1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. 9 برس گزر گئے اور خوب پتہ چلا

9 برس گزر گئے اور خوب پتہ چلا

آج 28 جون ہے۔

9 برس قبل بروز 28 جون 2013 آج ہی کے دن حیات ابا جی، صدیقی صاحب مرحوم بن کر ایک بہت بھاری یاد میں تبدیل ہوئے تھے۔ ہمارا رشتہ نہایت ہی پچیدہ تھا۔ صدیقی صاحب سینئیر دل کے بہترین شخص تھے جس سے جس جس کو موقع ملا اگلوں نے داؤ لگایا فائدہ اٹھایا۔ بچپن میں یتیم ہونے والا ایک شخص جس نے بہنوں کی شادیاں کروائیں، ملک سے باہر رہا، محنت کی، گھر بنایا، اولاد کو پڑھایا لکھایا، جس نے 1990 سے لے کر 2013 تک لگاتار عارضہ قلب سہا، جو سوچتا بہت تھا اور جو سوچتا اسے کاغذ کے سپرد بھی کیا کرتا تھا، جو سردی گرمی میں اولاد کو ایک موٹرسائیکل پر ساری زندگی سکول چھوڑتا رہا۔۔ لیکن پھر۔۔ اس سب کے باوجود جب اپنے ہی اپنا ہونے سے انکاری ہوجائیں تو لہجے میں کڑواہٹ آنا کوئی عجب بات نہ تھی۔ میرا خیال ہے یہ تو گھر گھر کی کہانی تھی، ہے۔ ایک مبہم سی امید ہے کہ آئیندہ نہ رہے گی۔

ایسے گھرانے میں پہلی اولاد ہونے کے باعث آنکھ کا تارا ہونا فطری تھا۔ ہاں مگر جب وہی آنکھ کا تارہ بلوغت میں قدم رکھتے خود کو اور صرف خود ہی کو حق سمجھنے لگے تو جنریشنز کا ٹکراؤ برپا ہوکر رہتا ہے۔ یہ ٹکراؤ ہوکر رہا۔ کبھی خوشی کبھی غم قسم کے تعلقات چلتے ہی رہے۔ تمام یادیں یاد ماضی کے طور پر ایک عفریت بنی رہیں جنہیں جب جب تکلیف ہوتی میں ایک کھرنڈ کی طرح نوچا کرتا اور خود کو تکلیف دیا کرتا تھا۔ بڑی عجیب سی اذیت ناک سی تسکین ہوتی تھی یہ بھی۔

لیکن اب ایک پرابلم ہونے لگا ہے۔

نو سال پہلے صرف بری یادیں ہی نظر آیا کرتی تھیں۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اچھی یادیں دکھائی دینے لگی ہیں۔ امریکن سائیکولوجی ایسوسی ایشن کی ایک ریسرچ کے مطابق انسان جوں جوں بڑھاپے کی جانب بڑھتا ہے اس کی بری یادیں بتدریج مٹتی چلی جاتی ہیں۔ میرے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہو رہا ہے۔

ویسے کیا ہی مجاہدانہ زندگی پائی ابا مرحوم نے۔ جو کام کیا دل سے کیا جس کام کا دل نہ ہوا نہیں کیا پھر چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو۔ گھر بنائے بار بار بنائے۔ ہر بار بیچ دیا۔ کبھی پرافٹ کے چکر میں تو کبھی ضرورت کے چکر میں۔ میرا شوق تھا ایڈورڈز کالج پشاور سے ایف ایس سی کروں۔ ہزار روپے ماہانہ فیس ہوا کرتی تھی پندرہ ہزار روپے ایڈمشن فیس۔ ایڈورڈز کالج کا میرٹ اور فیس دونوں ہی بہت ہائی ہوتے تھے۔ مقابلے میں اسلامیہ کالج پشاور تھا۔ دونوں ٹکر کے تاہم اسلامیہ کا میرٹ دو چار نمبر اوپر پر ہی بند ہوتا۔ اسلامیہ کالج پشاور سرکاری کالج تھا لہذا فیس نہ ہونے کے برابر۔ مجھے اسلامیہ سے بس ایک مسئلہ تھا۔ میں نے وہاں کی شلوار قمیض اور سردیوں میں شیروانی نہیں پہننی تھی۔

کیا آپ مانیں گے میرے والد صاحب نے میرے ایڈمشن کے پندرہ ہزار روپے کے لیے سات لاکھ روپے کا گھر بیچ دیا؟ اپنوں نے تب بھی ہاتھ پکڑنے سے انکار ہی کر دیا تھا تقریباً۔ ہوں گے ہر ایک کے اپنے مسئلے ہوں گے لیکن آپ میرے باپ کا حل تو دیکھیے۔ جس گھر میں رہائش پذیر تھے وہ کرائے دار کو بیچ کر خود کرائے دار بن گئے۔ کرائے میں تھوڑی بہت کمی یوں ہوتی کہ میں سابقہ کرائے دار موجودہ مالک کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا دیا کرتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ابا جب تک زندہ رہے اس کام پر فخر ہی کرتے ہوں گے۔ شاید اسی وجہ سے بظاہر افسردہ نظر آنے والی یہ یاد میرے ذہن میں آج بھی ایک مثبت اینٹری کے طور پر محفوظ ہے۔

گالی برداشت نہیں کر پاتے تھے۔ ہم نے گالی کے جواب میں دو چار مقامات پر باقاعدہ شانہ بشانہ ہاتھ چھوڑ پروگرام میں حصہ لیتے اگلوں کی کٹ بھی لگائی۔ ان کے جانے کے ایک عرصے تک مجھے بھی گالی بہت تپا دیا کرتی تھی۔ اب ایسا شاذ ہی ہوتا ہے۔ زندہ ہوتے تو میں انہیں یہ بات سمجھا سکتا تھا ایسا میرا گمان ہے۔ کیونکہ آخری وقت میں وہ میری بات سمجھ جایا کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ہماری اکلوتی بہن کی شادی تھی جس میں و لینے پر جانے سے انکاری تھے۔ سب سمجھا کر تھک گئے، آخر میں میرے کہنے پر تیار ہوئے۔

بچپن میں مجھے یاد ہے ایک بار آٹا لے کر ہم ہم گھر جا رہے تھے۔ میں بائیک پر پیچھے بیٹھا تھا بوری پکڑے۔ صدیقی صاحب مرحوم مذاق میں بولے۔۔ بیٹا خود گر جانا آٹا نہ گرنے دینا۔ خدا جانے کیا ہوا، ایک دھ کا ایسا لگا کہ واقعی میں بائیک سے گر گیا آٹا موا اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ ایک عرصے تک یاد کرتے ہم یہ واقعہ ہنستے ہوئے۔

میں نے خاندان سے فرینکنیس ابا مرحوم سے پک کی ہے۔ مجھے بلاوجہ کا رکھ رکھاؤ نہیں پسند۔ میں بھی اپنے بچوں سے اتنا ہی فرینک ہوں جتنا ابا مرحوم ہوا کرتے تھے۔ جلالی تھے لیکن اولاد سے محبت ٹوٹ کر کرتے۔ سال ایک ناراضگی کے بعد میں گھر پہنچا۔ خوب سنا کر آواز لگائی۔۔ "کھانا لگا دو بھوک لگ رہی ہوگی انہیں"۔ بس سال دو کے سارے فاصلے ایک کھانے پر مختصر اور ٹھیک ٹھاک مختصر۔ مجھے کابل میں جاب ملی۔ بہت کوشش کی کہ نہ جاؤں لیکن میں گیا۔ مجھے یقین ہے جب تک میں کابل رہا ابا مرحوم پریشان رہے ہوں گے۔

نوے کی دہائی میں موبائل فون انٹرنیٹ تو چھوڑ ہی دیں، محلے بھر میں فون بھی ایک آدھ ہی ہوا کرتا تھا۔ مجھ سے چھوٹے بھائی کو ایستھما تھا۔ سردیوں میں اس کی حالت اکثر ٹھیک ٹھاک خراب ہوجایا کرتی تھی۔ ایک رات ایسی ہی حالت کو دیکھ کر ابا اماں اور چھوٹے بھائی کو بائیک پر بٹھا کر ہسپتال ایمرجنسی لے گئے۔ وہاں ڈاکٹروں نے بھائی کو تو دوا دے کر چھوڑ دیا ابا کی حالت اتنی خراب تھی کہ انہیں داخل ہونے کا کہہ دیا۔ یہ کہہ کر گھر آگئے کہ پھر ان کا کیا ہوگا۔

آج سے نو برس قبل کے پی اسمبلی میں معمول کے دفتری کام کرتے ہوئے طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی۔ گرے۔ گھر لائے گئے۔ گھر پہنچے تو کھڑے نہیں ہو پا رہے تھے۔ وہ محتاجی کی زندگی سے پناہ مانگتے رہے ساری زندگی۔ بھائی نے فقط سہارے سے اٹھانے کی کوشش کی تو کہنے لگے۔۔ دیکھا۔۔ یہی میں نہیں چاہتا تھا۔ ہسپتال لے جائے گئے۔ دو بائی پاس ہوچکے تھے۔ بیرون و اندرون ملک EECP کے سیشنز بھی لگوا چکے تھے۔ اس روز البتہ کچھ کام نہ آیا اور ابا bradycardia کے ہاتھوں وفات پا گئے۔

انا اللہ وانا الیہ راجعون

میں دبئی میں تھا۔ اطلاع ملی تو فورا واپسی کی سیٹ پکڑی۔ جانا تو پشاور تھا مگر اسلام آباد کی فلائٹ دستیاب تھی۔ میں بیٹھ گیا۔ بیٹھ کر بھٹی صاحب کو میسج کیا کہ بھٹی صاحب ابا کی ڈیتھ ہوگئی ہے مجھے ائیرپورٹ سے پک کر کے اڈے تک ڈراپ کر دیں۔ جواب آیا۔۔

"سوری۔۔ میرے ابا جی وفات پا گئے ہیں، میں انہیں دفنانے گاؤں جا رہا ہوں "

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

خدا ایسے اتفاق سے کسی کو نہ گزارے۔

باقی اللہ پاک بھٹی صاحب سینئیر اور صدیقی صاحب سینئیر کے اگلے جہاں بہترین فرمائے۔ آمین۔

9 برس گزر گئے۔۔ اور خوب پتہ چلا۔۔