1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. اعجاز مقبول/
  4. اضافات شریعہ، توہمات اور ہم (1)

اضافات شریعہ، توہمات اور ہم (1)

ازل سے ہی ابلیس انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے، چونکہ ابلیس جن کی نسل سے ہونے کے باوجود تمام ملائیکہ کی نظر میں قابلِ تعریف اور نیکوکار تھا جس کی بنا پر وہ خلقہ ملائک میں مشہور و معروف تھا۔ تاریخ میں یہاں تک ذکر ہے کہ ابلیس اپنی عبادت و ریاضت کی وجہ سے ملائیکہ کا سردار کہلاتا تھا۔ چونکہ خصلتِ جن اپنی شرارتوں سے پہلے ہی اچھا خاصا نقصان اٹھا چکی تھی اور دنیا کی حکمرانی اُن سے چھین لی گئ تھی، لہذا ابلیس نے وقتی طور پر یہی مناسب سمجھا کہ اپنی چلاکی اور عیاری کے بل بوتے پر ملائیکہ میں ایک خاص مقام حاصل کر لے تا کہ تمام آسائشوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے لیکن جب اللہ کریم نے تخلیقِ انسانی کا ارادہ ظاہر فرمایا جو کہ ابلیس پر کسی قیامت سے کم نہیں تھا، اور اسے اپنے بادشاہت اور سرداری جانے کا خدشہ تھا لہذا اس نے پوری کوشش کی کہ تخلیقِ انسانی کو کسی طرح روک دیا جائے جس کے لیے ابلیس نے ہر طرح کا ہربہ استعمال کیا، حتّٰی کہ جنابِ سیدنا آدمؑ کے جسم اقدس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کرتا رہا۔

آخر کار ربِ کریم جلا شانہ نے جنابِ آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دے دیا، چونکہ ملائیکہ فطرتاً معصوم و خطا ہیں اسی لیے انہوں نے حکمِ ربی کو عین عبادت سمجھ کر نبھایا لیکن ابلیس مکار و عیار اور پہلے دن سے ہی تخلیقِ انسانی کے خلاف تھا اس نے ربِ کائنات کے حکم کی تعمیل نہیں کی اور تکبرانہ انداز میں کہا کہ میں آدم سے افضل ہوں جس کی وجہ سے ربِ کریم نے اس کو اپنی بارگاہ سے ذلیل و رسوا کرکے نکال دیا جس کا بیان قرآن میں مختلف مقام پر بڑی وضاحت سے موجود ہے۔

اب چونکہ ابلیس کو اپنے تکبر کی وجہ سے اللہ کریم نے راندہ درگاہ کر دیا لیکن جاتے جاتے اس نے رب کائنات سے قیامت تک کی مہلت مانگی تاکہ وہ انسانوں کو ورغلا سکے لہذا مشیعتِ الہیٰ نے قیامت تک کی مہلت دے دی لیکن یہ بھی فرما دیا کہ جو میرے بندے ہوں گے اس پر تیرا کوئی وار اثر نہیں کرے گا۔ ابلیس نے اپنی چالاکی و عیاری سے جنابِ آدم و حوا کو جنت کا پھل کھانے کے لیے اکسایا اور آخر کار وہ پھل کھانے کی وجہ سے جناب آدم و اماں حواؑ کو آسانی کی زندگی چھوڑ کر دنیا پر اترنا پڑا۔ اتنا بیانیہ ہمیں قرآن و حدیث میں بڑی صراحت سے ملتا ہے۔

شیطان نے بندوں کو ورغلانے کے لیے ہر طرح کا راستہ اپنایا، کبھی دولت و عزت کا لالچ، کبھی بھوک و افلاس کا ڈر اور کبھی گناہ کی لذت اور پھر نیکیوں سے بیزاری۔ اس اثنا میں اس لعین نے کبھی اپنا شکار ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ہزاروں سالوں کی چال بازیوں نے انسان کو کہیں نہ کہیں گناہ پر منوا ہی لیا۔ انسانیت کی کامیابی کی دوڑ میں جہاں شیطان نے سونے چاندی کے حسین خواب دکھائے وہیں دوسروں کو حقیر و فقیر سمجھنا اس شیطان و لعین کی ہی پیداوار ہے۔

خود کی تجوریاں بھرتا انسان کسی دوسرے کا نوالہ چھینتا ہے، کہیں قتل و غارت، کہیں جھوٹ و غیبت اور کہیں کفر و شرک کی داستانیں ہمیشہ سے ہی شیطان سے منسوب و وابسطہ ہیں۔ چونکہ شیطان کے پاس انسانیت کو بھٹکانے کے سو دروازے ہیں لہذا اس کا پہلا وار کفر کے دروازے سے ہوتا ہے، مسکین انسان کے بچ جانے کی صورت میں دوسرا دروازہ بے حیائی اور تیسرا بے لگام زبان کا ہے، اگر ان سے انسان بلفرض بچ نکلتا ہے تو آخری دروازہ بدعات و توہمات کا ہے جہاں سے وہ دیمک کی طرح انسان کا ایمان اندر ہی اندر زائل کرتا جاتا ہے اور آخرکار توہمات کی بھرمار انسان سے اچھائی اور برائی کی تمیز حتم کروا دیتی ہے۔

پھر وہ چلتا پھرتا بے جان پتلا بن جاتا ہے جس کی لگام شیطان کی پکڑ میں ہوتی ہے جو صرف ڈر اور خوف کے سائے میں جیتا ہے جہاں اسکا ایمان صرف الفاظوں کی ہیر پھیر تک محدود رہ جاتا ہے۔ وقت نے کتنے ہی نشیب و فراز دیکھے لیکن توہمات و بدعات کا نشیب انسان کی تزلیل کا سب سے بڑا سبب رہا ہے۔ جوں جوں انسانیت صراط مستقیم سے ہٹتی رہی توں توں توہمات کا ڈر اور بدعات کا سہنانہ انگنت ثواب انسان کے دل و دماغ میں رچ بس گیا۔

وقت کی دھار میں بہتے انسان نے جہاں چاند پر قدم رکھ لیا وہاں دوسری جانب توہمات وبدعات نے کسی جن کی طرز انسان کے اعصاب کو خبطی کر دیا، جس نے انسانی دماغ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مکمل طور پر حتم کر دیا۔ اسی لیے اسلام نے سب سے پہلے زمانہ جاہلیت کی پیداکردہ توہم پرستی کا خاتمہ کیا اور توہمات جیسی گھٹیا سوچ کی نفی کی۔

ایک بہت مشہور واقعہ ہے جو سیدنا حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں واقعہ پیش آیا۔ مصر میں زمانہ جاہلیت سے یہ تصور تھاکہ سال میں ایک مرتبہ دریا ئے نیل میں ایک کنواری خوبصورت لڑکی کو دریا میں ڈال دیا جاتا تھا، اس عمل کو وہ اسی لئے انجام دیتے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دریا ئے نیل ٹھہر جاتا اور پانی ختم ہوجاتا، اس وجہ سے ان کا اعتقاد بھی اس میں مضبوط ہوگیا، جب اسلام اس سر زمین پر بھی پہنچا اورحضرت عمر وبن العاص گورنر مقرر کئے گئے تو یہی صورت حال پیش آئی، لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئےاور اپنی سابقہ روایات کوذکر کیا، حضرت عمر و بن العاص نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ایسا نہیں کیا جائے گا، پھر آپ نے امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمرؓ کو ایک خط لکھا اور حالات سے واقف کی اطلاع دی۔

حضرت عمرؓ نے ایک چھٹی لکھی اور کہا کہ اسے دریا ئے نیل میں ڈال دیں۔ حضرت عمروبن العاص نے اس چھٹی کو دریا ئے نیل میں ڈال دیا، جس کے بعد پانی چلنا شروع ہوگیا۔ اس چھٹی میں حضرت عمر فاروقؓ نے لکھا تھاکہ: یہ اللہ کے بندے عمر کی طرف سے دریائے نیل کے نام: امابعد! اگر تو اپنی طرف سے جاری ہوتا تھا تو مت ہو اور اگر اللہ واحدہ قہار نے تجھ کو جاری کیا تو ہم اسی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھ کو جاکردے۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطیؒ: 114)

اسی طرح کی بہت سی واہیات باتیں (توہمات) مذہب میں بھی شامل ہو گئ جیسا کہ:

1۔ کسی بیمار کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے سے بیماری لگ جاتی ہے۔

2۔ کسی سفر پر جانے کا ارادہ کرتے توجانے سے قبل کوئی پرندہ اڑاتے تھے۔ اگر وہ دائیں طرف اڑتا تو اس سفر کو مبارک سمجھتے اور اگر بائیں طرف جاتا تو سفر کو منحوس اور نامبارک سمجھتے اور سفر کو موقوف کردیتے تھے۔

3۔ اُلّو کی آواز کو گھر کی تباہی کا سبب سمجھا جاتاتھا۔

4۔ مرچوں سے نظر اتارنا۔

5۔ سودک (کسی عورت کا کسی فوتگی والے گھر جانا نقصان دہ سمجھنا یا کسی زچہ بچہ کے گھر جانا ہلاکت کا باعث سمجھنا وغیرہ وغیرہ)

6۔ پرچھاواں (کسی بانجھ عورت کا بانجھ پن کسی دوسری عورت کو لگ جانا یا اس کی بیماری کا سایہ پڑ جانا)

7۔ ماہ صفر کو مصائب و آلام کا مہینہ سمجھا جاتا اور اس کی آمد کو منحوس سمجھاتا تھا۔

8۔ صفر کے مہینے میں شادی اور دیگر تقریبات کا انعقاد اس لئے نہیں کیا جاتا کہ یہ مہینہ منحوس اور نامبارک ہے، اس میں جو کام کیا جاتا ہے اس میں برکت نہیں ہوتی اور وہ کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ اس ماہ میں مصائب و آلام کا نزول ہوتا ہے خاص طور پر تیرھویں صفر کی شب میں کثرت سے مصیبتیں نازل ہوتی ہیں جس کو "تیرہ تیزی" کا نام دیا جاتا ہے۔ ولا عدوی ولاطیرۃ ولاھامۃ ولا صفر (بخاری: 5343) یعنی مرض کی تعدی کوئی چیز نہیں ہے، نہ ہی بد فالی کوئی چیز ہے، نہ الو کی نحوست کو ئی چیز ہے، اور نہ صفر کے مہینہ کی نحوست کوئی چیز ہے۔

9۔ اگر کوئی نئی دلہن گھر میں آئے اور نوشتۂ تقدیر کے مطابق گھر میں کسی کا انتقال ہوجائے، کوئی بیمار ہوجائے یا کاروبار میں بڑا نقصان ہو تو اس لڑکی کو منحوس تصور کیا جاتا ہے اور اچھے اچھے دین دار سمجھے جانے والے گھرانوں میں ایسی لڑکیوں کے وجود کو بوجھ تصور کیا جاتا ہے اور بسااوقات طلاق کی نوبت آجاتی ہے اور اگر خدا نخواستہ اس کے شوہر کا ہی انتقال ہوگیا تو دوبارہ اس کی شادی محال ہوجاتی ہے اور تصور یہ کیا جاتا ہے کہ یہ جس گھر میں بھی جاتی ہے موت کا پیغام لے کر جاتی ہے۔

10۔ گر کسی نئے مکان کی تعمیر کی جائے اور اس میں کوئی بیمار ہوجائے یا کسی کی موت واقع ہوجائے تو یہاں بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ مکان منحوس اور نامبارک ہے۔ اس پر شیطان اور جن کا سایہ ہے۔ اس جگہ رہائش اختیار کرنا کسی طرح مناسب نہیں چنانچہ اس کو بیچ دیا جاتا ہے اور توہم پرستی دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔

11۔ کسی طرح کا کاروبار شروع کیا جائے اور اس میں خلاف مزاج کوئی بات پیدا ہو تو تصور کیا جاتا ہے کہ یہ کاروبار میرے حق میں بہتر نہیں، اس کو چھوڑ کر دوسرا کاروبار شروع کیا جاتا ہے۔ وہم کا یہ سلسلہ بعد میں بھی باقی رہتا ہے اور اس کے سبب زندگی بھر پریشان رہتا ہے۔

12۔ منڈیر پر کوا بیٹھا تو مہمان آنے والے ہیں، چھینک آئی تو کوئی یاد کررہا ہے، فلاں پتھر اور ہندسہ مبارک ہے اور فلاں منحوس، بدھ کا دن اور ماہ صفر مصیبتیں لاتے ہیں، دائیں ہاتھ میں خارش ہے تو دولت آئے گی، بائیں میں ہے تو جائے گی، جھاڑو کھڑا کرنا یا بعد از عصر جھاڑو دینا نحوست ہے، ٹوٹے تارے کو دیکھ کر یا پلک کا بال گرنے پر جو دعا مانگو وہ قبول ہوگی۔

13۔ مغرب کے بعد گھر کی ساری بتیاں جلادو ورنہ بد روحیں آجائیں گی، جائے نماز کا کونا الٹا دو ورنہ شیطان نماز پڑھنے لگ جائے گا، خالی قینچی چلانے سے قطع تعلقی ہوجائے گی، نمک غلطی سے بھی زمین پر گر گیا تو روز قیامت پلکوں سے اٹھانا پڑے گا، کسی پر پے در پے آزمائشیں آنے کو منحوس قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کانچ کا ٹوٹنا، بلی یا کتے کا رونا نحوست اور بے برکتی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔

14۔ کچھ لوگ تو انگلی پر تل کو کام چوری اور ہتھیلی میں تل کو تونگری سے تعبیر کرتے ہیں اور گھر میں منی پلانٹ جتنا بڑھے وہاں اتنی دولت آئے گی۔ کچھ لوگ قرآن سے فال نکالتے ہیں جس کی شریعت میں کوئی اساس نہیں، اس کے علاوہ طوطے سے فال نکلوانا، کاہن یا نجومی کے پاس جانا، ستاروں کے زندگی پر اثرات کا یقین رکھنا، ہاتھوں کی لکیریں دکھا کر قسمت کا حال جاننا یہ سب توہمات کے سوا کچھ نہیں۔

15۔ قبل از اسلام بھی لوگ توہم پرستی کا شکار تھے۔ عرب کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے، دروازے کے بہ جائے پچھلی دیوار توڑ کر گھر میں داخل ہونے کو باعثِ برکت سمجھتے۔ آپ ﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیمؓ کی وفات کے دن سورج گرہن تھا، کچھ لوگوں نے آپؓ کی وفات کی وجہ سورج گرہن کو سمجھا تو آپ ﷺ نے ایسا خیال کرنے سے منع فرما دیا۔

16۔ دودھ پینے کے بعد مچھلیوں کے کھانے کی تصدیق کے بارے میں کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے جس سے سفید دھبے نکل جاتے ہیں، اور اس کے باوجود پورے پاکستان میں اس کا بڑے پیمانے پر عمل کیا جاتا ہے۔

17۔ رات کو بالوں یا ناخن کاٹنے کا مطلب یہ ہے کہ جن یا شیطان ان کو اکٹھا کرسکتے ہیں اور ان کا استعمال ممکنہ طور پر کنبہ پر کالا جادو ڈال سکتے ہیں۔

18۔ اگر آپ کی ہتھیلیوں میں خارش ہے تو پیسہ آپ کے راستے میں آرہا ہے۔

19۔ اگر آپ چھینک دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی آپ کو یاد کر رہا ہے۔

20۔ اگر کالی بلی چلتے ہوئے آپ کی طرف آئے تو وہ خوش قسمتی لاتی ہے۔

21۔ اگر یہ چلتے ہوئے آپ سے دور جائے تو یہ اپنے ساتھ خوش قسمتی بھی لے جاتی ہے۔

22۔ گھر میں کوئی بیمار ہے اور رات کو باہر کتا بھونکے تو یہ بُرا شگون ہے۔

23۔ جس دروازے سے گھر میں داخل ہوئے تھے، اس کے سوا دوسرے دروازے سے باہر جانا بُرا شگون ہوتا ہے۔

24۔ سونے کے کمرے میں گھوڑے کی نعل لٹکائی جائے تو بُرے خواب نہیں آتے۔

25۔ اگر آپ موسم خزاں میں درخت کا گرتا ہوا پہلا پتا گرتے ہوئے ہی پکڑ لیتے ہیں تو اس موسم سرما میں آپ کو بخار نہیں ہوگا۔

26۔ گھر میں رکھا ہوا شیشہ خودبخود گر کر ٹوٹ جائے تو گھر میں کوئی مرنے والا ہے۔

27۔ چھتری کا فرش پر گرنے کا مطلب ہے کہ اس گھر میں کسی کا قتل ہونے والا ہے۔

28۔ کسی کی موت کے وقت تمام کھڑکیاں کھول دینی چاہیے تاکہ روح کو جاتے ہوئے مشکل نہ ہو۔

29۔ شادی کی تقریب میں دلہا اگر انگوٹھی گرا دے تو یہ شادی کے لیے اچھا شگون نہیں ہوتا۔

30۔ خواب میں چھپکلی نظر آنے کا مطلب ہے کہ آپ کا کوئی چھپا ہوا دشمن ہے۔

31۔ اگر آپ کو دوست آپ کو تحفے میں چاقو دے تو آپ اسے تحفے میں سکہ دیں ورنہ آپ کی دوستی ختم ہو جائے گی۔

32۔ جمعے کا سفر کا آغاز نہ کریں ورنہ راستے میں کوئی سانحہ ہو سکتا ہے۔

33۔ اگر گھر میں رکھا ہوا خراب کلاک اچانک ہی بجنے لگے تو اس گھر میں کسی کی موت واقع ہوگی۔

34۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگ ماہ صفر کے متعلق بھی بہت ساری باتوں کو منسوب کر رکھے تھے، اور مختلف وجوہ سے اس کو منحوس سمجھتے، صفرپیٹ کے کیڑے کو قرار دیدتے، صفر کے بارے میں گمان تھا کہ پیٹ میں ایک سانپ ہے جو بھوک کے وقت ڈستا ہے۔ اور بڑی بات یہ تھی کہ اکثر صفر کے معاملہ میں تقدیم و تاخیر کی۔

لیکن رب کائنات نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا:

رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو، اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری بدولت ہے، کہو! سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے، آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ "(النساء78)۔

حدیث قدسی ہے:

اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ انسان زمانے کو برا بھلا کہہ کر مجھے تکلیف دیتا ہے حالانکہ زمانہ اور شب و روز کی تمام گردشیں میرے اختیار میں ہیں، میں جیسا چاہتا ہوں ویسا ہی کرتا ہوں (صحیح بخاری)۔

اگر تجھے کوئی فائدہ پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال) کی بہ دولت ہے"۔ (سورۃ النساء)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: "جو شخص کسی چیز سے بدفعالی پکڑ کر اپنے کام سے پیچھے ہٹ گیا تو اس نے شرک کیا"۔ (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: "کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ بدشگونی کی کچھ اصل ہے، اور نہ الو میں نحوست ہے اور نہ صفر کی نحوست کی کوئی بنیاد ہے"۔ (صحیح بخاری)

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: "بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے۔ (آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا) اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نا کوئی وہم) ہوجاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے دور کر دیتا ہے"۔ (سنن ابو داؤد)

حدیث میں ہے کہ میری امت کے 70ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں"۔  (صحیح بخاری)

نبی کریم ﷺ نے ان تمام توہمات کو باطل قرار دیا اور فرمایا کہ: ولا عدوی ولاطیرۃ ولاھامۃ ولا صفر(بخاری: 5343) یعنی مرض کی تعدی کوئی چیز نہیں ہے، نہ ہی بد فالی کوئی چیز ہے، نہ الو کی نحوست کوئی چیز ہے، اور نہ صفر کے مہینہ کی نحوست کوئی چیز ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: بدشگونی لینا شرک ہے، یہ بات تین مرتبہ فرمائی، اور ہم میں سے جو بھی شخص ایسا ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کو اس پر بھروسہ اور اعتماد کرنے سے روک دیتا ہے۔ (ترمذی)

اسلام نے روز اول ہی توحید خالص کی تعلیم دی اور انسانوں کو بتایا کہ خیر وشر، نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالی ہے، اسی کے ہاتھ میں عزت و ذلت، کامیابی و ناکامی ہے، وہی فیصلوں کو نازل کرتا ہے اور اسی کے اجازت اور حکم سے دنیا میں واقعات اور حالات رونماں ہوتے ہیں، وہی چاہے تو انسان کی مراد پوری ہوگی اور اسی کے منشے اور مرضی سے آسانیاں اور سہولتیں انسان کو نصیب ہوتی ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ: قل لن یصیبنا الا ماکتب اللہ لناھو مولناوعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون۔ (التوبۃ: 51)کہہ دو کہ: اللہ نے ہمارے مقدر میں جو تکلیف لکھ دی ہے ہمیں اس کے علاوہ کوئی اور تکلیف ہر گز نہیں پہنچ سکتی۔ وہ ہمارا رکھوالا ہے، اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔

مذید ارشاد فرمایا: مااصاب من مصیبۃالا باذن اللہ ومن یومن باللہ یہدقلبہ۔ (التغابن: 11)نہیں پہنچتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے حکم سے، اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ اس کے دل کی رہنمائی کرتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت ابن عباسؓ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: اچھی طرح جان لو کہ اگر پوری امت مل کر بھی تم کو فائدہ پہنچانا چاہے تو اس سے بڑھ کر نہیں پہنچاسکتی جتنا کہ اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا، اور اگر پوری امت بھی تم کو نقصان پہنچانا چاہے تو اللہ نے جتنا لکھ دیا ااس سے زیادہ نہیں پہنچا سکتی۔ (ترمذی: 2453)

اہلِ پاکستان چونکہ ایک لمبا عرصہ ہندووں اور دوسرے مذاہب کے درمیان گزار چکے ہیں اسی لیے پچتر سال گزرنے کے باوجود بھی بہت سی من گھڑت توہمات و بدعات پاک و ہند میں رچ بس گئی ہیں جن کو بعض اوقات دینِ اسلام کا حصہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ آج اس دورِ جدیدہ میں جہاں سوشل میڈیا نے بہت غیر اخلاقانہ منفی کردار نبھایا وہاں بہت سی من گھڑت توہمات کا بھی کسی حد تک صفایا کیا جو کہ قابلِ ستآئش ہے لیکن پاکستانی اکثریت ان پڑھ ہے جس کی وجہ سے وہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس کے فوائد سے ناواقف ہے اسی لیے ابھی بھی دیہاتوں اور دور دراز علاقوں میں توہمات نے اپنے ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں، کبھی ستی کی رسم، کبھی جانوروں سے شادی، کبھی قرآن سے شادی، کبھی کالی بلی کا ڈر، وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے ہاں ایک بہت ہی اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ پرانے لوگ یا ہمارے بڑے ان توہمات کے خلاف کچھ سننا ہی نہیں چاہتے اور اگر کسی نے ان توہمات کے خلاف بولنے کی جرت بھی کی تو پتا نہیں کون کون سے قصیدے سننے پڑتے ہیں، بڑوں کا تجربہ ایک الگ میٹر ہے جو یقیناً وقت اور عمر کے ساتھ بڑھتا ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بڑے ہر بات میں درست و بے خطا ہوتے ہیں۔ اب چونکہ جہالت ہی سب سے بڑی توہم پرستی کی وجہ ہے اسی لیے تعلیم کا حصول ہی اس توہم پرستی کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے، اسی لیے اسلام نے بھی تعلیم پر اچھا خاصہ زور دیا ہے حتٰی کہ یہاں تک حکم ہوا کہ گود سے لے کر گور (قبر) تک علم حاصل کرو، اور علم کی فرضیت دونوں مرد و زن پر عائد کر دی گئ، کیونکہ علم ہی راہ نجات ہے، علم ہی بچاو کا آخری حل اور علم ہی معشیت کا پہیہ چلانے کا سبب۔ پبلک آوئیرنس سے ہی مطلوبہ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں ورنہ جہالت اپنا سر اٹھاتی جائے گی اور انسانیت زلیل ہوتی جائے گی۔