1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. خراب حال کا دکھ، آہ کا اثر بھی نہیں

خراب حال کا دکھ، آہ کا اثر بھی نہیں

خراب حال کا دکھ، آہ کا اثر بھی نہیں
اگرچہ کان بھی رکھتا ہے، بے بصر بھی نہیں

ہوس کے کوزوں میں چوزوں کا قورمہ، یخنی
گدائے عشق کے کاسے میں اک مٹر بھی نہیں

پڑا ہے گھر میں، ہمارا ہوا، نہ غیر کا ہے
عطائے یار، ادھر بھی نہیں، ادھر بھی نہیں

ابھی بھی خرچ وغیرہ مرے حساب سے ہیں
وہ مجھ سے روٹھے تو ہیں لیکن اس قدر بھی نہیں

ہمارے دونوں فرشتے ہیں، بائیں کاندھے پر
کہ کام کافی ہے، روداد مختصر بھی نہیں

نہ ہاتھ آوے ہے، مل جائے گر تو کیا کیجیے
دہن بھی نکتہ سا ہے، یار کے کمر بھی نہیں

جنابِ شیخ جو حوروں کی یوں تلاش میں ہیں
کہ سر میں درد نہیں اور اگر مگر بھی نہیں

ترا جو در ہے وہاں بھیڑ میں رکوع میں ہیں
زمیں دراز نہیں، قد سے معتبر بھی نہیں

ترے کزن جو تجھے شہر بھر گھماتے ہیں
وہ بے ضرر ہی سہی، اتنے بے ضرر بھی نہیں

جو شہرِ دل کا ترے، آخری محلہ ہے
وہاں پہ قید ہیں، مرضی سے، دربدر بھی نہیں

ہوئے ہیں ایک سے مسلم سقوطِ غیرت میں
کنارِ نیل سے غائب ہے، کاشغر بھی نہیں