1. ہوم
  2. کالمز
  3. معاذ بن محمود
  4. رافیل گرانے سے ہماری زندگی پر کیا اثر پڑا؟

رافیل گرانے سے ہماری زندگی پر کیا اثر پڑا؟

یہ نہایت سنجیدہ اور اہمیت کا حامل سوال ہے اور جس قدر اس سوال کی اہمیت ہے جتنا یہ سوال سنجیدگی کا متقاضی ہے، جواب بھی اتنا ہی سنجیدہ اور متانت سے بھرپور ہونا چاہیے۔

میری ادنی اور سوچی سمجھی رائے میں یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ کسی سے پوچھیں کہ افریقی آلۂ تناسل جو آپ کے اندر آپ کی مرضی کے بغیر گھسنے والا ہو، اسے پکڑ کر کاٹ پھینکنے سے آپ کی زندگی پر کیا فرق پڑا؟

کوئی خاص نہیں، بس اتنا کہ اس بار ہم افریقی آلۂ تناسل پر براجمان نہیں ہوں گے اور اگلا افریقی آلۂ تناسل اتنی جلدی نہیں آئے گا جتنا اسے کاٹ کر نہ پھینکے جانے کی صورت میں آسکتا تھا۔ مزید یہ کہ اب ہمیں میڈ ان چائنہ سستی مگر بڑی اور موٹی قینچی کی خریداری کا وقت بھی مل جائے گا۔

پہلگام کو لے کر پڑوسیوں کی جانب سے محبت بھرے میزائل بھیجنے کے حق میں جو وکالت کی جاتی ہے، میری ادنیٰ رائے میں اس سے بڑی منطق دو ریاستوں کے درمیان سرحد کا تقدس ہے۔ میزائل ارسال کرنے اور موصول کرنے والے دونوں ہی ممالک اگر ایٹمی قوت بھی ہوں تب حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ بیشک آپ جنگی جنون کے جس قدر بھی خلاف ہوں، نہ پاکستان نے اپنے پٹاخے شب برات پر پھوڑنے کی نیت سے بنائے ہیں نہ بھارت نے دیوالی پر پھااڑنے کے ارادے سے۔

اب جب میزائل موصول ہو گئے تو جواب نہ دینے سے ہماری زندگیوں پر کیا فرق پڑتا؟

کوئی خاص نہیں، بس اگلے میزائل ذرا جلدی آجاتے، اگلی بار ممکن ہے زیادہ لوگ مارے جاتے اور میزائل بازی کی فریکوینسی عادتا بڑھ جاتی۔ ہمارے کچھ احباب پڑوسیوں سے امپریس تو بہت ہیں کہ بڑی معاشی قوت ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ایسا بھی نہیں کہ معیار زندگی ناروے، ڈینمارک، آسٹریلیا والا ہو۔

سو احباب گرامی، پہلا سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ میزائل ارسال کرنے والوں کی جانب عوام کی زندگی پر کیا اثر پڑا؟ ہتھیار پر خرچ ہونے والا ہر روپیہ عوام کے معیار زندگی کو کسی نہ کسی درجے کم ہی کرتا ہے، پھر چاہے بارڈر کے اِس پار ہو یا اُس پار۔ چونکہ پہلا میزائل پڑوس سے آیا تو پہلے یہی سوال پڑوس سے بنتا ہے۔

لیکن پڑوس بھی ہماری اتنی ہی سنتا ہے جتنا ہم پڑوس کی، سو یہ سوال بے معنی رہ جاتا ہے، چاہے ہم ان سے پوچھیں یا وہ ہم سے۔ پھر بھی اگر کوئی بھائی دوست اپنے تئیں سنجیدگی کے ساتھ پوچھ رہا ہے تو آپ کا فرض ہے سنجیدگی کے ساتھ جواب دیں۔ جواب میں گالیاں دینا کوئی دانشمندی کی بات تو نہیں۔

رافیل گرنے سے یہ فرق پڑے گا کہ اب کچھ عرصے ہمارے اوپر دوبارہ رافیل بھیج کر کوئی جنگ مسلط کرنا چاہے گا تو اسے ایک بار ذہن میں پچھلے رافیل مرحوم کی یاد ضرور آئے گی۔ کیا رافیل بھیجنے سے پہلے ہم سے پوچھا گیا تھا؟ جواب ہے نہیں۔

ایک اور بات اور یہ بھی کچھ دوستوں کو ممکن ہے بری لگ جائے۔

گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو سزا ملنے پر مجھے خوشی ہوئی تھی کیونکہ مجرم کو جرم کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اول تو میں نے اس خوشی کا اظہار کوئی خاص کیا نہیں، کرتا اور کسی دوست کو میری خوشی ناگوار محسوس ہوتی کہ جنون میں مبتلا ہے یا فتح کے آرگیزم میں سرشار ہے تو ایسا سوچنا دوستوں کا حق ہے، اس پر قطع تعلق کرنا بھی ان کا حق۔ میں اس حق کی حرمت کا اعتراف کرتے ہوئے مجرم کو سزا ملنے پر اپنے اطمینان کا اظہار کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں۔

ویسے ہی جیسے پڑوسیوں کی جانب سے پہلگام کے مجرموں کو پکڑ کر لٹکانے پر ہوگی، پاکستان کی جانب سے جعفر ایکسپریس کے مجرموں کو پکڑ کر سزا دینے پر ہوگی یا پھر جیسے۔۔ بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی پر رافیل گرائے جانے پر مجھے ہوئی۔ باقی مسود اظہروں اور ابن لنگڑوں پر میں پہلے ہی اپنا مؤقف دے چکا ہوں کہ پائن مہربانی کرو انہیں کسی نہ کسی طریقے سے آف لوڈ کر دو۔

آگے آپ کی مرضی۔۔