1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. امریکی صحافی او ر ہمارا میڈیا

امریکی صحافی او ر ہمارا میڈیا

امریکی میڈیا ہم سے کہیں زیادہ تجربہ کار اور وسائل سے مالامال ہے۔ وہاں کے صحافیوں کی معاونت کے لئے نام نہاد DATA اکٹھا کرنے اور سروے وغیرہ کے ذریعے جمع ہوئے حقائق کا تجزیہ کرنے والے بے شمار ادارے بھی موجود ہیں۔ یہ وسائل اور تجربہ مگر کسی کام نہیں آیا تقریباََ تمام مستند صحافتی اداروں نے باہم مل کر فیصلہ سنا دیا کہ چاہے ایک کٹھن مقابلے کے ذریعے ہی سہی، ہیلری کلنٹن بالآخر امریکہ کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوجائے گی 8 نومبر 2016ء کی رات مگر جب نتائج آنا شروع ہوئے تو یہ صحافی اپنا سرپکڑ کر بیٹھ گئے۔ ڈونلڈٹرمپ حیران کن اکثریت کے ساتھ جیت گیا۔

امریکی صحافت کی دیانت داری کو مگر تسلیم کرنا پڑتا ہے کیونکہ کوئی ایک امریکی صحافی بھی مجھے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں مبتلا نظر نہیں آرہا کہ کسی نہ کسی نوعیت کی دھاندلی کے ذریعے ٹرمپ نے اسے شرمندہ کردیا بڑے کھلے دل کے ساتھ اعتراف کیا جارہا ہے کہ امریکی صحافیوں کی اکثریت زمینی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ اب سوال یہ اٹھائے جارہے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا اور حالیہ امریکی انتخاب کی بدولت عیاں ہوئیں کمزوریوں پر قابو کیسے پایا جائے اپنے تئیں عقلِ کل بنے ہم پاکستانی صحافی البتہ اپنے گریباں میں جھانکنے کو ہرگز تیار نہیں۔

24/7 چینلز ہمارے ہاں 2002ء میں متعارف ہوئے تھے۔ قومی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہوئے کئی حضرات بہت دُکھ کے ساتھ گلہ کرتے ہیں کہ کمزوری کے کسی مرحلے میں جنرل مشرف نے اس ملک میں ’’مادر پدر آزاد میڈیا‘‘ متعارف کروادیا اسے ’’راہِ راست‘‘ پر رکھنا ناممکن ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ صحافت کی ’’مادر پدر آزادی‘‘ کے بارے میں فکر مند ہوئے افراد کو احساس ہی نہیں کہ چند ایجادات سے مفر اس دور میں ممکن ہی نہیں رہا۔ سمارٹ فونز دُنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں کئی ’’چٹے‘‘ اَن پڑھ افراد بھی ان کی بدولت Viber اورWhatsapp کے ذریعے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ کسی تقریب کی وڈیو بناکر اسے اپ لوڈ کرنے کی ترکیب سے خوب واقف ہیں ٹویٹر نے آپ کو دل میں آئی کوئی بھی بات طشت ازبام کرنے کا حیران کن اختیار فراہم کردیا ہے۔ ایران، چین اور شمالی کوریا دُنیا کے ان چند ممالک میں سے ہیں جو ذرائع ابلاغ کے جدید Tools کی دسترس سے اپنے شہریوں کو بچانے کے لئے Fire Walls کھڑی کرتے رہتے ہیں ان Walls کو مسمار کرنے کے لیکن بے تحاشہ آلات بھی فی الفور مہیا ہوجاتے ہیں۔

دُنیا بھر کی کائیاں اشرافیہ لہذا اس امر کو ترجیح دے رہی ہے کہ بجائے ذرائع ابلاغ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا نام نہاد’’قومی بیانیہ‘‘ خود گھڑے اسے انٹرنیٹ کے ذریعے میسر ہوئے تمام وسائل کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے اس انداز میں پھیلادے کہ صرف اس کا بتایا ’’سچ‘‘ ہی مکمل سچ نظر آئے رہی بات ریگولر میڈیا کی تو ہماری ٹی وی سکرینوں پر اب ایسے چہروں کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے جو بول رہے ہوں تو ’’منصور کی صورت میں خدا بول رہا ہے‘‘ کا گماں ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کا اپنے تئیں بڑے سے بڑا پھنے خان بنا اینکر بھی خوب جانتا ہے کہ اس کی ’’حق گوئی‘‘ کی حد کہاں ختم ہوجاتی ہے۔ No Go Areas جان لئے گئے ہیں کوئی اینکر ان کی پہچان نہ کرپائے تو اس کا چینل کیبل پر نظر آنا بند ہوجاتا ہے مالکان کو ’’پسوڑی‘‘ پڑجاتی ہے معافی تلافی کے راستے ڈھونڈنا پڑتے ہیں۔

پرنٹ سے الیکٹرنک میڈیا میں آئے مجھ ایسے اینکر خواتین وحضرات کی اکثریت کو گمان تھا کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران افتخار چودھری کے جلوسوں کی Live Coverage کے ذریعے جنرل مشرف کی طاقت ور حکومت کو کمزور ہم نے کیا۔ 3 نومبر 2007ء کی شب’’ایمرجنسی پلس‘‘ لگاکر مشرف نے مگر ہمارا مکو ٹھپ دیا تھا۔ افتخار چودھری اور اس کے حامی جج اور وکلاء اپنے گھروں میں نظر بند کردئیے گئے۔ کئی چینلوں کو آف ایئرکردیا گیا۔ ان کی جگہ لینے کے لئے نئے چینلز متعارف ہوئے۔ بند ہوئے چینلوں نے بھی بالآخر کچھ ’’تخریب کاروں‘‘ کو اپنی سکرینوں سے دور رکھ کر بحال ہونے کے بعد 2008ء کے انتخابی سیزن میں اپنا منافع کمایا وقت یونہی گزرجاتا تو لوگ مجھ ایسے کئی ’’جی دار اور حق گو‘‘ اینکر خواتین وحضرات کو بھول بھال جاتے۔ افتخار چودھری کی بحالی والی تحریک بھی ذہنوں سے محو ہوجاتی۔

2008ء کے انتخابی نتائج آنے کے فوراََ بعد مگر آصف علی زرداری نام کے ایک سیاستدان نے اینکروں کی بندش کے بارے میں دہائی مچانا شروع کردی۔ یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی نے وزیر اعظم منتخب کیا تو اپنے عہدے کا حلف لینے سے پہلے ہی انہوں نے گرفتار ججوں اور وکلاء کی رہائی کا حکم صادر فرمادیا۔ چیف کے’’بے شمار‘‘ جاں نثار ایک بار پھر نعرے لگاتے کھمبیوں کی صورت نمودار ہونا شروع ہوگئے۔

ارسلان کے ابو بالآخر اپنے عہدے پر بحال ہوگئے تو پیپلزپارٹی کی حکومت کو’’تاریخ پرتاریخ‘‘کے ذریعے مفلوج بناکر رکھ دیا گیا۔ حق وصداقت کے علمبردار صحافی بھی آزاد عدلیہ کی جانب سے ’’نااہل اور بدعنوان‘‘ سیاست دانوں کے خلاف دل وجان سے جہاد میں مصروف ہوگئے۔ ہمیں یہ گماں رہا کہ مشرف کے بعد ہم پیپلزپارٹی کی حکومت کو بھی گھر جانے پر مجبور کردیں گے۔

تلخ حقیقت مگر یہ رہی کہ گیلانی کی قربانی کے بعد بھی اس حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی۔ اس آئینی مدت کا ’’میموگیٹ‘‘ بھی کچھ نہ بگاڑ پایا حالانکہ اس سکینڈل کو قابلِ اعتبار بنانے کے لئے اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے عدالت میں حلفیہ بیانات بھی داخل کئے تھے۔ نواز شریف اس کیس کے کالاکوٹ پہن کر مدعی بنے ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کا حکومت میں اپنی 5 سالہ آئینی مدت ٹی وی اینکروں کی بدولت24/7 سیاپے کے باوجود مکمل کرنا ایک ایسا واقعہ تھا جسے ہم صحافیوں کو آج کے امریکی صحافیوں کی اکثریت کی طرح اپنی Limits اور کمزوریوں کو جان لینے کے لئے استعمال کرنا چاہیے تھا۔ ایسا مگر ہرگز نہیں ہوا۔ ان دنوں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم کے دفتر میں براجمان ہیں۔ 2014ء کی اگست سے آج تک پاکستانی صحافیوں کی اکثریت انہیں گھر بھیج رہی ہے۔ موصوف مگر اپنی جگہ قائم ہیں معاملہ بالآخر ایک بارپھرسپریم کورٹ کے روبرو ہے پانامہ دستاویزات، لندن کے فلیٹس، منی لانڈرنگ، حلف نامے ان سب کے ساتھ ہی ساتھ One Page پر نہ ہونے والی کہانیاں بھی ہیں۔ ’’مودی کا یار‘‘ والے الزام کی تکرار بھی اور کلبھوشن کے معاملے پر وزیر اعظم کی ’’مجرمانہ خاموشی‘‘۔ دہائی ہی دہائی۔ ہمارا کام ہوتا مگر نظر نہیں آرہا۔

پیشہ صحافت کے ساتھ اپنے بے پناہ عشق کی وجہ سے کم از کم میں یہ سوچنے پر مجبور ہورہا ہوں کہ مجھ ایسے خود کو جغادری سمجھتے صحافیوں کی تمام تر دہائی کسی منطقی انجام کی طرف کیوں نہیں لے جا رہی ہے۔ میرا لکھا اوربولا ہوا لفظ اپنی قدر، وقار اور ساکھ کیوں کھو بیٹھا ہے ان سوالوں کا جواب میرے ساتھ مل کر ڈھونڈنے کو لیکن کوئی ساتھی تیار نہیں ہو رہا۔ خوف آرہا ہے کہ کہیں لوگ مجھے دیکھتے ہی ’’پاگل ای اوئے‘‘نہ پکارنا شروع ہوجائیں۔