1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. ماموں ثقلین

ماموں ثقلین

ماموں ثقلین کی بھی کیا ہی بات ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے خداوند پاک نے انہیں یک۔ تا پیدا کیا ہے۔ ممانی دردانہ کے روحانی نصف ہیں۔ دونوں کی جوڑی دن رات جیسی ہے۔ دونوں کی عادات و اطوار دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ بلکہ آسمان کے بھی کسی ایسے حصے پر جو دوزخ کے آس پاس ہو۔

لڑکپن میں ماموں ثقلین کمال کے عاشق رہے ہیں۔ ویسے تو لوگ مجھے پیار سے بے ایمان کہتے ہیں لیکن پھر بھی، ماموں ثقلین کی شرافت کی بابت میرا ایمان ہے کہ ممانی کو ممانی بنانے سے پہلے انہوں نے کبھی گندی گندی حرکتیں نہیں کی ہوں گی۔ میں تو کہتا ہوں نکاح کے بعد بھی گندی حرکتیں نہیں کی ہوں گی۔ ماموں ثقلین ہیں ہی اتنے نیک۔

ہاں ممانی کو ممانی بنانے سے پہلے دیواریں پھلانگتے تھے، لیکن بطور مومن ہمارا فرض بنتا ہے بدگمانی سے بچنے کا، لہذا ہمیں ماننا ہوگا کہ ماموں ثقلین ممانی دردانہ کی دیوار پھلانگ کر انہیں تجوید پڑھانے جاتے ہوں گے۔ حلق سے "ق" اور "خ" کی آواز نکالنا مشکل ہوتا ہے ناں؟ بس، اسی سلسلے میں یقیناً۔ ایپی گلوٹس سے آواز کا اخراج سکھانا بھی عین عبادت ہے۔ شنید ہے جلد از جلد گھِس دیا جائے تو ق اور خ کا صوتی اخراج سہل رہ جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔

ماموں ثقلین جوانی میں چاہے جیسے رہے ہوں، شادی کے کچھ عرصے بعد ہی تبلیغ کو پیارے ہوگئے۔ دنیا اسے ہدایت کہتی ہے۔ میں اسے ممانی دردانہ کے روحانی فضائل سے تعبیر کرتا ہوں۔ ممانی دردانہ کی منفرد، مختلف اور مستعد شخصیت پر میں پہلے ہی جامع مضمون لکھ چکا ہوں۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ اک آگ کا جوہڑ ہے اور تھوک کے جانا ہے۔ دیکھیے میرے بہت پیارے دوستوں میں سندھی شامل ہیں لیکن جیسے اگلی کئی صدیوں تک نیازیوں پر بطور سیاستدان دوبارہ بھروسہ قائم نہیں ہونے والا بس ویسے ہی، ممانی دردانہ کی شکل میں پہلی بار سندھی دیکھ کر باچیز ایک عرصہ سندھ سے خوف کھاتا رہا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے میاں منظور پائن کا جنہوں نے ٹنڈو الہہ یار میں مہمان نوازی کے ذریعے یہ خوف نکالا ورنہ میں تو ہر سندھی میں ممانی دردانہ دیکھ کر خوف زدہ ہوجایا کرتا۔ پس، ماموں ثقلین کا تبلیغی ہونا سمجھ آتا ہے۔

لیکن بھیا! وہ ماموں ثقلین آخر ایک جہاں دیدہ گھاگ ہیں۔ دنیا دیکھی ہے میاں۔۔ ممانی دردانہ ٹائپ آخری لیول کی بلا ہوگی خطرے ناک، ماموں ثقلین نے بھی خوب حل نکالا طبیعت ہشاش بشاش رکھنے کا۔ بھیا خاندان ہمارا تو چلو بڑا ہے سو ہے، ممانی دردانہ کا تو عوامی جمہوریہ خاندان ہے۔ اوپر سے خاندان میں صنف نازک کی بہتات۔ ہر عمر، رنگ، لمبائی، چوڑائی اور حجم کی خواتین نظر آتی تھیں وہاں۔ پس، ماموں ثقلین نے ممانی دردانہ نامی شر کے خاندان سے خیر کا پہلو ڈھونڈ لیا۔ ماموں ثقلین نے گو کبھی یہ بات کھل کر تو نہیں کہی، تاہم میرا ماننا ہے کہ انہوں نے ایک نہایت ہی پچیدہ ایکسیل شیٹ بنا کر رکھی ہوئی ہے جس کے نظم و نسق واسطے باقاعدہ ایک عدد اکاؤنٹینٹ رکھا ہوا ہوگا۔

اس کا کام پورے خاندان میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر شادیاں پتہ کرنا ہے۔ ماموں ثقلین کا اولین فریضہ ہے کہ ان شادیوں میں مخلوط محافل برپا نہ ہوں کہ شادی ہو یا مرگ، مخالف جنس کا اختلاط نرا شر ہے۔ اس کے بعد جب ان کے اصرار پر خوف خدا کے ہاتھوں مجبور ایسا ہوجاتا تو ماموں ثقلین اپنی اصل خدمات پیش کیا کرتے۔ کون سی خدمات؟ ارے بھئی، شادیوں میں خواتین کے حصے میں کوئی نہ کوئی مرد تو ضروری ہوتا ہے ناں؟ بس۔۔ یہ فریضہ ماموں ثقلین اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے۔ یوں نہایت کامیابی سے ماموں ثقلین سارے مردوں کو کٹا کر خود مردود بنا پھرتے، اور ممانی دردانہ ہمیشہ یہی کہتی نظر آتیں۔۔

"سنیں۔۔ کتنا کام کرتے ہیں آپ ایمان سے"

ماموں ثقلین بچوں سے خوب پیار کیا کرتے۔ یہ پیار خاص طور پر بیرون ملک سے پاکستان چھٹیاں گزارنے آئے کزنز سے کچھ زیادہ ہی ہوتا۔ اللہ خوش رکھے بہت ہی زیادہ لاڈیاں کیا کرتے۔ بچوں کے ناز نخرے تو ایسے اٹھاتے کہ پوچھیے مت، خاص کر دبئی سے آئے بچوں کے۔ مجھے یاد ہے ایک دن میری چھوٹی بہن کی طبیعت خراب تھی۔ اماں دو ڈھائی گھنٹوں سے پیچھے پڑی تھیں کہ دوا لا دیں۔ ماموں ثقلین حلیم بنانے کی تقریب کے دوران ہمیشہ کی طرح خواتین کے جھرمٹ میں خوش و خرم رہتے اماں کو ٹال رہے تھے۔

اتنے میں ایک عدد امپورٹڈ کزن نے آکر ماموں ثقلین سے ہاجمولہ کی فرمائش کی۔ ماموں ثقلین اتنے اچھے اتنے اچھے کہ فوراً سے پیشتر امپورٹڈ کزن کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر ہاجمولہ دلانے نکل کھڑے ہوئے۔ اب آپ ہی بتائیے، کرتے تھے پیار بچوں سے یا نہیں؟ امپورٹڈ عزیز و اقارب بھی پھر ماموں ثقلین کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے باقیوں کی نسبت پانچ گنا زیادہ چاکلیٹیں لا کر دیا کرتے۔ الحمد للّٰہ ہمارے خاندان کا آپس میں ایکا اور اتحاد و اتفاق ہی اتنا تھا۔ الحمد للّٰہ، چشم بد دور۔

اس حقیقت کے ہم سب گواہ ہیں کہ ماموں ثقلین ایک محنتی اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ محنت ہو یا محبت، عموماً ممانی دردانہ ہی کی قسمت میں ہوتی۔ ایک دن جمعہ پڑھ کر آئے تو بجلی چلی گئی۔ پرانا زمانہ تھا، نہ یو پی ایس ہوتا نہ جنریٹر اور ماموں ثقلین ذرا غربت کے دور میں بھی تھے لہذا کچھ نہ بن پڑا تو قمیض اتار کر ننگ دھڑنگ کھڑے ہوگئے۔ مجھے یاد ہے ممانی دردانہ نے چمکیلی آنکھوں سے ماموں ثقلین کو دیکھا اور کئی منٹ تک گھورنے کے بعد صدا لگائی۔۔

"ائے سنیں آپ کا بدن کا قدر چھریرا ہے کہیں نظر نہ لگ جائے"

اللہ قسم عجیب سی گھن آئی تھی لیکن بھئی دونوں میں مثالی محبت ہے۔

اللہ پاک ماموں ثقلین کو شاد آباد رکھے۔ جس قدر مذہب پسند تھے اللہ قسم اولاد اتنی ہی فنٹر نکلی۔ ماموں ثقلین کے سب سے چھوٹے لڑکے میں میٹھا ذرا زیادہ ہے۔ ہم سمجھتے تھے معصوم بچہ ہے۔ وہ تو ہماری آنکھ اس دن کھلی جب جوان نے چلم میں چرس بنا کر ہمیں پیش کی۔ لونڈا ان دنوں غالباً چھٹی جماعت میں تھا۔ بات کسی طرح باہر نکل گئی تو ممانی دردانہ اور ماموں ثقلین نے اللہ کے فضل و کرم سے ہم پر یہ حقیقت آشکار کی کہ یہ سب لونڈے نے ہم سے سیکھا، حالانکہ خدا جھوٹ نہ بلوائے چرس تو خوب پی ہم نے لیکن واللہ ماموں ثقلین کے چھوٹے لڑکے کی طرح آج تک نہ بنا پائے۔ بھئی کمال، سبحان اللہ۔

اللہ پاک ماموں ثقلین کو ہمیشہ یوں ہی خرم و خوش رکھے۔ اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا، جھرجھری آنے لگی ہے اب۔

وما علینا الا البلاغ