1. ہوم/
  2. غزل/
  3. کرن رباب نقوی/
  4. ہجر نے یوں اُجاڑ دی آنکھیں

ہجر نے یوں اُجاڑ دی آنکھیں

ہجر نے یوں اُجاڑ دی آنکھیں

جیتے جی جیسے مار دی آنکھیں

دِل نے صدقہ اُتارنے کو کہا

ہم نے اُس پر سے وار دی آنکھیں

ہم نے تو سرسری سا دیکھا تھا

تو نے دِل میں ہی گاڑھ دی آنکھیں

پھر اُسے ڈھونڈنے کو نکلی تھیں

میں نے اس بار جھاڑ دی آنکھیں

اُس کی لمبی حیات مانگی تھی

جس نے بے موت مار دی آنکھیں

در پہ رکھے دیے نے صبح دم

سانس کے ساتھ ہار دی آنکھیں

اب تو تکتی نہیں کسی جانب

تو نے کیسی بگاڑ دی آنکھیں

سارا عالم کِرؔن ہے حیرت میں

عشق نے یوں سنوار دی آنکھیں