1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حماد حسن/
  4. روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر

روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر

نئے سال کا پہلا دن یعنی یکم جنوری فجر کی نماز پڑھی اور سفر بھی مدینے کاتھا

مجھ جیسےگنہگار نے تو بس یہی مصرعہ پڑھا

“سمجھ میں کچھ نہیں اَتا وہ اِتنا مہرباں کیوں ھے“

راستے بھر وہی سیاہ اورخشک پہاڑ اور بنجر صحرائیں لیکن نُور انہیں پر برسناتھا اعتبار اِنہی کو ملنا تھا سہ پہر کے وقت مدینے کے نواح میں پہنچے تو بس ڈرائیور نے سواریوں کی طرف مڑ کر کہا ہم مدینے میں داخل ہو رہے ھیں درود پڑھنا شروع کریں بس پھر کیا تھا لرزتی آوازیں اور نم ناک آنکھیں جانے کس وقت ہوٹل کے کمرے میں سامان رکھا نہا کر کپڑے تبدیل کئے اور مسجدِ نبویٌ کی طرف پیدل چل پڑے پتہ ہی نہیں چلا بابُ السلام پر پہنچا تو خیال آیا کہ فردِ عمل میں ھے ہی کیا جو پیش کروں؟ معاً خیال آیا کہ وہ تو رحمتُ اللعالمین ھیں سو ذہن کو چین اور ڈگمگاتے قدموں کو سنبھالا ملا تو اپنے آپ کو جمِ غفیر کے دریا کے بھاوُ میں ڈالا جو سست روی لیکن تحمل کے ساتھ ہمیں آگے لے جا رھا تھا تھوڑی دیر بعد وہ سنہری رنگ کی جالیاں نظر آنے لگیں جہاں کائنات کے لئے قدرت کا سب سے عظیم تحفہ اپنے دونوں رفیقوں سمیت آ سودہ خاک ھیں فضا درود و سلام سے گونجتی رھی اور میں روضہ کے قریب سے قریب ہوتا گیا سکیورٹی بہت سخت ھے لوگ قطاروں میں سامنے سے گزر رہے ہیں اوربِلک بِلک کر رو رھے ہیں روضہ کے عین سامنے پہنچے تو درود و سلام کے بعد میں نے اپنے آپ پر قابو پانے کی ناکام سی کوشش کی اور یہی الفاظ پڑھے ـحضور ھم بہت دور دیسوں سے آئے اجنبی مسافر ہیں نہیں معلوم کہ کتنے صحرا پہاڑ اور سمندر پاٹ کر پہنچے عمل کی گٹھڑی میں کوئی ایسا نایاب تحفہ بھی نہیں جس پر فخر کریں غافل بھی ہیں اور گنہگار بھی حضور شرمندہ بھی ہوں اور سرنگوں بھی آنکھ اُٹھانے کی سکت تک نہیں لفظ بولنے کی تاب تک نہیں لیکن اس کے باوجود پُر اعتماد بھی ہوں کہ اُمتّی تو آپ ھی کا ہوں سرشار بھی ہوں کہ اس دہلیز پر بلایا گیا ہوں جہاں جبریلِ امین کو بھی داخل ہونے کے لئے اجازت درکار ہوتی ابھی میں بہت کچھ کہنے ھی والا تھا لیکن رُکنامحال تھا خلقت کا ایک توانا ریلا آیا اور مجھے چند قدم آگے لے گیا پلٹ کر دیکھا تو سنہرےرنگ کی جالی پیچھے رہ گئی تھی لیکن دنیا بھر کی طاقتیں اور بادشاہتیں میرے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ چکی تھیں۔

دروازے سے باہر نکلا تو دائیں جانب کو مڑا اور روضےکے مشرقی سمت میں دوبارہ آیا یہاں قبر کی دیوار سے ملحق تقریباً پانچ فٹ چوڑی اور پندرہ فٹ لمبی راہداری سی ھے جس میں لوگ نوافل پڑھ رہے تھے گزرنے والے راستے کی دوسری طرف ایک چبوترا سا ھے کسی نے کہا کہ اصحابِ صُفہ یہیں بیٹھا کرتے تھے راہداری قبروں کا حصہّ ہے میں نے اپنے بیٹے غزن سے کہا کہ حضورِ کریم کا گھر یہی تھا فقط تین چار مرلے زمین ھی۔ مزار کے احاطے میں کھڑا عربی منتظم بچّے کےانہماک اور سوالات کو دیکھ کر خلافِ توقع مسکرایا اور قریب آکر پوچھا یہ بچہّ کیا پوچھ رھا ہے میں نے جواب دیا کہ میں اسے بتا رہا ہوں کہ قبروں والی جگہ اور راہداری ہی حضورِکریمٌ کا گھر تھا عرب منتظم نے فوراً میری بات کی نفی کر دی اور کہا نہیں یہ حضرت علی اور بی بی فاطمہ کا گھر تھا صرف روضہ والی جگہ پر حضرتِ عائشہ کا چھوٹا سا کمرہ تھا جو سرکارِ دو جھاں کا گھر تھا میں نے دل ھی دل میں کہا...ِ اوہ خدایا. ...سردارِدو جھاں کا کُل دنیاوی اثاثہ یہی چند فٹ جگہ اور کچہ کمرہ ھی تھے (انگریز موئرخ مائیکل ھارٹ نے لکھا ھے کہ حضور کریم فتح مکہ کے بعد دنیا کےسامنے طاقتورترین رھنما اور حربی قوت بن کر منظر پر ابھرے تھے) اس کے باوجود بھی ایسی فقراور دیانت تبھی تو سخت گیر اور تاریک مکے میں اکیلے کھڑے ھوئے اور دنیا کو روشن کر گئے۔ عر ب منتظم کی بات سن کرمیں نے اور غزن نے ایک دوسرے کو شدید حیرت کے ساتھ دیکھا لیکن فوراً ایک دوسرے سے آنکھیں چُرانے لگے کیونکہ ان میں آنسوؤں کا ایک دریا اتر آیا تھا۔