1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. محمد حنیف ڈار/
  4. آداب عرض

آداب عرض

موجودہ بائیبل جو چار بائیبلز پر مشتمل ھے، دراصل حضرت عیسیؑ کی بایوگرافی ھے نہ کہ آسمان سے نازل شدہ اصلی انجیل، اناجیل اربعہ مختلف لوگوں کی طرف منسوب ہیں جس طرح صحاح ستہ مختلف مصنفین کی طرف منسوب ہیں، بایوگرافی آف جیزز اکارڈنگ ٹو "(1- انجيل مرقس · 2- انجيل متى · 3- انجيل لوقا · 4- انجيل يوحنا ·) اور بایوگرافی آف پرافٹ محمد ﷺ اکارڈنگ ٹو بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی میں کوئی فرق نہیں ھے۔ سب کا مقصد بہت بعد میں اپنے اپنے نبی کی سیرت بیان کرنا اور ثواب حاصل کرنا تھا، سوانح عمری پر مشتمل ان کتابوں میں کلام اللہ کا حوالہ بھی مختلف جگہ پر دیا گیا، آئستہ آئستہ ھم نے ان کتابوں کو کلام اللہ کی تشریح و تبیان سمجھ کر اڈاپٹ کر لیا اور عملی زندگی میں کبھی مڑ کر بھی کتاب اللہ کی طرف نہ دیکھا، حالانکہ کلام اللہ کی مذھبی تشریح یعنی عبادات وغیرہ سے متعلق احکامات نبئی کریم ﷺ کی اس ذمہ داری میں شامل ہیں جو بطور رسول آپ کو اپنی رحلت سے پہلے سرانجام دینی تھی [ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الجمعہ ـ2)یعلمھم الکتاب سے مراد کتابت سکھانا نہیں ھے بلکہ قانون سکھانا ھے قانون کیا ھے؟ اللہ کا حکم ھی قانون ھے جیسا کہ کتب علیکم الصوم کا مطلب ھے لکھے گئے تمہارے ذمے روزے، اور حکمت ان کو عملی طور پر کرکے دکھانے کا نام ھے جس کو پریکٹیکل کہا جاتا ھے جیسے کالج میں صرف تیزابوں کے فارمولے ھی نہیں پڑھائے جاتے بلکہ تیزاب بنا کر دکھائے جاتے ہیں اور پھر امتحان میں تیزاب بنا کر دکھانے پڑتے ہیں تب نمبر ملتے ھیں چنانچہ نبئی کریم ﷺ کی طرف سے یہ فرضِ منصبی سرانجام دینے کے بعد ھی اللہ پاک نے اس کی تصدیقی سند عطا فرمائی کہ [ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (المائدہ ـ 3) آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ھے اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام یعنی انتہاء کر دی ھے اور اسلام کو تمہارے لئے بطور دین پسند فرمایا ھے، یعنی اسلام وھی ھے جو مکمل کر دیا گیا ھے اور تشریح وہ ھے جو عمل مصطفی ﷺ کے ذریعے فائینل کر دی گئی ھے، اب اگر کسی سے گناہ کی طرف مائل ھوئے بغیر کوئی غلطی سر زد ھو گئی ھے تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت شفیق ھے، یہ بشارت جن لوگوں کو دی گئی ان کو یہ نہیں کہا گیا کہ اس دین کی تکمیل اور اس کی عبادات کی وضاحت 200 سال بعد آنے والے کچھ بزرگ کریں گے، تو تم ان کا اتباع کرکے ھی رب کی رضا پا سکتے ھو۔

اگر یہ حضرات اپنی افتادِ طبع کے ہاتھوں گھوم گھام کر نامعلوم کو معلوم کرنے نہ نکلتے تو کیا ھوتا، کیونکہ یہ حضرات کسی دینی ذمہ دار یا خلافت کی کسی کمیٹی کی طرف سے حکم دے کر اس دینی خدمت پر متعین نہیں کیئے گئے تھے، یہ سو فیصد ان کا اپنا ذاتی فیصلہ تھا کہ کچھ نیا کیا جائے ـ جو مواد اس وقت تک مارکیٹ میں سیرت کے نام پر موجود ھے اس کی چھانٹی کی جائے، پھر مسئلہ یہ بھی نہیں ھر صحافی آزاد ھے کہ وہ انویسٹیگیٹنگ صحافت کرے، مگر اس کا ماحصل کبھی بھی کسی آئین و قانون کا نعم البدل نہیں ھوتا، کسی صحافی کی کھوج کرید کے باوجود اس کی رپورٹ کبھی کسی ملک کے آئین و قانون میں شامل نہیں کر لی جاتی ـ وہ لوگوں کے مطالعے کے لئے دستیاب رھتی ھے ان کے جنرل نالج میں اضافہ کرتی ھے اور عبرت کا سامان بھی کرتی ھے، مگر کبھی بھی کسی عدالت میں فیصلے اس کی بنیاد پر نہیں ھوتے ـ

اگر ھمارے ذاکر نائیک حفظہ اللہ کی طرح کے مناظر جو ھندو لٹریچر میں سے غلطیاں نکالتے اور بائیبل کے تضادات کو واضح کرتے ہیں اگر یہی کام نیک نیتی کے ساتھ خود اپنی اناجیل ستہ کے ساتھ کر لیتے تو شاید اب تک شہادت کے رتبے پر فائز ھو چکے ھوتے کیونکہ عملی زندگی میں اب یہی اناجیل ستہ دین کا ماخذ و منبع بن چکی ہیں، اگر قرآن نے ان کا رستہ کبھی روکنے کی کوشش کی بھی تو پہلوانوں کی عالمی ریسلنگ فیڈریشن کے ریفری کی طرح قرآن حکیم کو ھی تاویل کی سان پر چڑھا کر گول اور پتلا کرکے اس طرح فٹ کیا گیا کہ جیت آخرکار حدیث کی ھو، اور اس کے لئے باقاعدہ ایک صاحب نے السنۃ قاضیۃ علی القرآن " کا اصول پکڑا دیا مگر سنت کی جگہ حدیث کو دے کروھی حال کیا جو ایک صاحب نے گردے کی جگہ ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ میں تسلیم کرتا ھوں کہ بات دماغ میں سوچی جاتی ھے مگر دماغ گردے میں ھوتا ھے: کتاب اللہ کے واضح اور دو ٹوک فیصلے کے بعد بھی لوگ پلکیں چھپکاتے ھوئے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں کہ گویا کہہ رھے ھوں کہ " کیا حدیث اس کی تصدیق کرتی ھے؟

سنت ھی قرآن کی وہ وضاحت اور تشریح تھی جس کی کسوٹی پر دین کی تکیمل کی گئی تھی اور وہ سنت کوئی ایسی دستاویز نہیں تھی کہ جس کو سال بعد لوگ عرس کی صورت میں اکٹھے ھو کر دیکھ لیتے تھے جیسے کہیں مجمع لگا کر موئے مبارک دکھائے جاتے ہیں بلکہ وہ سنت 24 گھنٹے اور ساتوں دن خون کی طرح اس معاشرے میں رواں دواں اور جاری و ساری تھی جو معاشرہ نبئی کریم ﷺ چھوڑ کر گئے اور جن میں وہ سنت اسی طرح کلکاریاں مارتی تھی جیسے مچھلی پانی میں، ھم انہی لوگوں کا رستہ ھر نماز میں مانگتے ھیں اور وھی ریفرینس ہیں اس دین کا، حدیث یا روایت نے تو کچھ بھی مجمع علیہ نہیں چھوڑا، جو عبادت دن میں پانچ بار اور سال کے 365 دن کی جاتی تھی اسی میں ایسے ایسے اختلافات ڈال دیئے کہ الامان الحفیظ