، نہ خود دکھے نہ کسی کو دکھا سکیں
مبہم سا ایک گال پہ نقطہ سا دھر گیا

پھر بے وفا کے گھر سے خبر دوسرے کی ہے
لُدَّھڑ لگے گا یہ بھی اگر باپ پر گیا

پوچھا جو تیرے بعد محبت کرے گا کون
مجنوں نے میرا نام لیا اور مر گیا