1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ابھی مسلم لیگ کے اندر ’’بہت ہو گیا‘‘ کہنے کو کوئی تیار نہیں

ابھی مسلم لیگ کے اندر ’’بہت ہو گیا‘‘ کہنے کو کوئی تیار نہیں

پانامہ کا قضیہ کئی روز سے اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے روبرو ہے۔ اُمید کی جارہی ہے کہ جمعرات کے دن فریقین کے وکلاء اپنے دلائل مکمل کرلیں گے۔ شاید اس کے بعد عزت مآب ججوں کو متفقہ طورپر کوئی فیصلہ لکھنے کے لئے کچھ وقت درکارہوگا۔ وہ کتنے دن لے گا؟ میں اس ضمن میں قیاس آرائی کی جرأت نہیں رکھتا۔ توہینِ عدالت کے قانون سے ضرورت سے زیادہ خوف آتا ہے۔ اپنے اس خوف کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان ساتھیوں پر رشک آتا ہے جو ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے سپریم کورٹ کو حتمی فیصلے لکھنے کے لئے اضافی مواد فراہم کرتے یا اس کی ’’رہ نمائی‘‘ فرماتے نظر آتے ہیں۔

میرے ان ساتھیوں کی بدعنوانی کے خلاف جنگ،پانامہ معاملے پر کی گئی تحقیق اور قانون کو سب کے لئے برابر دکھانے کے نصب العین سے لگن کی بدولت سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنا ذہن بنالیا ہے یا نہیں،اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ بات البتہ طے ہے کہ اسلام آباد کے ہر اس گھر میں،جہاں حاضر وریٹائرڈ فوجی اور سول افسر،کامیاب کاروباری افراد اور نامور صحافیوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں،’’فیصلہ‘‘ سنایا جاچکا ہے۔ کاش میں اس ’’فیصلے‘‘ کی تفصیلات بیان کرسکتا۔محتاط الفاظ میں صرف یہ رپورٹ کرسکتا ہوں کہ نواز شریف کے لئے اس ’’فیصلے‘‘ میں خیر کی کوئی خبر نہیں ہے۔

رات کے کھانے کی خاطر سجائی محفلوں میں ان دنوں بحث صرف اس سوال کے بارے میں ہورہی ہے کہ نواز شرف کو واضح الفا ظ میں ’’صادق و امین‘‘کے لئے آئین میں طے شدہ معیار کے مطابق عمل کرتے دیکھا جائے گا یا نہیں۔ وہ ’’صادق وامین‘‘ نظر نہ آئے تو شاید قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دینے کے لئے قائم ہوئے فورم اور پراسیس کا سامنا کرنے سے قبل ہی اخلاقی طورپر استعفیٰ دینے کو مجبور ہوجائیں۔

نواز شر یف کی ’’صداقت‘‘ اور ’’امانت‘‘ کے بارے میں اٹھائے سوال کو سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے نے کسی نہ کسی صورت نظرانداز کردیا تو شاید اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے کوئی اور راستہ دکھایاجائے گا۔اسلام آباد کے باخبر اور طاقت ور لوگوں کااصرار ہے کہ اس راستے کا ’’نقشہ‘‘ اس ’’اعترافی بیان‘‘ میں موجود ہے جو جنرل مشرف کے دورِ اقتدار کے ابتدائی ایام میں اسحاق ڈار صاحب نے مبینہ طورپر اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ اس اعترافی بیان کو ہائی کورٹ کے روبرو رکھا گیا تو ڈار صاحب نے اسے ’’جبراََ‘‘ لکھوایا بیان کہا۔ ہائی کورٹ نے ان کے دعویٰ کو تسلیم کرلیا۔ نیب کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔اس نے اجتناب برتا۔ کیوں؟یہ جاننے کے لئے سپریم کورٹ منگل کے روز نیب چیئرمین کو سخت سوالات کے ساتھ تہاڑتی رہی۔

چیئرمین نیب کی منگل کے دن بنی درگت نے تحریک انصاف کے سربراہ اور دیگر رہ نمائوں کو شاد کردیا ہے۔نعیم الحق صاحب کو یقین ہوگیا ہے کہ چیئرمین نیب نے ’’خود توڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘والا رویہ اختیار کرتے ہوئے نواز شریف کی لٹیا ڈبودی ہے۔میرے بھائی فواد چودھری اسی لئے اب Government in Waiting کے ترجمان کی طرح گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔

اپنی جان کی امان پاتے ہوئے میں ایک بار پھر یہ بات دہرانے پر مجبور ہوں کہ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ سپریم کورٹ پانامہ کے بارے میں کیا فیصلہ سنائے گا۔محتاط ترین زبان میں صرف وہ رپورٹ کرنے کی کوشش کی ہے جو ان دنوں اسلام آباد کے باخبر اور طاقت ور رہائشی بظاہر اپنے تئیں طے کرچکے ہیں اور جس کی بازگشت ہمیشہ گزشتہ کئی روز سے شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک رچائے ٹی وی ٹاک شوز میں مسلسل سننے کو مل رہی ہے۔

میں نواز شریف کے گزشتہ ادوار حکومت کے دنوں میں ایک بہت ہی متحرک رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ان کے پہلے دور حکومت میں شاید وہ پہلا رپورٹر تھا جس نے کھل کر یہ لکھنا شر وع کردیا تھا کہ ان دنوں کے بااختیار صدر-غلام اسحاق خان-کو لاہور سے آئے نوجوان صنعت کار کی ’’پھرتیاں‘‘ پسند نہیں آرہیں۔ میرے اس دعوے کو نواز شریف کے حامیوں نے بہت رعونت کے ساتھ رد کیا تھا۔ ان دنوں انٹیلی جنس بیورو اور وزارتِ اطلاعات پر قابض افسران نے مجھے ’’سازشی کہانیاں‘‘ لکھنے کا مرتکب ٹھہرا کر مختلف النوع اذیتوں سے نبردآزما ہونے کے مواقع بھی فراہم کئے۔ میری بات مگر بالآخر درست ثابت ہوئی تو اس وقت جب نواز شریف کی مسلم لیگ ہی میں سے میاں زاہد سرفراز نے علم بغاوت بلند کردیا۔ بعدازاں مرحوم محمد خان جونیجو متحرک ہوئے اور انہوں نے حامد ناصر چٹھہ کو نواز شریف کے ممکنہ متبادل کے طورپر پیش کرنا شروع کردیا۔

1997ء میں دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے چند ہی دنوں بعد نواز شریف نے صدر سے وزیر اعظم کو بر خواست کرنے والے اختیارات چھین لئے تھے۔ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے انہیں نکیل ڈالنا چاہی تو ’’برادر ججوں‘‘ نے ان کے خلاف بغاوت کردی۔ بعدازاں جنرل جہانگیر کرامت بھی آرمی چیف کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ ان تمام واقعات کے بعد یہ طے کرلیا گیا تھا کہ نواز شریف اپنی معیادِ عہدہ ہر صورت مکمل کریں گے۔ مجھے لیکن یہ دعویٰ کھوکھلا محسوس ہوتا رہا۔کارگل ہوگیا۔نواز شریف کی اصل کمزوری اگرچہ اس وقت آشکار ہوئی جب ان کے متعارف کردہ ’’شریعت بل‘‘ کے خلاف خورشید قصوری نے بغاوت کردی۔

ماضی کے ان تجربات کی روشنی میں نواز شریف کا ’’جانا ٹھہرگیا‘‘ ہے میں صرف اس وقت ہوتا محسوس کرسکتا ہوں جب پاکستان مسلم لیگ نواز کی صفوں سے کوئی قدآور شخص برملا یہ کہنے کو تیار ہوجائے کہ ’’بہت ہوگیا۔ ہم شریف خاندان کے ذاتی اور کاروباری مفادات کی وجہ سے اُٹھی مصیبت کو برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں‘‘۔

سپریم کورٹ کے روبرو اور اس کے احاطے میں جو بھی ہوتا رہے،وزیر اعظم کی قوت پر براہِ راست اثرانداز نہیں ہوتا۔ٹی وی سکرینوں پر مسلسل سیاپا فروشی کے باوجود آصف علی زرداری نے بھی ایوانِ صدر میں اپنے پانچ سال مکمل کئے تھے۔ قومی اسمبلی بھی 2008ء سے 2013 تک کام کرتی رہی۔اگرچہ اس کے ’’قائدِ ایوان‘‘-یوسف رضا گیلانی-کو ایک چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا تھا۔

ایک منتخب حکومت اور وزیر اعظم اپنی قوت بنیادی طورپر قومی اسمبلی سے حاصل کرتا ہے۔ جو لوگ کڑے انتخابی مقابلوں کے بعد اس ایوان میں آتے ہیں وہ بہت خود غرض ہوتے ہیں۔ کسی وزیر اعظم کی ذات سے مخلص نہیں ہوتے۔ وہ صرف یہ سوچتے ہیں کہ عام انتخابات کے آئندہ مرحلے میں کسی رہ نما کی ذات سے وفادار نظر آنا ان کے لئے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ صرف اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے گزشتہ دس دنوں میں ایک متجسس رپورٹر کی طرح قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نون کی نشستوں پر خاموش اور غیر نمایاں حیثیت میں براجماں چند لوگوں سے طویل ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کی اکثریت نواز شریف کے ’’متکبرانہ رویے‘‘ کی شاکی ہے۔ نواز شریف سے زیادہ انہیں شہباز شریف کی ’’گڈگورننس‘‘ پر بھی ہزاروںاعتراضات ہیں۔ان سب کے ہوتے ہوئے بھی میرے بارہا کریدنے کے باوجود ان میں سے ایک شخص بھی یہ کہنے کو تیار نہیں ہوا کہ’’بہت ہوگیا۔میں شریف خاندان کے ذاتی اور کاروباری مفادات کی بدولت اُٹھی مصیبت کو اپنی ذات پر کیوں بھگتوں‘‘۔

پانامہ کی وجہ سے اگر نواز شریف کا جانا ٹھہرگیا ہوتا توایسی آوازیں گزشتہ بجٹ اجلاس کے دوران ہی اُٹھنا شروع ہوجانا چاہیے تھیں۔ایسا نہ بھی ہوسکا تو سپریم کورٹ میں پانامہ کا مسئلہ شروع ہوجانے اور اس کی بدولت ٹی وی سکرینوں پر برپا شور نے وہ ماحول ضرور بنادیا تھاجو پاکستان مسلم لیگ کی صفوں میں سے ’’باغیوں‘‘ کو اپنے پتے شو کرنے پر مجبور کردیتا۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ ’’فیصلہ‘‘ جو اسلام آباد کے باخبر اور طاقت ور رہائشی تقریباََ متفقہ طورپر لکھ بیٹھے ہیں ابھی تک پاکستان مسلم لیگ نون میں بیٹھے دھڑے باز اور ڈیرے دار چودھریوں تک کیوں نہیں پہنچا ہے۔ کیا انہوں نے آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لینا؟!!