1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. کلٹ، کون کون؟

کلٹ، کون کون؟

میں نے اکثر کئی بزرگان کو دہائی دیتے سنا ہے کہ تحریک انصاف کے علاوہ دیگر جماعت کے مقلدین بھی کلٹ کا درجہ رکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے یہ بالکل غلط تاثر ہے۔ مثال کے طور پر آپ پاکستان سے باہر کسی مہذب مغربی ملک میں گرین پارٹی کے چاہنے والوں کا مشاہدہ کیجیے۔ ان لوگوں سے کسی معاملے پر بات ہوگی تو یہ اپنا مدعا اور مقابل فریق کی بات کے متن پر بھرپور اختلاف کریں گے۔ یہ آپ کو دلائل دیں گے، آپ سے بحث در بحث کریں گے اور اس میں اپنا اپنا وقت لگائیں گے کہ آپ کو جھنجھلاہٹ تک شروع ہوجائے گی۔

لیکن رہیں گے یہ مدعے پر ہی۔

ہمارے یہاں چونکہ عوام میں جذباتیت ذرا بلکہ کافی زیادہ ہے اور منطق کا استعمال کم، جس کی اپنی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات پر سیر حاصل بحث ہونی ضروری ہے اور میرا گمان ہے کہ ایسا ہوا تو جڑیں دیگر معاملات سے جڑے ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک ہمارے مذہبی پیشواؤں کی اپنی تعلیم، سمجھ اور اخلاق سے بھی جڑی نکلے گی، تاہم فی الوقت یہ موضوع نہیں۔ اس پر بات پھر کبھی۔ ابھی مدعا یہ ہے کہ ہمارے یہاں جذباتیت عروج بلکہ پاتال کہا جائے تو شاید بہتر رہے، پر ہونے کے باعث کسی بھی اختلاف یا کسی بھی موضوع پر بحث اس حد تک ذاتیات تک اکثر پہنچ جاتا ہے کہ "آپ کو غربت کا کیا پتہ آپ تو خود امیر آدمی ہیں" یا "آپ کے بچے چونکہ لمز سے پڑھیں ہیں لہٰذا آپ کی سوچ ایسی ہے" وغیرہ وغیرہ۔ بیشک یہ غلط ہے۔ دلیل میں ذاتیات کی قطعاً گنجائش نہیں ہوتی۔

تاہم تحریک انصاف کے سوا کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کے لیے کلٹ کا لفظ استعمال کیا جانا غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے مقلدین خان صاحب کے لیے نرم گوشہ نہیں بلکہ سارا کا سارا گوشہ ہی ان کے لیے مختص کر بیٹھے ہیں۔ مثلاً مسلم لیگ نواز کے کسی بھی چاہنے والے کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہوگا کہ میاں صاحب سیاست میں فوج کی گود میں بیٹھ کر داخل ہوئے۔ مسلم لیگی اس بات کا ذکر کرنے سے گریز ضرور کرے گا یا اس پر آئیں بائیں شائیں کر دے گا یا جواباً فریق ثانی کو دوسری سیاسی جماعتوں کی مثال ضرور دے گا، تاہم اس کی وجہ ذاتی انا کو لگتا کچوکا ہے۔

تحریک انصاف کے معاملے میں بات ذرا الگ ہے۔ یہاں آپ کو باقاعدہ خان صاحب سے منسلک تقدیس، عقیدت اور عشق نظر آنے لگے گا۔ مثلاً عشاقِ عمرانی اس وجہ سے خان صاحب اور فوج کی ناجائز محبت ماننے سے انکار نہیں کرے گی کہ یہ ان کی انا کا مسئلہ ہے بلکہ اس کی وجہ دفاعِ ناموسِ عمران خان ہوگی۔ ظاہر ہے اقتدار میں فوج کی مدد کے بغیر عمران خان کیسے آسکتا تھا لہٰذا عمران نے کیا تو بالکل ٹھیک کیا کیونکہ قوم کو اس کی ضرورت تھی۔ وہ یہی دلیل اپنے کسی بھی سیاسی مخالف سے سننے کی اہلیت اور ہمت نہیں رکھتے۔ یہاں یہ اصول کہ فوج کی سیاست میں مداخلت حرام ہے، تصور کرنا بذات خود حرام طے ہوجاتا ہے۔ یہی ذاتی عقیدت، محبت، مودت، تقدیس اور عشق ہے جو تحریک انصاف کے چاہنے والوں کو کلٹ کے رتبے پر سرفراز کرتی ہے۔ تحریک انصاف سے عشق رکھنے والا دراصل روئے زمین پر موجود ہی نہیں۔ یہ عشق تو خان صاحب سے ہے۔

اور عشق میں بھلا کون سی منطق، کون سا اصول؟

اسی تلخ حقیقت کا نتیجہ ہے کہ خان سے محبت کرنے والوں کو خان کا ساتھی پاکیزہ لگتا ہے اور اس سے علیحدگی اختیار کرنے والا نجس۔ ایک بار پھر یہاں منطق اور اصول کی سوچ بھی حرام ہے۔ اگر نہ ہوتی تو بندہ کم از کم خود سے سوال کر لیتا کہ جناب والا، جب تک یہی نجاست خان صاحب کے ساتھ چپکی ہوئی تھی تب تک خان صاحب خود کیسے پاکیزہ رہے؟ اب اس کا منطقی جواب آپ کو لاکھ میں سے ایک عاشقِ عمران بھی نہیں دے گا۔ اس کا جواب دینے کے لیے انسان کا کسی بھی قسم کے عشق سے مبرا ہونا یا کم از کم محبوب کی خامیوں پر بات کرنے کا اہل ہونا پڑے گا جو خان صاحب کے عاشق بہرحال نہیں ہوتے۔