1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. مطربہ شیخ/
  4. تعویذ

تعویذ

کہانی کی درد ناک چیخوں سے اس کی نیند ٹوٹ گئی، وہ سونا چاہتی تھی لیکن کہانیاں اسے سونے نہیں دیتی تھیں۔ کبھی کہانیوں کے قہقے اسے جگاتے تھے کبھی چیخیں۔ کبھی آہ و بکا اور کبھی ان کی لایعنی باتیں۔ اور وہ جاگتی رہتی۔ نہ جانے کب سے وہ پوری نیند نہ سو سکی تھی۔

اس وقت بھی کہانی کی دردناک چیخیں پرسکون فضا میں بلند تر ہوتی جا رہی تھیں، اس نے خوابگاہ کا دروازہ کھولا اور چیخوں کی طرف بڑھی، لیکن کہانی نہ جانے کہاں تھی، صرف چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ وہ مکان کی بالائی منزل کی سیڑھیاں اترنے لگی، چند ثانیے نچلی منزل پر چکرانے کے بعد کہانی صحن میں دیوار سے لگی اکڑوں بیٹھی ہوئی، چیختی ہوئی نظر آئی۔ کہانی کے ارد گرد دوسری کہانیاں کپکپاتی ٹانگوں اور فق چہروں کے ساتھ کھڑی تھیں، ان کے چہرے دیکھ کر اسے ہنسی آ گئی کیونکہ ہر کہانی کہتی تھی کہ میں بہادر ہوں لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ ڈرپوک ہیں اور اکثر کپکپاتی ہیں۔

اس وقت بھی اس نے سب کہانیوں کو کتاب کے اندر جانے کے لئے کہا لیکن کہانیاں اس کی بات کہاں مانتی تھیں، وہ کتاب میں بند نہ ہونا چاہتی تھیں، اور اپنی ازلی بزدلی کے ساتھ آزاد رہنا چاہتی تھیں اسلئے اس وقت بھی اس کی بات سنتے ہی کہانیاں کئی منزلہ مکان میں ادھر ادھر بکھر گئیں۔

اس نے متجسس نگاہوں سے نئی کہانی کا جائزہ لیا، وہ نوخیز و خوش شکل تھی اور اب کہانی کا حلق خراش زدہ ہو چکا تھا، چیخیں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھیں۔

اس نے کہانی کو کچھ نہ کہا، پاس بیٹھ گئی اور انتظار کرنے لگی کہ کہانی خود کہے کہ میں کہانی ہوں لیکن کہانی کی آواز ڈوب چکی تھی۔

پانی پیو گی۔ اس نے کہانی سے پوچھا۔

کہانی خاموش رہی۔

اس نے ملازمہ سے پانی لانے کے لئے کہا پھر کہانی کی کلائی تھامنی چاہی لیکن کہانی نے اس کی کوشش ناکام بنا دی، وہ دیوار کی جڑ میں گھسنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

وہ چپ چاپ اس کی کوشش دیکھتی رہی پھر اس کی نظر کہانی کے بازو پر بندھے تعویذ پر پڑی، اس نے تعویذ نوچ لیا اور کھول ڈالا، ایک بوسیدہ سے ورق پر کچھ عجیب سے حروف و نقش تھے۔ اس نے پھاڑنا چاہا، لیکن نہ جانے کیسا ورق تھا کہ پھٹتا نہ تھا، وہ ورق لے کر باورچی خانے میں آئی اور اس کو جلتے چولھے پر رکھ دیا۔ ناگوار سی بو پھیل گئی۔

اس نے ملازمہ کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیا اور دوبارہ کہانی کے پاس پہنچی، اب کہانی بے دم سی فرش پر لیٹی تھی، اس نے کہانی کو سیراب کیا، اس کے بال سنوارے، زبان کا پیراہن دیا اور اپنی جیب سے جھوٹی بہادری کا تعویذ نکال کر اس کے بازو پر باندھ دیا۔