خواب تو ہم سب ہی دیکھتے ہیں۔ بس حالات و واقعاتِ حاضرہ کے مطابق نوعیت الگ الگ ہوا کرتی ہے۔ خواب کا تعلق بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح محرومیوں سے ملتا ہے۔ یہ تو آپ سب کو معلوم ہی ہوگا، آخر سبھی نے لڑکپن کی محرومیوں کے ہاتھوں بکرم کی پیداوار والے خواب دیکھ رکھے ہیں۔ پس، اسی چکر میں اپنی محرومیوں کو لے کر آج کل کچھ پرنم سپنے تنگ کر رہے ہیں۔ بہت سوچا کہ اس راز کو راز رکھا جائے مگر اب دل ہے کہ برینڈنگ کے نام پر ابھی سے پری مارکیٹنگ شروع کر دی جائے۔
مجھ جیسے غریب آدمی کی سوچ چونکہ محدود ہوتی ہے لہٰذا میں تو یہیں تک سوچ سکتا ہوں جو اب کہنے والا ہوں۔ ظاہر ہے، لوگ مجھے جج کریں گے، چیزے لیں گے، مذاق اڑائیں گے لیکن اس میں کون سی نئی بات ہے۔ غریب کے استحصال پر تو امراء کے قہقہوں تک کا حق ہوتا ہے۔
ایک تو میں ٹھہرا غریب، اوپر سے کھڑوس اور بدذوق۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے نہ تو بارش پسند ہے نہ سردی۔ یہ دونوں موسم مجھے آسٹریلیا میں بھی کھلتے ہیں۔ پاکستان میں یہ دونوں موسم اپنے ساتھ دیگر مسائل کی سوغات بھی لاتے ہیں۔ بارش میں مثال کے طور پر کیچڑ بنا بنایا سارا موڈ چاکلیٹی رنگ کا کر دیا کرتی ہے تو ٹھنڈ میں گیزر گیس کی غیر موجودگی میں ایک بہت بڑی منجھلی انگلی سا دکھائی دیتا ہے۔ کیا فائدہ ایسی سردی کا جس میں انسان پائے بھی یہ سوچ کر نہ کھا سکے کہ صبح گرم پانیوں تک رسائی کے چکر میں بندہ ناکام سوویت یونین بن کر رہ جائے گا۔
خیر۔۔ ان دونوں محرومیوں کے باعث اب کی بار دل و جاں، روح اور گندے والے جذبات نے دودھ جلیبی کی جانب راغب کیا۔ کہنے کو تو ہمیں زیابطیس، کولیسٹرول اور فشار خون کے مسائل بھی لاحق ہیں، تاہم تین برس بعد پاکستانی بازاروں کو ایک بار پھر دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچنا پڑا کہ اس قدر کھابوں کے بعد بھی اگر یہ بیماریاں ڈیرے نہ ڈالیں تو پھر بقول شخصے "آپ ہی بتا دیں اور کیا لٹکائیں؟"
بہرحال۔۔ خواب کچھ یوں ہے کہ میرا ایک برینڈ ہو جس کی ملک بھر میں سپلائی خوب ہو، بہت ہو، اتنی ہو کہ بلیک میں مال بکے۔ برینڈ کا نام ہو جلیبی سیکسٹی نائن 69 جس کا لوگو تصویر ھذا ہو۔ ہماری پراڈکٹ ایک اور فقط ایک یعنی دودھ جلیبی ہو۔ پراڈکٹ کا ری ٹیل سٹور کوئی نہ ہو بلکہ صرف ڈسٹریبیوشن چینل ہو جس کے حقوق حاصل کرنے کے لیے امیر کبیر وزیر لوگ کروڑوں روپے دے کر ڈسٹریبیوشن حقوق حاصل کیا کریں۔ ڈسٹریبیوشن برانچ آفس کی دیوار پر بڑا بڑا جلی حروف میں لکھا ہو کہ "ہماری اور کوئی برانچ نہیں"۔
ہماری پراڈکٹ کا خمار ایسا ہو کہ رات دودھ جلیبی پینے کے بعد صبح اٹھ کر نہ سر بھاری ہو نہ معدہ۔ رندانِ دودھ جلیبی ایک دوسرے کو جشنِ فیض و غالب پر شاپر میں چھپا کر سمگل شدہ دودھ جلیبی بعد از ضیافت پیش کیا کریں۔ ہماری دودھ جلیبی میں مستعمل دودھ ایلیٹ کلاس گجروں کی بھینسوں کے صاف شفاف نپلوں سے کشید کیا گیا ہو۔ ہماری جلیبی جس دیسی گھی سے بنتی ہو اس کے بارے میں مشہور ہو کہ اس کی ترکیب اک رمز ہے جس کے مارے ہوئے ہیں رند۔ ہماری جلیبی جب دودھ میں گھلنے لگے تو گلابی رنگ دیکھ کر دودھ نوش کو لیا گوٹی یاد آجائے۔ ہمارا برینڈ سلاجیت کے متبادل کے طور پر مجوز ہو۔ نیو ائیر نائیٹس پر ہمارے برینڈ کو بغیر مکسر نوش فرمایا جائے۔۔
خواب بس اتنا امیر ہونے کا ہے کہ دودھ جلیبی کا مذکورہ بالا خصوصیات سے بھرپور برانڈ لانچ ہو۔
اور پھر۔۔ اس برانڈ کو اتنا کامیاب کرنا ہے کہ "طنزانیہ" سے احباب پاکستان کسی کو دودھ جلیبی کھاتے دیکھیں تو وہیں سے کال کرکے کہیں۔۔
"سیٹھار صاحب، یہ کیا فضول برانڈ کی دودھ جلیبی چھک رہے ہیں؟ آپ کے لیے میں پنجی سالہ پرانی جلیبی 69 سیکسٹی نائن مارکہ دودھ جلیبی بھیجتا ہوں، آپ بس اپنا پتہ بتائیں"
اور افضل سیٹھار صاحب صاحبِ کال کو اپنا تن، من، دھن، کن وغیرہ دان کرنے پر تیار ہوجائیں۔۔
بس اتنا سا خواب ہے۔۔