1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. دی لومنگ ٹاور

دی لومنگ ٹاور

۹/۱۱ جدید انسانی تاریخ کے سانحات میں سے ایک ہے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ اسی سانحے کا تسلسل ہے جسے ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ میں نے کابل کی قریب ہر پرانی تعمیر پر گولیوں کے نشان دیکھے۔ خون جما دینے والی سردی میں روزانہ صبح ان نشانات کو دیکھتے گزرنا بہرحال میری زندگی کا ایک مشکل مرحلہ تھا۔

سووویت جنگ میں امریکہ کے اتحادی طالبان کیسے امریکی مخالف بنے، اس کے ہنٹ جاننے کے لیے "چارلی ولسنز وار" ایک اچھی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ملا عبد السلام ضعیف اور میاں صاحب کی سابقہ ٹھرک کم بارکر کو پڑھ کر مزید تفصیل جانی جا سکتی ہے۔ یہ باتیں شاید میں پہلے بھی کر چکا ہوں، بہرحال اس ضمن میں مجھے اب تک یہ مواد بہترین لگا۔

لیکن ۹/۱۱ کے سارے معاملے کا ایک زاویہ اور بھی ہے۔

سی آئی اے جو دنیا بھر امریکی انٹیلیجینس کا نمائندہ ادارہ ہے، تمام اہم معلومات دستیاب ہونے کے باوجود یہ حملے کیوں نہ روک پائی۔ ایک ایسا ادارہ جو پاکستانی وزیر اعظم کو امریکہ بلا کر وہ تفصیلات بتانے کی اہل تھی جو ہمارا کا اپنا آرمی چیف وزیراعظم سے چھپاتا رہا، آخر کیونکر معلوم نہ کر پائی کہ اس کا اپنا ملک خون میں نہانے والا ہے۔

ڈیپ سٹیٹ کو لے کر ہلیری کلنٹن پاکستان کی مثال دیتی ہیں جس پر "غریب کی جورو سب کی بھابھی" ذہن میں آتا ہے۔ ہلیری اور ان کی عوام خود اپنی ہی ڈیپ سٹیٹ کے ہاتھوں جو کچھ بھگت چکی ہیں اس کی مثال دینا البتہ ہلیری کے لیے بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی پاکستانی "حاضر سروس" سیاستدان کے لیے۔

سینسرشپ امریکہ میں بھی اس حد تک ضرور ہے کہ کوئی ڈیپ سٹیٹ کے ہرکاروں کے نام نہیں لے سکتا۔ البتہ اتنی آزادی بھی ضرور ہے کہ واقعات کا ایک ایسا زاویہ سامنے رکھ دیتے ہیں جس سے ناظر نتیجہ ضرور اخذ کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں ڈک چینی کی زندگی پر مبنی فلم "وائس Vice"، "دی رپورٹ The Report"، "سنوڈین Snowden"، اور تازہ ترین اضافہ لمیٹڈ سیریز "دی لومنگ ٹاور The Looking Tower" ہے۔

دی لومنگ ٹاور سے آپ کو امریکی اداروں کے درمیان سرد چپقلش کا ایک اور پرسپیکٹو نظر آتا ہے۔ یہ کہانی نوے کی دہائی میں او بی ایل کی جانب سے امریکہ مخالفت مخالفت کے آغاز سے لے کر ۹/۱۱ کے حملوں تک سی آئی اے اور ایف بی آئی کے سفر پر مبنی ہے۔ فلم کا لب لباب یہی ہے کہ سی آئی اے اس قدر طاقت ور تھی کہ ایف بی آئی کے کاؤنٹر انٹیلیجینس ہیڈ جوہن او نیل کے خلاف بھی سازش کر کے اسے عہدے سے ہٹانے میں کامیاب ہو سکتی تھی۔ ایف بی آئی اور سی آئی اے کے اہداف اور ان میں تصادم سیریز کا مرکز ہے۔ سیریز میں ۹/۱۱ انکوائری کمیشن کی اوریجنل فوٹیجز اور ان کی ری کری ایشن کے متعلقہ سوالات کو لے کر ان کے ساتھ متعلقہ واقعات دکھائے گئے ہیں۔

سیریز میں دو کردار انتہائی دلچسپ اور متواتر ہیں۔ پہلا جوہن او نیل، ایک گرم مزاج افسر جو بحیثیت ایف بی آئی کاؤنٹر انٹیلیجینس ہیڈ متعین ہے جبکہ دوسرا جوہن کا جونئیر علی صفوان، جو لبنانی نژاد مسلمان امریکی ہے اور ایف بی آئی کاؤنٹر انٹیلیجنس ادارے میں سپیشل ایجنٹ ہے۔ جوہن اور علی کے درمیان ڈائیلاگز کمال ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر یہ گفتگو ہوتی ہے:

Jack ONeil: So I got a question. These so called martyrs. They blow themselves to smithereens in front of our embassies. Is this "72 virgins" thing really what theyre expecting at the other side?

Ali Soufian: Not merely 72 virgins، boss. 72 blonde and red headed virgins with beautiful breasts and mesmerizing eyes.

Jack ONeil: Like Swedish girls?

Ali Soufian: Swedish، German، Irish، Russian.

Jack ONeil: So basically this is all about international pussy. Who came up with this horseshit?

Ali Soufian: Its not from the Quran. Basically its urban legend.

Jack ONeil: What do you make of it?

Ali Soufian: I think its preposterous and far from the heart of Islam.

Jack ONeil: "Blow yourself up and win the pussy" sweepstakes its like consumer fraud and، ironically، so fucking American.

Ali Soufian: Yeah but it does wonders for Al Q**da recruitment.

۹/۱۱ دہشت گردی کے جس سلسلے کی آخری کڑی تھا اس کی تفصیل کے لیے یہ بہترین سیریز ہے۔ ڈائیلاگ اور عکس بندی بہترین ہے۔ دی لومنگ ٹاور لارینس رائٹ کی کتاب پر مبنی سیریز ہے جو ۱۴ کے قریب بین الاقوامی انعامات جیت چکی ہے۔ ٹی وی سیریز امیزون پرائم پر دستیاب ہے۔