1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد ذوالقرنین/
  4. تحریک لبیک پاکستان کی سیاست

تحریک لبیک پاکستان کی سیاست

تحریک لبیک پاکستان آجکل پاکستانی میڈیا اور عام لوگوں کی زبانوں کی زینت بنی ہوئی ہے۔ سابقہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ابھرنے والی اس جماعت نے ملک کی سیاست میں ہلچل مچائی ہوئی ہے جب سلمان تاثیر کو اس کے اپنے سیکورٹی گارڈ نے قتل کیا تو اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ ایک سیاسی جماعت بن کر ابھرے گی اور اس قدر شہرت دوام حاصل کرے گی، ممتاز قادری جس نے سلمان تاثیر کو قتل کیا کو جب پھانسی دی گئی تو کچھ حلقے اس بات کا مکان ظاہر کر رہے تھے کہ دیوبند اسلام کی سیاست سے تقریباً خاتمے کے بعد شاید بریلوی اسلام وہ خلا پر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان کے لیڈر علامہ خادم حسین رضوی، پیر اجمل قادری وغیرہ جس انداز میں اس جماعت کو سیاست کے میدان میں متعارف کرانے میں کامیاب ہوئے، بہت سے سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ان کو ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے کیوں کہ پاکستانی سیاست میں کسی بھی جماعت کا اس قدر جلدی مقام بننا ریاست کی مہربانی کے بغیر ممکن نہیں۔ مگر ریاست کے ادارے اس بات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ اگر 1980 میں دیوبندی اسلام کی سیاست مین انٹری کو دیکھیں تو ان کو ایک تو ریاستی ادارے کھل کر مدد فراہم کر رہے تھے اور دوسرا مسلم ممالک بھی ان کی مالیاتی مدد میں مصروف تھے دیوبندی اسلام کی حمایت کے سوال پر ریاست ہمیشہ یہی جواب دیتی رہی کہ ریاست کے مفادات کے لیے انہوں نے قربانیاں دیں یعنی سوبت یونین جنگ میں افغان طالیان کا وجود اور جہاد نعرے نے ریاست پاکستان کے لیے دیوبندی مکتب فکر نے اہم کردار ادا کیا۔ 1990 میں افغان جنگ کے بعد جو حشر دیوبندی گروپس نے پاکستان میں کیا اُس کو پھر بھی برداشت کیا گیا، اور غیر ضروری چھوٹ دی گئی اور دوسرے اسلامی ممالک کی طرف سے آنے والی مالیاتی امداد کو بھی نظر انداز کرتے رہے۔ 2001 ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملے کے بعد ریاست پاکستان نے ان گروپس کی اصل تباہی دیکھی۔ ملک میں ہر روز خود کش دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ نے ملک کے امن کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ جب ریاست نے روکنا چاہا تو دیر ہو چکی تھی اور یہ گروپس عوام میں سرایت کر چکے تھے اور اس کا خمیازہ پوری قوم کو ادا کرنا پڑا۔

تحریک لبیک کی سیاست میں انٹری کچھ زیادہ دیر کی دیکھائی نہیں دیتی کیونکہ نہ تو اب ریاست کسی بھی گروپ کو چھوٹ دے سکتی ہے اور نہ ہی عوام اب کسی بھی گروپ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، سیاسی جماعت کے لیے سب سے ضروری ہے مالیاتی مدد جو کہ تحریک لبیک کو ایک دو دھرنے کے لیے تو مل سکتی ہے مگر مسلسل ملنا مشکل ہے کوئی اسلامی ملک مالیاتی مدد کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی ریاست اب کسی ملک کو اپنے ملک کے کسی گروپ کی حمایت کی اجازت دے گی۔ ایک وجہ جو کہ تحریک لبیک پاکستان کی سیاست کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے وہ ہے ان لیڈران کی زبان اور عمل۔ اگر ہم دیوبندی اسلام کو دیکھیں تو پہلے انہوں نے عوام میں مقبولیت حاصل کی اور ملک میں کسی بھی تحریک کا حصہ نہیں رہے مگر جب وہ عوام میں مقبول ہوئے پھرانہوں نے ملک میں سیاسی قدم جمانا شروع کیے تھے مگر تحریک لبیک کے لیڈران کی زبان اور آئے روز دھرنے عوام میں مقبولیت کو کم کر رہے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان کی سیاست کو مالیاتی بحران اور لیڈر شپ کی کمی کا سامنا ہے ایک ایسی لیڈر شپ جو کہ ریاست کے اداروں اور عوام میں اپنا مقام بنا سکے اور یہ کام خادم حسین رضوی اور پیر اجمل قادری کے مزاج کے خلاف لگتا ہے کیونکہ نہ تو ان دونوں کو ریاست قبول کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی عوام۔

محمد ذوالقرنین

Muhammad Zulqarnain

محمد ذوالقرنین کا ڈیرہ غازی خان سے تعلق ہے، پاپولیشن سائینسز اور بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کیا اور دو سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ وہ بین الاقوامی سیاست، پاکستانی و علاقائی سیاست اور سوشل ایشوز پر لکھتا ہیں۔