1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. صحافت کی موٹی کھال اور سیاسی کارکن کا بیان

صحافت کی موٹی کھال اور سیاسی کارکن کا بیان

صحافت کی موٹی کھال میں چھپے مشہور سیاسی جماعت کے ایک عدد مشہور نمائیندے نے ایک عدد کالم لکھا ہے جو آج مجھ تک بذریعہ ڈیلی اردو کالمز کی ہفتہ وار ای میل پہنچا۔ کالم اپنی طرف سے تو کافی دلچسپ لکھا لیکن مسئلہ وہی ہے کہ جب آپ سیاسی جماعت کے نمائیندے ہوتے ہیں تو غیر جانبدار تجزیہ نگاری والی نس کی نس بندی اپنے ہاتھ سے کر چکے ہوتے ہیں۔

حضرات معاملہ کچھ یہ ہے کہ سوشل میڈیا، اپنی قدرت میں پرنٹ یا روایتی میڈیا کے برعکس Simplex نہیں Duplex رابطہ ہے یعنی یہاں بات کرتے ہیں تو جواب بھی آتا ہے جو روایتی میڈیا میں ممکن نہیں۔ دوسری جانب، سوشل میڈیا پر دستیاب مذکورہ بالا صحافت کی موٹی کھال میں ملبوس ان سیاسی کارکن کو تنقید سے بھی چڑ ہے، اور تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا صحافت کی کھال میں ملبوس سیاسی کارکن سوشل میڈیا کی واہ واہ سے دور بھی نہیں ہونا چاہتے۔ یہ تو سیدھا سیدھا Dilemma ہوگیا ناں۔

چلیے، واہ واہ سننا بھی مذکورہ بالا صحافت کی موٹی کھال میں ملبوس سیاسی کارکن کا حق صدق دل سے ماننا مجبوری ہے، گو ایسا کرنے والے کی صحت کے لیے ہانیکارک ہے، مگر پھر، جب دوسرے آپ کی دلیل کو حجت کی جراحی سے گزاریں تو پھر رونا پیٹنا اور بین تو کم از کم نہ کریں۔ مطلب ایسا کیونکر ہو کہ آپ کی جانب سے صحافت کی موٹی کھال کے نیچے سے سیاسی خدمت جاری رہے مگر جوابی تنقید نہ ہو؟ ایسا کیوں ہے کہ جوابی تنقید پر آپ کی صحافتی کھال جلنا شروع ہوجاتی ہے؟ بھئی سننے کا حوصلہ رکھیے، برداشت سیکھیے۔

سیاست کی موٹی کھال میں چھپے سیاسی جماعت کے نمائیندے اپنے کالم میں موجودہ حالات کا یکطرفہ خاکہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 1997 میں نواز شریف کا عدلیہ سے ٹکراؤ جاری تھا جس کی وجہ ان کے مطابق تیرہویں یا چودھویں ترمیم نہیں بلکہ کچھ اور معاملات تھے۔ ان معاملات میں پہلا معاملہ 13 اگست 1997 کو نواز شریف کی جانب سے پیش کردہ ایک عدد انسداد دہشتگردی بل تھا۔

میں یہاں صحافت کی موٹی کھال میں لپٹے اس سیاسی جماعت کے مشہور نمائیندے سے درخواست کرنا چاہوں گا کہ اگر خود کو اردو صحافت کا اہم گنڈاسہ (گنڈاسہ کہا ہے گینڈا نہیں) کہلوانا چاہتا ہے تو کم از کم دستیاب اردو اصطلاحات کا استعمال تو کر لیا کرے۔ اردو میں"اینٹی ٹیررسٹ" کی اصطلاح کا استعمال ہم جیسے لونڈے لپاڑوں پر تو چل جاتا ہے، ایک جانے مانے اور بھاری بھرکم شہرت رکھنے والے صحافت کی موٹی کھال میں لپٹے سیاسی کارکن کا ایسا کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔

خیر، تو مذکورہ بالا صحافت کی موٹی کھال میں چھپے سیاسی کارکن کے مطابق 1997 کے تصادم کی پہلی وجہ ایک عدد انسداد دہشت گردی بل تھا جس کی رو سے حکومت پولیس کے اختیارات میں اضافہ کرنا چاہتی تھی۔ یہ بل سپریم کورٹ نے خلاف قانون قرار دے دیا تھا۔ یہ نواز شریف کی خنس کی پہلی وجہ تھی۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ اس وقت سپریم کورٹ میں درکار ججوں کی آئینی تعداد اس وقت 17 تھی جس میں بارہ جج موجود تھے اور مزید پانچ کی تقرری مطلوب تھی۔ نواز شریف نے قدرے تامل کے بعد پانچ کی بجائے تین ججوں کے نام دیے۔ یہ نام سجاد علی شاہ نے قبول کرنے سے انکار کر دیے۔ صحافت کی موٹی کھال میں چھپے سیاسی کارکن کے مطابق نواز شریف نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ اپنے مخالف جج سپریم کورٹ میں نہیں لانا چاہتے تھے۔

قارئین کرام، آج دوپہر موقع ملا تو باچیز صحافت کی موٹی کھال میں چھپے اس سیاسی کارکن کی دیوار کا جائزہ لے کر آیا۔ یوں لگا جیسے بہت سے یوتھیے مل جل کر وہاں باجماعت موتر وسرجن کرنے پہنچے ہوں۔ صحافت کی موٹی کھال میں چھپے سیاسی کارکن کا رونا دھونا بھی جاری تھا اور بیک وقت دھمکیاں بھی جاری تھیں۔ صحافت کی موٹی کھال میں چھپ کر بھی سیاسی کارکن اپنے قاری کو گالیاں دیتے اچھلنے کی ناکام کوشش فرما رہے تھے لیکن خیر، وہ تو حق ہے ان کا۔

چلیے ہم چند لمحے صحافت کی کھال میں ملبوس اس سیاسی کارکن کے بیانات کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مذکورہ بالا صحافت کی کھال میں چھپے سیاسی کارکن کے مطابق 1997 کے تصادم کی پہلی وجہ ایک عدد انسداد دہشت گردی بل تھا جس کی رو سے حکومت پولیس کے اختیارات میں اضافہ کرنا چاہتی تھی۔ ہم مان لیتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے تب یہ بل چیلنج ہونے پر اس کے کچھ حصوں کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ اب سوال یہ ہے، کہ یہ جو پچھلے ایک برس سے تحریک انصاف کے کارکنان جس قانون کے تحت اٹھائے جا رہے ہیں، وہ کس نے منظور کروایا تھا؟

اچھا چلیے جس نے بھی کروایا، اختلاف کم از کم کسی معاملے پر ہوا تھا ناں؟ مطلب حکومت کا ایک مؤقف تھا، سپریم کورٹ کا دوسرا۔ پھر اختلاف ہوگیا۔ جو اختلاف تھا وہ بیس ایک سال بعد ہر عاقل بالغ سے لے کر کسی گھامڑ المغز صحافت کی موٹی کھال میں ملبوس سیاسی کارکن تک کو واضح تو ہے۔ یہ تو پتہ ہے ناں کہ اختلاف تھا، ایک سے زائد باتوں پر تھا، آئینی معاملے پر اختلاف تھا، ریاست کے دو ستون ایک دوسرے کی آئینی معاملے پر مخالفت میں لگ گئے تھے۔ یہ تو پتہ تھا ناں؟

جس سیاسی جماعت کے آپ کارکن ہیں اس کے ساتھ کیا ہوا بھلا؟ امریکہ میں میٹنگ؟ امریکیوں کی خان صاحب کو دھمکی؟ سائفر؟ وہ کاغذ لہرا کر مقلدین کو چ بنانا تو یاد ہوگا ناں؟ پھر؟ سازش و مداخلت کا چورن بیچنا یاد ہے؟ پھر باجوے کی مدد سے حکومت حاصل کرنے کا اعتراف یاد ہے؟ پھر باجوے کی مدد سے اسمبلی میں ووٹوں کا انتظام یاد ہے؟ پھر باجوے کی مدت ملازمت میں توسیع یاد ہے؟ پھر باجوے سے ناراضگی کس بات پر ہوئی؟ پتہ چلا؟ کیوں کٹی کر لی باپ سے خان صاحب نے؟ کچھ سمجھ آیا؟ امریکی سازش تھی؟ امریکی مداخلت تھی؟

امریکی سازش پر قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ کا اعلامیہ یاد ہے؟ اس میں باجوہ ملوث تھا؟ باجوے نے ایسا امریکی ایماء پر کیا؟ اگر اس وقت تک پتہ چل چکا تھا تو باجوے کے کہنے پر اسمبلیاں کیوں توڑیں؟ کاکا ہے خان؟ باجوہ امریکی سازش میں ملوث تھا پھر بھی اس کی بات مانی؟ باجوے کی ریٹائرمنٹ سے پہلے تک اس کے خلاف منہ کیوں نہ کھولا؟ حافظ کے بارے میں زبان کیوں بند ہے؟ خان بزدل ہے؟ پتڑ بھس ہے؟ کوسہ ڈب ہے؟ اگر تب سچے تھے تب امریکی سازش تھی تو اب کیسے محبتیں بڑھ گئیں؟ اگر تب امریکیوں کا اپوزیشن سے ملنا حرام تھا تو اب کیسے حلال ہے؟

کیا ہوا خان کے ساتھ؟ کیا کہیں کوئی آئینی اختلاف تھا کسی ادارے کے ساتھ؟ تھا تو حکومت میں رہتے بولا (بھونکا پڑھیے) کیوں نہیں؟ اور اگر آئینی اختلاف نہیں تھا، کسی بل کا مسئلہ نہیں تھا، ججوں کی تقرری کا مسئلہ نہیں تھا، آرمی چیف کی تقرری کا مسئلہ نہیں تھا تو مسئلہ کیا تھا؟

صحافت کی موٹی کھال میں ملبوس سیاسی کارکن صاحب، تف ہے آپ پر، آپ کی بدنیتی پر، آپ کی غلط بیانی پر، آپ کی گمراہی پر، آپ کی تبلیغ پر، آپ کی سیاست پر، آپ کی سیاست جماعت پر، آپ کے سیاسی جھکاؤ پر، آپ کے سیاسی خدا پر!

صحافت کی موٹی کھال میں چھپے سیاسی کارکن نے دوسری وجہ 1997 کے تصادم کی یہ بتائی کہ سجاد علی شاہ کو پانچ جج چاہئے تھے اس نے تین نام وصول کرنے کو مسترد کر دیا۔ آپ فرماتے ہیں پانچ جج نہ دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔

یعنی اب کیا معقول ہے کیا معقول نہیں اس کا فیصلہ بھی آپ صادر فرمائیں گے؟ چلیے، پانچ نام نہ دینے کی وجہ معقول نہیں تھی، مان لیا، تین نام نہ ماننے کی کون سی معقول وجہ تھی سوائے اس کے کہ سجاد علی شاہ کو بھی نواز شریف سے اتنا ہی مسئلہ تھا جتنا نواز شریف کو سجاد علی شاہ سے؟ مطلب آپ انجمنِ پاپوش پرستانِ عمران خان سے تعلق رکھ کر ہمیں آئین پڑھائیں گے؟ چلو وجہ جو بھی تھی، یہ بھی مان لیا کہ نواز شریف بدنیت تھا، آپ بس تین نام نہ ماننے کی کوئی معقول وجہ بتا دیں؟

اچھا یہ سب بھی چھوڑیں، بنڈیال کی سپریم کورٹ کا کیا سین ہے ابھی؟ کتنے جج ہیں؟ کتنے باقی ہیں؟ کون روک رہا ہے؟ کیوں نہیں آنے دیے جا رہے مزید جج؟ اگر تب سجاد علی شاہ کی جانب سے نامکمل نام حرام تھے تو ابھی کیسے حلال ہیں؟

قارئین کرام، ایک مشورہ سن لیں۔ اپنے بچوں کو ہمیشہ مخالف رائے خندہ پیشانی سے سننے کا عادی بنائیں۔ بچپن میں ہوئی زبان بندی، دلیل سے دوری اور سوال اٹھانے کا انجام وہی ہو سکتا ہے جو صحافت کی موٹی کھال کے پیچھے چھپے اس سیاسی کارکن کا ہوا۔ اب صحافت کی موٹی کھال میں ملبوس یہ سیاسی کارکن اختلافی رائے سننے کی صلاحیت سے محروم ہے، ایسا کرنے والا اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے، پھر یہ روتا ہے دھوتا ہے چیختا چلاتا ہے، دہائی دیتا ہے اور آخر میں دھمکیاں دے کر پہلوان بننے لگ جاتا ہے مگر بنیادی مسئلے پر بات نہیں کرتا کہ یکطرفہ سوچ کے وزن سے اب مدلل تنقید اور سوال سننے سے عاری ہوچکا ہے۔

صحافت کی موٹی کھال میں چھپے اس سیاسی کارکن کا قلم اب دلائل کا تبادلہ نہیں کر سکتا۔ پھر بھی صحافت کی موٹی کھال میں ملبوس سیاسی کارکن کے شائع مضامین کا کم از کم دو جگہ مصرف ممکن ہے۔

1۔ آپ انہیں پڑھ کر ہنس سکتے ہیں

2۔ جس کاغذ میں یہ کالم چھپے ہوں ان میں پکوڑے لا سکتے ہیں

وما علینا الا البلاغ