1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. اللہ کرے کہ 2 نومبر کی شام تک انقلاب آہی جائے

اللہ کرے کہ 2 نومبر کی شام تک انقلاب آہی جائے

کل بھوشن نام کا کوئی بھارتی جاسوس ہماری فرض شناس اور ہمہ وقت مستعد ایجنسیوں نے کئی دنوں سے پکڑ رکھا ہے۔ غالباً اس نے وہ تمام تفصیلات بھی ہمارے تفتیش کاروں کو فراہم کردی ہیں جن کے ذریعے ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر یہ معلوم کرلیا گیا ہے کہ ہمارا ازلی دشمن کونسے ہتھکنڈے اور ایجنٹ استعمال کرتے ہوئے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کروانا چاہ رہا ہے۔

ایسے اہم جاسوس کی گرفتاری کے بعد مگر کوئٹہ میں وہ کچھ تو نہیں ہونا چاہیے تھا جو پیر کی رات دیکھنے کو ملا۔ بلوچستان کے چھوٹے اور پسماندہ قصبوں سے آئے 61 کے قریب نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسے نوجوانوں کو باعزت نوکریاں دے کر ہم ان قصبوں میں کئی دہائیوں سے اُبلتے احساس محرومی کا ازالہ کرنا چاہ رہے تھے۔ اب ان نوجوانوں کے گھروں میں ماتمی صفیں بچھی ہوں گی۔ ان کے پیاروں کے غم وغصے سے بے بس ہوئے ذہنوں میں صرف ایک سوال اُبل رہا ہوگا اور وہ یہ کہ ریاست شہریوں کے دفاع کے لئے تیار ہوتے ان کے بچوں کا دفاع کیوں نہیں کر پائی۔ حملہ آور کون تھے؟ انہیں اس ظالمانہ کارروائی پر کس نے اُکسایا۔ ان کی تربیت کہاں ہوئی۔ وہ کوئٹہ سے چند ہی کلومیٹر دور موجود پولیس ٹریننگ سینٹر میں کیسے داخل ہوئے۔ ان پر قابو پانے میں اتنی دیر کیوں لگی۔ پولیس ٹریننگ سینٹر کے سانحے میں 61 نوجوانوں کی شہادت نے دردِ دل رکھنے والے پاکستانیوں کی اکثریت کو حواس باختہ بناڈالا ہے۔ ہمارے حوصلے کو صرف حقائق بیان کرتے ہوئے ہی بحال کیا جاسکتا ہے۔ حقائق کو ٹھوس صورت میں بیان کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مکمل تفصیلات میسر ہوں۔ کچھ ذمہ داروں کی نشان دہی ہو۔ انہیں عبرت ناک سزائیں دینے کا بندوبست ہو۔ یہ فریضہ ہماری ریاست نے سرانجام دینا مگر عرصے سے چھوڑ رکھا ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ نے جبلی طورپر خود کو کبھی جوابدہ سمجھا ہی نہیں۔سمجھے بھی کیوں؟ ذلتوں کی عادی’’رعایا‘‘ حکمرانوں کے روبروسوال اٹھایا نہیں کرتی۔ سوال صرف ’’شہری‘‘ اٹھایا کرتے ہیں جن کے چند حقوق اور کچھ فرائض ہوتے ہیں۔

دھونس اور لالچ سے غلام بنائے ذہنوں میں سوالات اٹھانے کی سکت کو قطعی طورپر ختم کرنے کے باوجود ہماری اشرافیہ کے چند لوگ انتہائی سفاکانہ انداز میں اپنے تئیں پیر کی رات کوئٹہ سے چند ہی کلومیٹر دور قائم پولیس ٹریننگ سینٹر میں شہید ہوئے نوجوانوں کی ہلاکت کا معمہ حل کرچکے ہیں۔ ہمیں تواتر کے ساتھ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر اور اس صدی میں جنوبی ایشیاء کے سب سے کھرے،بلند آہنگ اور انقلابی رہ نما کی وساطت سے بتایا جارہا ہے کہ سانحہ کوئٹہ جیسے واقعات اس لئے ہورہے ہیں کیونکہ اس ملک کا تیسری بار وزیر اعظم بنا نواز شریف ’’مودی کا یار‘‘ ہے۔ وہ ’’سکیورٹی رسک‘‘ بن چکا ہے۔ ڈرپوک اتنا ہے کہ کل بھوشن کا نام تک لینے کی جرأت نہیں دکھاتا۔ کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد سے نواز شریف اٹھتے بیٹھتے،غیر ملکی وفود سے ملتے،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران کل بھوشن-کل بھوشن کی گردان فرمارہے ہوتے تو بھارتی اپنی گھنائونی سازشوں سے باز آجاتے۔ دُنیا کے سامنے بے نقاب ہوئے اپنے سرکو جھکائے’’بندے کے پُتر‘‘ بننے کی یقین دہائی کروارہے ہوتے۔

نواز شریف کی نفرت میں جائز یا ناجائز وجوہات کی بنا پر اندھے ہوئے حب الوطن انقلابیوں کو اطلاع میں نے صرف یہ دینا ہے کہ بھارت کے پاکستان کے بارے میں ناپاک عزائم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لئے ہمیں ان اعترافی بیانات کی اب خاص ضرورت نہیں رہی جن میں کل بھوشن نے اپنی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کا اہم ترین کارندہ ہوگا۔ اس کی گرفتاری بڑا اہم واقعہ ہے۔ یہ سوال اس کے باوجود مگر اپنی جگہ موجود ہے کہ اس کی گرفتاری اور تفتیش کے بعد ٹھوس معلومات حاصل کرنے کے اتنے دن گزرجانے کے بعد بھی ہماری ریاست ایسے واقعات روکنے میں ناکام کیوں ثابت ہورہی ہے جو پیر کی رات کوئٹہ سے چند ہی کلومیٹر دور قائم پولیس ٹریننگ سینٹر میں ہمارے دل ہلادینے کا باعث بنے؟

بھارت کے پاکستان کے خلاف عزائم بہت مکروہ ہیں۔ ان عزائم کو دنیا کے روبرو لانے کے لئے کل بھوشن کی گرفتاری کا تذکرہ شاید اب اتنا ضروری بھی نہیں رہا۔چند ہی ہفتے قبل 15 اگست 2016ء کی صبح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے راجپوت سورمائوں والی پگڑی پہن کر دہلی کے تاریخی لال قلعہ کی چھت پر کھڑے ہوکر ایک تقریر جھاڑی تھی۔ اس تقریرمیں بھارتی وزیر اعظم نے واضح الفاظ میں بلوچستان،آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو ’’آزاد‘‘کروانے کی بڑھک لگائی تھی۔اس تقریر کے بعد تو دنیا خوب جان چکی ہوگی کہ بھارت کے پاکستان کے بارے میں اصل ارادے کیا ہیں۔

ان ارادوں کو ناکام بنانا مگر دنیا کی نہیں ہماری ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سوال بنیادی پھر وہی ہے کہ کیا ہماری ریاست یہ ذمہ داری پوری تن دہی سے نبھارہی ہے؟ نظر بظاہر سکیورٹی کے معاملات میں کئی کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں۔ ان کوتاہیوں کی نشان دہی ہونا چاہیے۔ کوتاہیوں کی سزا نہ دی جاسکے تو کم از کم ان کا اعتراف کرنا تو ضروری ہے۔

کوئٹہ سے چند ہی کلومیٹر دور قائم ایک پولیس ٹریننگ سینٹر میں پیر کی رات کو ہوئی وحشت خیز واردات سے جڑے بنیادی سوالات مگر ہم اٹھا ہی نہیں رہے۔ قائل تو ہمیں بلکہ اس بات پر کیا جارہا ہے کہ اس واردات کا اصل مقصد 2 نومبر کو آنے والے اس انقلاب کو روکنا ہے جو عمران خان نے اسلام آباد کی تالہ بندی کے ذریعے برپا کرنا ہے۔ حکومت میں بیٹھے ’’مودی کے یار‘‘ کو بچانے کی ایک اور گھنائونی کوشش ہوئی ہے۔ اس کوشش کے مرتکب افراد کی نشان دہی اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے سے زیادہ اہم مقصد اب ’’سکیورٹی رسک‘‘ کو حکومت سے باہر نکال کر سڑکوں پر گھسیٹنا بن گیا ہے۔ اللہ کرے کہ 2 نومبر 2016ء کی شام تک انقلاب آہی جائے تاکہ ہمیں پیر کی رات ہوئے سانحے جیسے مزید صدمے نہ سہنا پڑیں۔