1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حماد حسن/
  4. وہ واقعی ایک محافظ تھا

وہ واقعی ایک محافظ تھا

تب مشرقی پاکستان کے ساتھ "سوتیلا" سلوک عروج پر تھا۔ بھوکے ننگے بنگالی سے لے کر کیلے کے درخت کی آڑ لے کر رفع حاجت کرنے تک جیسے انتھائی توہیں آمیز زبان کا استعمال اور طعنے اسی طرح کا معمول تھے، جس طرح کا معمول آج کل اپوزیشن جماعتوں خصوصًا مسلم لیگ کے خلاف بنا ہوا ہے اور یہی وہ رویّہ اور حالات تھے جس نے مسلم کے ایک عام سے کارکن شیخ مجیب الرحمٰن سے عوامی لیگ کی نہ صرف بنیاد رکھوا دی بلکہ اسے پورے مشرقی پاکستان میں مبالغہ آمیز مقبولیت بھی دلائی اور پھر اسے علیحدگی کے راستے پر بھی ڈالا، جس سے ایک نفرت بھرا لاوا بھی بہہ نکلا۔ لیکن ایک عقیدت اور محبت میں گوندھی ہوئی کہانی بھی اسی دور کی پیداوار ہے جب نفرت کی آگ ہر سو بھڑک رہی تھی۔

پشتو بولنے والا جنرل اعظم خان تب ایسٹرن کمانڈ کو کمان کر رہے تھے اور ظاہر ہے نفرت کے اس لاوے کا رُخ ان کی طرف بھی تھا، جس لاوے کی زد میں ہر وہ شخص آیا ہوا تھا جسے پاکستانیت عزیز تھی۔

ان ہی دنوں چٹاگانگ میں تاریخ کا ہولناک سیلاب آیا اور گاؤں کے گاؤں صفحئہ ہستی سے مٹ گئے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے۔ امدادی ٹیمیں مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر صورتحال کو سنبھالنے کی کوششیں کرتی رہیں۔

ایک دن امدادی ٹیم ایک گاؤں میں پانی کے سامنے بند باندھ رہی تھی کہ ایک اجبنی آدمی بیلچہ لئے رضا کارانہ طور پر کافی دیر سے کام میں مصروف تھا کہ ایک شخص کی اس پر نظر پڑی تو فورًا پہچان لیا اور چیخ کر لوگوں کو متوجہ کیا کہ یہ تو جنرل اعظم خان ہے تو لوگ ایک دیوانہ وار عقیدت کے ساتھ اس کی طرف لپکے اور پھر اس محبت اور عقیدت میں شدید نفرت حتٰی کہ علیحدگی بھی دراڑ نہ ڈال سکی۔

کچھ عرصہ پہلے میرے ایک دوست بنگلہ دیش گئے تو واپسی پر جنرل اعظم خان کے حوالے سے احسان مندی اور محبت کی نا قابل یقین کہانیاں سناتا رہا۔

یہ واقعہ مجھے اس لئے یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے جب پورا پختونخواہ خصوصًا قبائلی علاقے شدید ترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہوئے تھے اور خوف کے ساتھ کسی حد تک نفرت کی فضا بھی جنم لے چکی تھی تو وہ بھی ایک جرنیل ہی تھا جس نے اپنی بہترین سٹریٹجی اور قابل داد بصیرت کے ذریعے اس سلگتی اور بھڑکتی ہوئی فضا پر امن اور محبت کی پھوار برسائی اور پھر ایک مدت بعد جب وہ پشاور کو چھوڑ کر جانے لگے تو باخبر لوگوں میں کم از کم ایک بھی ایسا آدمی دستیاب نہیں جو اس کی بہترین کارکردگی پر اسے خراج تحسین پیش کرنے میں کسی بخل سے کام لے۔

یہ جنرل شاھین مظہر محمود تھے جب اُنھوں نے کور کمانڈر پشاور کی حیثیت سے چارج سنبھالا تو اپنے دفتر کے دروازے بھی کھلے رکھے اور اپنا فون بھی ہمیشہ پہلی ہی گھنٹی پر اُٹھانے لگے یہی وجہ تھی کہ عام لوگوں (خصوصًا دھشت گردی سے شدید متاثرین) سے روابط بڑھے جس کی وجہ سے مسائل کی تہہ تک پہنچنے میں آسانی رہی اور اسی کو بنیاد بنا کر اُنھوں نے اپنی پالیسیاں تشکیل دیں جن میں سے ایک لیزان کمیٹیوں کا قیام تھا جس میں عام لوگ یعنی مشران اساتذہ، طالب علم اور علماء کرام وغیرہ شامل تھے، جن کے باقاعدہ اور تسلسل کے ساتھ میٹینگ ہوتے جس میں عسکری اور سول ایڈمنسٹریشن کے افسران بھی پابندی سے شرکت کرتے اور فوری طور پر مسائل کے حل کی طرف پیش رفت ہوتی۔

گڈ اور بیڈ طالبان کا تصور اُنھوں نے اُکھاڑ کر رکھ دیا اور ایک واضح لکیر کھنچی کہ شریف آدمی یا دھشت گرد۔ اسی تخیل اور بنیاد پراُنھوں نے اپنی پالیسی ہمیشہ استوار رکھی جس سے ایک خوشگوار اور کامیاب نتائج کا حصول ممکن ہوا اور پورے خیبر پختون خواہ خصوصا فاٹا میں دہشت گردی کی جگہ امن نے لے لی۔

ہم (صحافی) اکثر و بیشتر اپنی معلومات اور مشاہدے بلکہ عمومًا اپنے نظریات کے زیر اثر رہ کر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن ضروری تو نہیں کہ مثبت عوامل سے بھی اجتناب برتا جائے اور ایک قابل داد کارکردگی پر محض اس لئے خاموش رہا جائے کہ لوگ خوف یا خوشامد کا طعنہ دینے لگیں گے۔

اصل بات یہ ہے کہ جس شہر کا میں باسی ہوں وہاں ایک عرصہ پہلے سب والدین بچوں کو اکھٹے سکول بھی نہیں بھیج سکتے تھے، لیکن آج صورتحال اس سے یکسر مختلف بھی ہے اور خوشگوار بھی اور اس خوشگوار ماحول کو بنانے میں جس جس نے بھی حصہ ڈالا، وہی میرا ممدوح بھی ہے اور میرا ہیرو بھی!

اس سے قطع نظر کہ اس کا پس منظر اور شجرہ نسب کیا ہے یا میرے نظریات اور تحفظات کیا ہیں کیونکہ نظریات تقدس کا نام ہے تعصب کا نہیں۔ اس لئے ببانگ دھل کہتا ہوں کہ جنرل شاھین مظہر نے پختون قوم پر بہت بڑا احسان کیا کیونکہ ان کے تدبر اور بہادری کے بدولت ہی بحیثیت قوم ہمیں ایک خونخوار دہشت گردی سے چھٹکارا ملا اور ہم ایک پرامن فضامیں سانس بھی لینے لگے۔

جنرل صاحب بےشک آپ یہاں سے چلے گئے لیکن یہاں کے لوگ آپ کو آپ کی شاندار کردار کی وجہ سے ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے تشکر کے آنسوؤں اور عقیدت کی دعاؤں کے ساتھ اس سے بالاتر کہ کسی کا سیاسی قبلہ کیا ہے اور فکری قبلہ کونسا ہے۔ آپ کا کردار اس محافظ کے طور پر ہمیشہ امر رہے گا جس نے بڑھ کر اس عفریت پر کارگر وار کیا تھا جس کے منہ کو بے گناہ اور معصوم لوگوں کا خون لگ چکا تھا۔