1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. بس آتا ہی ہوگا

بس آتا ہی ہوگا

8 اکتوبر 2005 کا زلزلہ آج بھی نہیں بھولتا۔ میں اور بھائی ہمارے کمرے میں سو رہے تھے۔ مجھے اچانک محسوس ہوا کہ بھائی لاتیں مار رہا ہے۔ یہ ایک دیرینہ مسئلہ تھا جو جب تک ہم اکٹھے رہے کبھی حل نہ ہوا۔ خیر میں غصے سے اٹھا اور بھائی کو ہلا کر کہا انسان بن یار۔ اس کے بعد میں دوبارہ لیٹ گیا۔ آنکھ فوراً لگ گئی لیکن خواب میں خواتین کی جانب سے کلمے اور درود شریف کی آوازیں آرہی تھیں۔ یہ آوازیں تیز ہوئیں تو میری آنکھ بھی کھل گئی۔ گھر جس طرح سے ہل رہا تھا اس سے اندازہ ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ اب ہلچل مچ چکی تھی۔ اس زلزلے کی خطرناک بات زمین میں سے باقاعدہ آوازیں آنا اور زلزلے کا دورانیہ تھی۔ ہم سب سوتے سے اٹھے، اکٹھے گھر سے باہر نکلے، گلی میں کھلے آسمان تلے گئے اور اس کے بھی کافی دیر تک زلزلہ جاری رہا۔

جو تباہی ہوئی سو ہوئی، گو جس طرح پورے پورے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے وہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ زلزلے کے بعد البتہ کافی دلچسپ واقعات برپا ہونے لگے۔ جن لوگوں کو یہ زلزلہ یاد ہو انہیں معلوم ہوگا کہ اس قدر شدید زلزلے کے ڈیڑھ دو ماہ بعد تک بھی آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ یہ آفٹر شاکس بھی کبھی کبھار ٹھیک ٹھاک شدید ہوتے تھے۔ عام حالات میں زلزلہ غیر متوقع آفت ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہوا کہ آفٹر شاکس نے اسے متوقع کر دیا۔ مثلاً ان دنوں بقول ایک دوست کے۔۔

"جگر آفٹر شاکس کا یہ حال ہے کہ کل میرے چھوٹے بھائی پلے سٹیشن پر ریسلنگ کھیل رہے تھے۔ دونوں گیم میں بری طرح گم تھے۔ اچانک ایک بھائی نے گیم روک کر دوسرے بھائی کی طرف دیکھا اور کہا۔۔ زلزلہ ہے؟ دوسرے نے کچھ توقف سے کہا۔۔ ہاں۔۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر واپس گیم چلا کر دوبارہ گم ہوگئے، زلزلہ اپنی جگہ جاری رہا"۔

اب ہمارا معاشرہ اللہ کے فضل و کرم سے کانسپیریسی تھیوریز اور افواہوں سے بھرپور معاشرہ ہے۔ 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے سے قریب تین چار ماہ بعد ایک اور دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ہم ان دنوں شاہین بازار پشاور سے ملحقہ محلہ نور الاسلام میں رہائش پذیر تھے۔ چھوٹا سا گھر تھا ڈیڑھ دو مرلے کا جسے ہم نے تین منزلہ بنا کر اپنی ضرورت پوری کی تھی۔ ہم پہلی منزل پر اماں ابا کے کمرے میں اکٹھے بیٹھے تھے۔ رات کا کھانا سب کھا چکے تھے اور کچھ دیر بعد سب نے سونے جانا تھا۔

اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا تو یونیورسٹی کے لنگوٹیے جدون کی آواز آئی۔

"یار۔۔ مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ کابل میں زلزلہ آیا ہے جس سے پورا کابل شہر تہہ و بالا ہوچکا ہے"۔

ظاہر ہے مجھے افسوس ہوا۔ کہا اللہ خیر کرے۔ اس پر جدون نے اگلی اہم خبر سنائی۔

"جگر زلزلہ پشاور کی طرف آرہا ہے"

اب یہ ذرا عجیب سی خبر تھی۔۔ زلزلہ۔۔ کابل سے پشاور کی طرف رواں ہے۔

"ہیں؟"

ہمارا تحیر زدہ "ہیں " بے ساختہ خارج ہو پڑا۔

میں نے پوچھا پھر کیا کرنا ہے؟

جواب آیا۔۔ "ہم تو باہر نکل رہے ہیں گلی میں کھڑے ہونے تاکہ خدانخواستہ گھر تباہ ہو تو ہم بچ جائیں"۔

جدون کی گلبہار نمبر دو میں ہنی بیکری کے ساتھ متصل گلی صاف اور نہایت ستھری تھی۔ متول لوگ رہتے تھے سو سب کچھ پکا صاف ستھرا۔ ہاں پیسے والی پالٹی کا یہ مسئلہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے تعلق دعا بس سلام دعا کی حد تک رہتا ہے۔ سو، جدون وغیرہ باہر گلی میں کھڑے رہ سکتے تھے، ہماری گلی چونکہ اندرون شہر میں واقع تھی لہذا ایسی تھی کہ مشکل سے سات فٹ چوڑائی تھی، اور بیچوں بیچ ایک عدد نالی جا رہی ہوتی تھی جس کے ادھر یا ادھر سائیکل یا موٹرسائیکل پر گزرنا گویا سرکس کا کرتب تھا۔ مزیدبرآں، اس گلی میں چلنے والا چاہے لاکھ کوشش کر لے، نالی میں بہتے حقائق سے چشم پوشی نہیں کر سکتا تھا جن سے متواتر یہ معلوم ہوتا رہتا کہ آج۔۔ فلاں کے گھر ساگ پکا تھا، اور فلاں کے گھر گوبھی۔

مختصراً۔۔ ہماے پاس گلی میں رات گزارنے کی آسائش نہیں تھی۔ اندرون شہر کئ سات فٹ کی گلی ساتھ متصل گھروں کی ناجائز تجاوزات کے باعث ویسے بھی اتنی ہوتی ہے کہ اوپر منہ کرنے سے دھوپ کی روشنی نصیب نہیں ہوتی۔ لہذا ہم گھر میں رہ کر اللہ رسول کو یاد کرنے پر مجبور تھے۔ اب آخری وقت ہے بھی تو کیا کر سکتے ہیں؟

کوئی دس گیارہ بجے سے ہم زلزلے کے منتظر تھے۔ ہر آدھے گھنٹے بعد جدون سے بات ہوتی تو بتاتا کہ اب زلزلہ جلال آباد پہنچ چکا ہے۔ پھر بات ہوتی تو پتہ چلتا بارڈر کراس کر لی ہے۔ مزید کچھ وقت گزرا تو پتہ چلا طورخم وڑ گیا ہے۔ اب 2005 میں انٹرنیٹ اتنا عام تھا نہیں۔ میڈیا قدرے امیچیور تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک آدھ ٹچے چینل پر بھی یہ افواہ اپنی جگہ بنا چکی تھی۔

بارہ بجے عموماً نیند کی آغوش میں پہنچ جانے والے ہم لوگ جب دو بجے تک بھی اس زلزلے کی آمد سے محروم رہے تو آخر میں ابا نے اتنا کہہ کر سب کے لیے سونے کا حکم صادر فرمایا کہ۔۔

"ب چ زلزلہ ہے یا چناب ایکسپریس؟ آ کر ہی نہیں دے رہا۔۔ بھاگو سارے اپنے اپنے بستروں پر"

اور یوں ہم خاموشی سے ہلکے پھلکے خوف کے ساتھ جا کر سو گئے۔

میں اور جدون جی ٹی روڈ پشاور اڈے سے روزانہ مردان ہائی ایس میں اکٹھے جایا کرتے تھے۔ میں ہمیشہ تاخیر سے پہنچتا اور وہ ہمیشہ منتظر رہتا تاکہ میں اڈے پہنچوں تو میرا شاندار گالیوں سے استقبال کرے۔ اس دن بھی میں ہمیشہ کی طرح تاخیر سے پہنچا۔ جدون ذرا شرمندہ شرمندہ سا تھا۔ مجھے سمجھ آگئی۔ پوچھا ہاں جگر۔۔ کیا بنا زلزلے کا؟

جواب آیا۔۔

"یار زلزلہ تو نہیں آیا لیکن بیس سال میں پہلی بار پتہ چلا کہ گلی کے کون سے گھر میں کون کون سی اور کیسی کیسی ٹائٹ بچی رہتی ہے"۔

الحمد للّٰہ۔۔ پوری گلی نے رات کھلے آسمان تلے گزاری۔