آگ در پر تیرے جب آن لگائی زہراؑ
ہائے اُمت کو زرا شرم نہ آئی زہراؑ
پُشت پہ بی بیؑ کی دیوار تو دَر جلتا ہوا
ہائے جائے تو کہاں جائے ہے گھر جلتا ہوا
لُٹ گئی کیسے محمدؐ کی کمائی زہراؑ
یُوں سند پھاڑ کے پھر قدموں تلے روندی گئی
میری بی بیؑ تِری فریاد کسی نے نہ سُنی
ہائے دربار سے روتی ہوئی آئی زہراؑ
کیسے دَربار بُلانے کی بَھلا ہمت کی
ہائے کس طرح سے جُھٹلانے کی پھر جرات کی
تیرے حسنینؑ کی وہ پاک گواہی زہراؑ
آنکھ صفدرؔ تھی ملائک کی بھی نَم ہونے لگی
جب تِرے دَر پہ قیامت وہ رَقم ہونے لگی
کیوں غضب بن کے نہ ٹُوٹی تھی خُدائی، زہراؑ