1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. 80ء کی دہائی سے ہمارا مقدر بنی لوڈ شیڈنگ

80ء کی دہائی سے ہمارا مقدر بنی لوڈ شیڈنگ

یادداشت میری اب اتنی توانا نہیں رہی کہ تاریخ اور مہینے صحیح سے بتاپاﺅں۔ سال مگر 1977ء کا تھا، اسلام آباد آئے مجھے دو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا اور اس سال کا موسمِ گرما بہت شدید تھا۔ چھٹی کا کوئی دن تھا۔ سورج سوا نیزے پر تھا اور میرے گھر کی بتی چلی گئی۔ پنکھا بند ہوگیا۔ میں گھبراگیا۔ گرمی سے بے حال ہوا اپنی مصیبت کے بارے میں سوچ رہا تھا تواچانک احساس ہوا کہ اسلام آباد جب سے منتقل ہوا ہوں میرے گھر کی بجلی کبھی بند نہیں ہوئی۔ ہمارے لاہور میں تقریباََ ہر ہفتے ایسا واقعہ ہوجایا کرتا تھا۔ پہلی دفعہ احساس ہوا کہ پاکستان میں ایک ایسا شہر بھی ہے جہاںبتی کبھی نہیں جاتی۔

چونکہ بتی جانے کا کبھی واقعہ ہی نہیں ہوا تھا اس لئے مجھے یہ خبر بھی نہیں تھی کہ واپڈا والوں کا دفتر کہاں ہے۔ بہرحال لوگوں سے پوچھ پوچھ کراس کا پتہ کیا۔ وہاں پہنچا تو ایک اہل کار میری موٹرسائیکل پر سوار ہوکر میرے گھر آیا اور وہاں آئے کنکشن کو دیکھ کر طے کردیا کہ واپڈا کی سپلائی چالو تھی۔ میرے گھر کی وائرنگ میں البتہ کوئی مسئلہ ہوگیا تھا۔ کسی گھر کے اندر ہوئی وائرنگ کو درست کرنا اس کی ذمہ داری نہیں تھی مگر کمال مہربانی سے اس نے وقت نکال کر وہ خامی دور کردی اور مجھ سے ”چائے پانی“ کے لئے کچھ رقم لینے کو بھی تیار نہیں ہوا۔ 1982ء تک میں کرائے کے مختلف گھروں رہتا رہا۔ بجلی کی فراہمی میں ایک لمحے کو بھی تعطل نہیں آیا۔

1983ء کے موسم گرما میں لیکن دن میں دوبار، صبح اور شام، تواتر کے ساتھ بتی غائب ہونا شروع ہوگئی۔ میرے اخبار کے دفتر میں بھی پوٹھوہار اور خیبرپختون خواہ کے کئی شہروں اور قصبوں سے فون کالوں کے ذریعے لوگ بجلی کے غائب ہونے کی شکایات کرنا شروع ہوگئے۔ تھوڑا جرنلزم کیا تو معلوم ہوا کہ ملک میں بجلی کی طلب اور پیداوار میں کافی تفاوت پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اس کا تدارک فی الحال ممکن نہیں۔ ”لوڈشیڈنگ“ نامی ایک طریقے کے ذریعے کمی کو Manage کیا جارہا ہے۔

وہ سال بھی کئی حوالوں سے ہمارے ملک کے ”اچھے دنوں“ کا حصہ تھا۔ ایک بہت ہی نمازی اور پرہیز گار شخص جنرل ضیاءالحق ہمارا بااختیار صدر تھا۔ وہ کمیونسٹ روس نام کی سپرطاقت کو افغان جہاد کی سرپرستی فرماتے ہوئے للکار رہا تھا۔ اخبارات میں ”پری سنسرشپ“ کی مہربانی سے صرف ”مثبت“ خبریں چھپا کرتی تھیں۔ ضیاءالحق جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے گیا تو اپنی تقریر سے قبل اس نے پاکستان ٹیلی وژن کے اسٹوڈیوز میں ریکارڈ ہوئی تلاوت کلام پاک چلوائی۔ اس کے بیک گراﺅنڈ میں کیمرہ نیویارک میں موجود اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہال میں موجود افراد پر گھمایا گیا۔ ناظرین کو یہ محسوس ہوا کہ دُنیا بھر سے اس ہال میں جمع ہوئے کئی سربراہانِ مملکت وحکومت انتہائی احترام سے تلاوت پاک سن رہے تھے۔ جنرل ضیاءالحق نے ”تاریخ“ بنادی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ساراواقعہ نفسیاتی جنگ کے ماہر مانے جنرل مجیب الرحمن، جو ضیاءکے سیکرٹری اطلاعات ہوا کرتے تھے، کی دونمبری مہارت کا نتیجہ تھا۔ پری سنسرشپ کی برکتوں سے حقائق تک رسائی کا حق نہ رکھنے والی ہماری قوم مگر بہت فخر سے یہ سوچ کر سینہ پھلاتی رہی کہ ”ہمارے“ جنرل ضیاءنے ”تاریخ میں پہلی بار“ اقوام متحدہ میں کسی سربراہِ مملکت کی جانب سے ہوئی تقریر کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا ہے۔

”ایمان کی دولت سے مالامال“ اسی دور میں بہت ہی اہم عہدوں پر فائز کئی سول اور عسکری افسروں نے سرگوشیوں میں مجھے کئی بار یہ بھی سمجھانا چاہا کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار اس کی طلب سے اب بھی کہیں زیادہ تھی۔ جنرل ضیاءالحق کی حکومت مگر جان بوجھ کر لوڈشیڈنگ متعارف کرواتے ہوئے لوگوں کو احتجاج پر مجبور کررہی تھی۔ اپنے ہی لوگوں کو دانستہ طورپر تکلیف پہنچا کر درحقیقت پاکستان میں مقیم امریکی سفارت کاروں کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اس ملک میں ویسے تو دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں مگر بجلی کا بحران شدید تر ہورہا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے ”پُرامن ایٹمی پروگرام“ میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں تاکہ اس پروگرام کو جلد از جلد مکمل کرنے کے بعد افغان جہاد کے ذریعے روس کو گھیرے میں لینے والی ”امریکہ کی دوست“ حکومتِ پاکستان اپنے لوگوں کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی سے مطمئن رکھ سکے۔

بدقسمتی سے امریکہ ہماری مشکل کو سمجھ نہ پایا۔ اس بدبخت نے بلکہ جنرل ضیاءکو اس امر پر بھی مجبور کیا کہ وہ کسی نہ کسی صورت کوئی انتخابی عمل متعارف کروائے۔ 1985ء میں وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ”غیر جماعتی بنیادوں“ پر عام انتخابات ہوئے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آئیں۔ جنرل ضیاءنے وعدہ کیا کہ وہ نومنتخب لوگوں کو ”اقتدار میں (تھوڑی بہت) شراکت“ دے گا۔

1985ء کے انتخابات کا پیرگاڑا جیسے محب وطن اور جماعت اسلامی کے صالحین کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے احتجاجاََ بائیکاٹ کیا تھا۔ جو لوگ اسمبلیوں میں آئے انہیں عوامی سوچ کا ”غدار“ تصور کیا گیا۔ ان کا وقار بحال کرنے کے لئے ورلڈ بینک نے اپنے ایک بہت ہی چہیتے ”ماہر معیشت“ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم کو گرانقدر گرانٹ دی۔ سستی شرائط پر قرضہ۔ اس قرضے سے ملی رقوم کو ”عوام کے منتخب نمائندوں“ کے ذریعے ان کے حلقوں میں ”ترقیاتی اسکیموں“ پرخرچ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ”ترقیاتی اسکیموں“ میں سکولوں اور سڑکوں سے بھی کہیں زیادہ ہر رکنِ اسمبلی اپنے علاقے میں بجلی اور سوئی گیس کی فراہمی کے لئے اصرار کرتا۔ بجلی کی مجموعی پیداوار اگرچہ اس ملک میں اسی مقام پر رکی ہوئی تھی جہاں 1980ء کے آغاز میں تھی۔ ”گاﺅں گاﺅں“ بجلی تو پہنچنا شروع ہوگئی مگر ملک بھر کے شہروں اور قصبات میں لوڈشیڈنگ کے اوقات دن میں کئی گھنٹوں تک پھیلنا شروع ہوگئے۔

مسلسل بڑھتی لوڈشیڈنگ سے تنگ آکر جب گلی محلوں میں احتجاج کے سلسلے شروع ہوئے تو ہمیں بتایا گیا کہ میانوالی کے قریب ایک مقام ہوتا ہے کالاباغ۔ دریائے سندھ اس مقام پر بہت بلندی سے انتہائی شور کے ساتھ میدان میں گرتا ہے۔ وہاں ایک ڈیم بنایا جائے تو آنے والی کئی دہائیوں تک نہ صرف بجلی بلکہ پانی کی وافر مقدار بھی اجتماعی قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے میسر ہوجائے گی۔

جنرل ضیاءہی کے لگائے مگر ان دنوں کے صوبہ سرحد میں ایک طاقت ور گورنر ہوا کرتے تھے۔ جنرل فضل حق ان کا اسم ِگرامی تھا۔ انہوں نے دہائی مچادی کہ کالاباغ پر بنا ڈیم ایک دن نوشہرہ کو ڈبونے کا باعث بن جائے گا۔ اس دعوے کی ”تصدیق“ کرنے والی دستاویزات عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں تک نجانے کیسے پہنچ گئیں۔ نوشہرہ اور چارسدہ سے شور اُٹھا تو سندھ والوں نے بھی اس خوف کا اظہار کرنا شروع کردیا کہ کالاباغ پر ایک ڈیم بناکر پنجاب سندھ کے حصے میں آنے والے پانی پر ”قبضہ“ کرنا چاہتا ہے۔ قومی اسمبلی میں ہر دوسرے ہفتے ان دنوں کے صوبہ سرحد اور سندھ سے منتخب ہوئے اراکین، کالاباغ ڈیم کے خلاف دھواں دھار تقاریر کرنے کے بعد اجلاس سے واک آﺅٹ کرجاتے۔ انہیں اس بات کا یقین دلاکر ایوان میں واپس لایا جاتا کہ کالاباغ ڈیم صرف ”قومی اتفاق رائے“ کے بعد ہی بنایا جائے گا۔

جنرل ضیاءنے نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک کرنا تھا۔ افغان جہاد، سنٹرل ایشیاءکے مسلمانوں کے ساتھ بالآخر باہم ہوجانے کے عمل کا پہلا مرحلہ تھا۔ پاکستان تو ویسے ہی ”اسلامی ملک“ تھا۔ اس ملک میں لیکن کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لئے ”قومی اتفاق رائے“ پیدا نہ ہوسکا۔ جنرل ضیاءجیسا مردِ مجاہد جو کام نہ کرپایا اسے ”باریاں“ لینے والے نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کیسے پایہ تکمیل تک پہنچاتے۔ اکتوبر 1999ء میں لیکن ایک اور انقلاب کے ذریعے پاکستان کو دوبارہ ”اچھے دنوں“ سے روشناس کروانے کے لئے ایک اور دیدہ ور مردِ آہن جنرل پرویزمشرف کی صورت نمودار ہواتو وہ بھی اس ضمن میں کچھ نہیں کرپایا۔

لوڈشیڈنگ قصہ مختصر 80ء کی دہائی سے ہمارا مقدر ہوچکی ہے۔ اس سے نجات پانے کے لئے جو قومی Will درکار ہے وہ ہرگز میسر نہیں۔ زمانہ تو اب ویسے بھی Renewable Energy کا ہے۔ شمسی توانائی اور Wind Power اس ضمن میں کلید سمجھے جارہے ہیں۔ ہم مگر چین کی مہربانی سے دھڑادھڑ کوئلے سے بجلی بنانے کی دھن میں مبتلا ہیں۔ تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر بجلی پیدا کرنے والے کسی میگاپراجیکٹ کا دھوم دھام سے افتتاح ہوتا ہے۔ متوقع بجلی کو نیشنل گرڈ میں لاکر میرے اور آپ کے گھر تک کیسے پہنچانا ہے؟ اس سوال کا جواب البتہ کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔