1. ہوم/
  2. غزل/
  3. کرن رباب نقوی/
  4. ہجر میں دردناک وحشت تھی

ہجر میں دردناک وحشت تھی

ہجر میں دردناک وحشت تھی

ایک اِک پَل مِرا قیامت تھی

رُوح تک آبلے اُتر آئے

اُس کے لہجے میں وہ تمازّت تھی

جسم باقی تھا، دِل فگار ہوا

جان جاتی تھی، ایسی حالت تھی

سوچتی ہوں کبھی مِلے تو کہوں

ساتھ چلنے میں کیا قباحت تھی ؟

جس کو تکنا تُمہیں گوارا نہیں

اُس کو تُم سے بہت محبت تھی

جس کو دُنیا نے کُچھ نہ گردانا

وہ مِری عُمر بھر کی محنت تھی

اِس لیے دَر بدر بھٹکتے رہے

راستوں میں مُقیم ہجرت تھی

تُم بچھڑنے کی بات کرتے ہو

اُس کا مِلنا بھی اِک قیامت تھی

کیسے مِلتی مِلن کی راہ ہمیں

ہر طرف روبرو جو قسمت تھی

ایک سُوکھی کلی، کتاب، قلم

بس محبت کی اِتنی قیمت تھی ؟؟

اُس کو دیکھا تھا آنکھ بَھر کے کِرؔن

پھر نہ کُچھ دیکھنے کی ہمت تھی