1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. معاذ بن محمود/
  4. پاکستانی گھنٹے کی قیمت

پاکستانی گھنٹے کی قیمت

حال ہی میں رؤف کلاسرہ والے تنازعے میں اظہار یک جہتی کے چکر میں کئی لوگوں نے حمایتی تحریریں اپنی وال پر سجائی ہیں۔ لندن والے بڑے پائن، یعنی مکالمے والے رانا صاحب نے اس سلسلے میں ایک تحریر لکھتے ہوئے عوام الناس پر آشکار کیا کہ ان کے گھنٹے کی قیمت چار سو پاؤنڈ ہے۔

گھنٹے کی اس قیمت پر جائز، بہت ہی جائز، یعنی کمال جائز اعتراضات آنے شروع ہوگئے۔

آخر ایک پاکستانی کا گھنٹہ کتنا ایک قیمتی ہو سکتا ہے؟

ہاں ٹھیک ہے، گھنٹہ ہوگا لندن میں لیکن ہے تو پاکستانی ہی ناں؟ تو پھر ایک پاکستانی کے گھنٹے کی قیمت اتنی کیسے لگائی جا سکتی ہے؟ آپ کہتے میری کڈنی کی اتنی قیمت ہے میں مان لیتا کہ یار ایک بار باہر نکال لی جائے تو واقعی پتہ نہیں چلتا کہ پاکستانی ہے یا نہیں۔ کڈنی تو بنگالی بھی ہو تو امریکی یا برطانوی کہہ کر خریدار کو چیپ سکتے ہیں۔

لیکن گھنٹہ؟ گھنٹے کا تو معلوم ہوجاتا ہے یار بہت آسانی سے۔ بس ایک نگاہ چاہیے۔ کوئی دیکھ کر ان دیکھا کر دے تو الگ بات ہے مگر ہو ہی نہیں سکتا کہ پاکستانی گھنٹہ ہو، پتہ بھی چل جائے اور اتنا مہنگا بھی ملے۔

اسی معاملے پر اڑتا اڑتا ایک جائز اعتراض کچھ یوں اٹھایا گیا ہے۔۔

"کیا یہ سونے کے بنے ہوئے ہیں؟"

میں اس اعتراض سے شدید متفق ہوں۔ انعام صاحب سے بارہا ملاقات ہے۔ جب دیکھا پکی رنگت کا بندہ ہی دیکھا۔ ہاں کبھی کبھار دھوپ میں رانا صاحب کی چمک دیکھ کر ہلکا پھلکا مغالطہ ضرور ہوا، تاہم بڑوں کا سبق یاد آیا کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، بھلے دمکتا ہوا رانا ہی کیوں نہ ہو۔

تو بھیا۔۔ میں اس اعتراض کے ساتھ کھڑا ہوں۔ جب رانا صاحب سونے کے نہیں بنے ہوئے تو ان کا گھنٹہ کیسے سونے کا بنا ہو سکتا ہے؟ پلاسٹک، شیشے یا سلیکون کا بھی نہیں، ایک عام سا گوشت پوست کا گھنٹہ ہوگا۔ پھر چار سو پونڈ کیسے؟ مطلب کیسے کیسے کیسے؟ ہاؤ؟

انٹرنیٹ ریسرچ کہتی ہے گھنٹے کا اوسط وزن ایک سو ساٹھ گرام ہوتا ہے۔ ویسے چیٹ جی پی ٹی نے ایک سو انچاس گرام کیلکولیٹ کیا مگر میں حسن ظن کے ہاتھوں مجبور ہوں، برا لگتا ہے، اتنے بھی گئے گزرے حالات نہیں۔ پاکستانی گھنٹہ ہے، کورین نہیں۔

ہاں مگر چونکہ اپنا کام بغیر کسی تعصب حق سچ کا ساتھ دینا ہے لہٰذا وضاحت بس اتنی دینی تھی کہ رانا صاحب کا گھنٹہ بالفرض سونے کا ہوتا۔۔ تو کم از کم چار سو پاؤنڈ کا تو نہ ہوتا، کیونکہ سونے کی موجودہ قیم کے مطابق سونے کا گھنٹہ کم سے کم کوئی نو ہزار پاؤنڈ کا بنتا ہے۔ رانا صاحب کا گھنٹہ اگر چار سو پاؤنڈ کا مان لیا جائے تو coffee beans یا اسی قسم کے نباتات بچتے ہیں جن سے رانا صاحب کا گھنٹہ بنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اڑھائی برطانوی پاؤنڈ فی گرام کی کوئی بھی جنس کو رانا صاحب کے گھنٹے کے ضمن میں مشکوک نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ لہذا رانا صاحب سے گزارش ہے، اپنے گھنٹے کے بارے میں لمبی لمبی چھوڑنا بند کریں۔

لیکن اصل سوال یہ ہے کہ رانا صاحب کے مہنگے گھنٹے پر اعتراض اور کلاسرہ صاحب کے گھنٹے پر خاموشی؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ دوسری بات یہ کہ بارلے پاکستانی کا گھنٹہ زیادہ سے زیادہ کتنا ایک مہنگا ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک؟ سب سے اہم سوال۔۔ آخر کیوں پاکستانی گھنٹے کی قیمت زیادہ نہیں ہو سکتی؟

امید ہے گھنٹوں کی خرید و فروخت پر ایک مثبت بحث دیکھنے کو ملے گی۔