1. ہوم
  2. کالمز
  3. حمزہ اشتیاق ایڈووکیٹ
  4. مودی کی مجبوری، جنگ ابھی ٹلی نہیں

مودی کی مجبوری، جنگ ابھی ٹلی نہیں

تاریخ گواہ ہے کہ جب آمر شکست کھاتے ہیں تو ان کے فیصلے انسانیت کے لیے زہر بن جاتے ہیں۔ آج وہی خدشہ پورے برصغیر پر منڈلا رہا ہے۔ نریندر مودی، جسے دو دہائیوں سے ناقابلِ شکست لیڈر تصور کیا جا رہا تھا، آج سیاسی، عسکری اور سفارتی محاذوں پر پے در پے ناکامیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کو پاکستان کی جانب سے منہ توڑ جواب ملنے اور پاکستان کے ہاتھوں ہونے والی سبکی نے مودی کی انا کو نہ صرف زخمی کیا بلکہ اب یہ اندیشہ بھی پیدا ہو چکا ہے کہ کہیں یہ زخمی انا کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لے جو پورے برصغیر کو آگ میں جھونک دے۔

مودی کی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک صدی پیچھے جانا ہوگا، وہ وقت جب دنیا پہلی جنگ عظیم کے زخم چاٹ رہی تھی اور یورپ میں فاشزم جنم لے رہا تھا۔ اٹلی میں مسولینی آیا، جرمنی میں ہٹلر ابھرا اور اس کے ساتھ ہی ایک سوچ پھیلی کہ ملک صرف ایک قوم کا ہونا چاہیے۔ اس فسطائی سوچ نے جلد ہی ہندوستان کا بھی رخ کیا۔

1925 میں ناگپور میں ڈاکٹر ہیڈگیوار نے فاشزم سے متاثر ہو کر "راشٹریہ سیوک سنگھ" یعنی آر ایس ایس کی بنیاد رکھی۔ یہ تنظیم ایک ہی نظریے پر قائم ہوئی، بھارت صرف ہندوؤں کے لیے ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کو یا تو ہندو بننے کا اختیار دیا جائے یا ملک چھوڑنے کا۔ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آر ایس ایس نے نوجوانوں کو عسکری تربیت دی، زعفرانی پرچم لہرا کر انہیں "ہندو راشٹر" کا سپاہی بنایا۔

1947 میں تقسیمِ ہند ہوئی تو آر ایس ایس نے اس کی شدید مخالفت کی۔ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن انہیں گوارا نہ تھا۔ اسی نفرت کا نتیجہ تھا کہ 1948 میں مہاتما گاندھی کو آر ایس ایس کے تربیت یافتہ رکن نتھو رام گوڈسے نے قتل کر دیا۔ قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی لگی، مگر اس نظریے کی کوکھ سے ایک سیاسی جماعت نے جنم لیا، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)۔

ابتدا میں بی جے پی کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔ مگر جب کانگریس کمزور ہوئی اور بھارت میں فرقہ وارانہ فضا پیدا ہوئی تو بی جے پی کے لیے میدان ہموار ہوگیا۔ واجپائی، ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے رہنماؤں نے پارٹی کو اٹھایا۔ پھر 2001 میں ایک نیا اور بھیانک چہرہ ابھرا، نریندر مودی۔

نریندر مودی نے گجرات میں 2002 کے مسلم کش فسادات کے دوران جو کردار ادا کیا، اس پر عالمی برادری نے سوالات اٹھائے۔ ہزاروں بے گناہ مسلمان مارے گئے، خواتین کی عزتیں پامال ہوئیں، لیکن مودی کو کوئی سزا نہ ملی، الٹا وہ ترقی کا چہرہ بنا دیا گیا۔ گجرات ماڈل بیچا گیا اور مودی 2014 میں دہلی کا تاج پہن کر وزیراعظم بن گیا۔

اس کے بعد جو ہوا وہ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ گائے کے نام پر قتل، اقلیتوں پر حملے، مساجد کی بے حرمتی، صحافیوں کا قتل اور پاکستان دشمنی کو ریاستی پالیسی بنا دینا، یہ سب ہندوتوا کے ایجنڈے کا حصہ بن گیا۔

2019 میں پلوامہ حملہ، "سرجیکل اسٹرائیک" کا ڈرامہ اور پھر ابھی نندن کی چائے، سب کچھ الیکشن جیتنے کے لیے استعمال ہوا۔ 2024 کے انتخابات میں بھی یہی تکرار دہرائی گئی: آرٹیکل 370، کشمیر، دہشت گردی اور پاکستان اور تیسری مرتبہ مودی وزیراعظم بن گیا۔

مگر 2025 کی بہار میں مودی کے مقدر میں زوال لکھا جا چکا تھا۔ 22 اپریل کو پہلگام میں ایک واقعہ ہوا، جسے بنیاد بنا کر مودی نے پھر سے پاکستان کے خلاف ایک اور چال چلی، ہمیشہ کی طرح بغیر تحقیق کے اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئیے الزام پاکستان پر لگا دیا اور جنگی صورتحال پیدا کردی۔ لیکن اس بار تاریخ نے پلٹا کھایا۔ کیونکہ پاکستان ہمیشہ کی طرح بے قصور تھا لہذا پاکستان حکومت اور فوج پوری طرح تیار تھے۔

بھارت نے زعم اور رافیل کے خمار میں پاکستان پر اسٹرائیکس شروع کردی۔ پاکستان نے بھی زبردست جواب دینے کا ارادہ کر رکھا تھا اور پھر وہ ہوا جس کا بھارت کو اندازہ تک نہ تھا۔ پاکستان کی بری فوج اور ائیر فورس نے ایسا جوابی حملہ کیا کے بھارت محض تین گھنٹوں میں گھٹنوں کے بل گر پڑا اور عالمی طاقتوں سے جنگ بندی کی گزارش کردی۔ پاکستان نے 10 مئی 2025کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کیا، یہ ریکارڈ اب کیس اسٹڈی بن چکا ہے۔ 10 مئی کے بعد وہ چال اتنی بری طرح الٹی پڑی کہ دنیا کی عسکری اکیڈمیاں اسے "ناکامی کی کلاسک مثال" کے طور پر پڑھا رہی ہیں۔

اب نریندر مودی 74 برس کے ہو چکے ہیں۔ آر ایس ایس کے اصول کے مطابق، 75 برس کے بعد کوئی بھی شخص حکومت یا پارٹی کے اعلیٰ عہدے پر نہیں رہ سکتا۔ یہ وقت مودی کے لیے آخری چانس ہے، آخری شو۔ مودی کو کوئی بڑا کارنامہ چاہیے۔ جس کی وجہ سے آر ایس ایس 75 سال کے بعد ریٹائرمنٹ کا قانون واپس لے لے اور یہ 2029میں چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن سکے یہ چین کے صدر شی جن پنگ کی طرح تاحیات وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ اگر وہ 2029 سے پہلے کوئی بڑا کارنامہ نہ دکھائے تو وہ اپنے ہی نظریاتی گروہ سے باہر نکال دیا جاے گا اور پاکستان کو شکست دینے کے علاوہ بھارت کے نزدیک کوئی دوسرا کارنامہ کیا ہو سکتا ہے؟ چناں چہ نریندر مودی نے یہ کارنامہ سرانجام دینے کی منصوبہ بندی کی، دوسرا آر ایس ایس بھی پاکستان کو شکست دے کر اپنے سو سالہ جشن پر مہاتما گاندھی اور قائداعظم کی سوچ کو غلط ثابت کرنا چاہتی ہے۔

یہی وہ داخلی دباؤ ہے جو مودی کو کسی بڑے اور خطرناک قدم کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخ ہمیں خبردار کرتی ہے۔ فاشزم جب شکست کھاتا ہے تو وہ صرف ایک سیاسی نظام نہیں گراتا، وہ تہذیبیں جلا دیتا ہے۔ آج جو کچھ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر ہو رہا ہے، وہ ایک جغرافیائی تنازع نہیں، یہ ایک شخص کی کرسی بچانے کی آخری کوشش ہے۔ وہ شخص ہے: نریندر مودی۔

اب سوال ہے کہ کیا بھارت کے اپنی فیصلہ ساز طاقتیں مودی کو لگام ڈالیں گی؟ اگر نہیں، تو پاکستان یہ کام پہلے سے بھی اچھے طریقے سے سرانجام دینے کو تیار ہے اور بات طے ہےکہ مودی کا خواب خود بھارت کو نگل جائے گا۔ آگے کیا ہوگا یہ فیصلہ آنے والے دن کریں گے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے: کچھ جنگیں دشمن کی سازش سے نہیں، لیڈروں کی مجبوریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

حمزہ اشتیاق ایڈووکیٹ

Hamza Ishtiaq

حمزہ اشتیاق پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ روزنامہ افلاک سے منسلک ہیں۔ سیاسی و معاشرتی مسائل پہ اظہار خیال کرتے ہیں۔