1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. بات وہاں ختم نہیں ہو گی

بات وہاں ختم نہیں ہو گی

”دھماکہ خیز آئینی ترمیم کے تذکرے“ کے عنوان سے گزشتہ ہفتے 16 فروری کی صبح جو کالم چھپا تھا، اس کے ذریعے میں نے تھوڑی تحقیق اور کافی غور کے بعد یہ بڑھک لگادی تھی کہ شاہد خاقان عباسی کی حکومت فی الوقت ”اسی تنخواہ“ پر گزارہ کرنے کو تیار ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی سیاسی اعتبار سے نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے لئے فائدہ مند ثابت ہورہی ہے۔ حکمران جماعت کی اکثریت کو یقین ہے کہ ”مجھے کیوں نکالا“ کی دہائی کے بعد اس کے نامزد کردہ افراد کو آئندہ انتخابات میں ہمدردی کا ووٹ کثیر تعداد میں ملے گا۔ انتخابی مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی یہ جماعت آئین میں کچھ ایسی تبدیلیاں لانے کی بھرپور کوشش کرے گی جن کے ذریعے ”پارلیمان کی بالادستی“ کو یقینا بنایا جاسکے۔

”پارلیمان کی بالادستی“ کو اجاگر کرنے کی ضرورت جس تناظر میں ان دنوں شدت سے محسوس ہورہی ہے مجھے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جان کی امان پاتے ہوئے اگرچہ یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ ان دنوں بہت متحرک ہوچکی ہے۔ کئی حوالوں سے یہ تحرک خلقِ خدا کے لئے خیر کی خبر بھی ہے۔ ہسپتالوں کے معاملات اور صاف پانی کی فراہمی وغیرہ یقینا ایسے معاملات ہیں جن پر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کڑی نگاہ رکھنا عوام کے لئے بہت اطمینان بخش ہے۔

حکومتی کاموں کو روزمرہّ کی صورت سرانجام دینے کے لئے مگر ایک منتخب حکومت کو آئین کے مطابق فراہم کردہ ان اختیارات پر عمل درآمد کی قوت میسر ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے جو فقط ”انتظامیہ “ کے لئے مختص سمجھے جاتے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی کابینہ سرکاری افسروں کو چند ٹاسک سونپتی ہے۔ وہ ٹاسک پورے نہ ہونے کی صورت میں افسران کی ڈانٹ ڈپٹ بھی فقط منتخب حکومت کا حق واختیار سمجھا جاتا ہے۔ انتہائی غیرمعمولی حالات ہی میں کوئی اور ادارہ سرکاری افسران کی باز پرس کا اختیار استعمال کرتا ہے اور ان دنوں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے یہ اختیار روزانہ کی بنیاد پر کئی معاملات کے ضمن میں بے تحاشہ انداز میں استعمال ہوتا نظر آرہا ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں سے شاہد خاقان عباسی کی حکومت لہذا یہ محسوس کرنا شروع ہوگئی ہے کہ متحرک عدلیہ اسے مفلوج بنارہی ہے۔ نئے انتخابات تک پہنچنے سے قبل وہ چند ترقیاتی منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنا چاہ رہی ہے۔ سرکاری افسران مگر عدلیہ کے خوف سے ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہورہے۔

اپنی حقیقی یا مفروضہ بے بسی سے کہیں بڑھ کر حکمران جماعت کے وزراءاس امر کے بارے میں بھی بہت پریشان ہیں کہ کئی آئینی سوالات پر غور کرتے ہوئے عدلیہ کی جانب سے جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں ان کے لئے استعمال ہوا لہجہ اور زبان عوام کے منتخب کردہ افراد کو بلااستثناءمجموعی طورپر ”چور لٹیروں“ کی صورت بناکر پیش کررہے ہیں۔ نواز شریف کو عدلیہ نے ”گاڈفادر“ اور ”سسیلین مافیا“بتاکر نااہل کیا۔ ان دنوں باز پرس اس قانون کے بارے میں ہورہی ہے جس کی بدولت سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے باوجود نواز شریف کو نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کا بااختیار سربراہ بنادیا گیا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھا کہ اگر سپریم کورٹ نے مذکورہ قانون کو آئین کے منافی قرار دے کر رد کردیا تو ان ا فراد کا مستقبل کیا ہوگا جنہیں سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں پر منتخب ہونے کے لئے نواز شریف کے دستخطوں سے ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں۔

سینٹ کے ایک سابق رکن نہال ہاشمی کو توہینِ عدالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ وہ سینٹ میں بیٹھنے کے لئے نااہل قرار پائے اور جیل بھیج دئیے گئے۔ انہیں جیل بھیجنے کے بعدبھی عدلیہ اس کھوج میں رہی کہ موصوف واقعتا جیل میں ہیں یا بیماری کے بہانے ہسپتال بھیج دئیے گئے ہیں۔

نہال ہاشمی کے بعد اب دو وفاقی وزرائ-طلال اور دانیال عزیز-سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہورہے ہیں۔ ان دونوں پر بھی توہین عدالت کا الزام ہے۔ حکمران جماعت کو یہ خوف لاحق ہے کہ ان دونوں کو بھی نہال ہاشمی کی طرح ”عبرت کا نشان“ بنادیا جائے گا۔ بات مگر وہاں ختم نہیں ہوگی۔

توہینِ عدالت کے جرم میں کسی شخص کو زیادہ سے زیادہ 6 ماہ تک جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ توہینِ عدالت کے جرم کا تذکرہ کرتے ہوئے حال ہی میں چند معزز ججوں نے لیکن اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ چند صورتوں میں یہ توہین آئین کے آرٹیکل5 کی خلاف ورزی بھی شمار ہوسکتی ہے۔

یہ آرٹیکل ”اداروں“ کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ اس کی مسلسل خلاف ورزی کسی شخص یا سیاسی جماعت کو بالآخر آئین ہی کے آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت کا مجرم بھی بناسکتی ہے۔ توہینِ عدالت والے قانون کا آرٹیکل 5 کی روشنی میں اطلاق فقط چند افراد ہی نہیں نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کو بالآخر اس مقام تک بھی لے جاسکتا ہے جہاں نواز شریف کی سربراہی میں کام کرنے والی یہ جماعت اپنے اجتماعی رویے کی بدولت آئینی اداروں کی مبینہ ”تضحیک“ کا مسلسل ارتکاب کرتی نظر آئے۔ اسے روکنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 6 کا اطلاق بعیدازامکان نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

پیر کی شام شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر جو نپی تلی تقریر کی ہے وہ میرے لئے حیران کن تھی۔ ان کا دھیمہ لہجہ مگر یہ حقیقت نہیں چھپاپایا کہ حکمران جماعت اب نئے انتخابات کے عمل سے گزرنے سے قبل ہی Enough is Enough والے رویے کے ساتھ اپنے دائرہ ا ختیار کے گرد حفاظتی حصار کھڑا کرنا چاہ رہی ہے۔

وزیر اعظم کی مختصر تقریر کے بعد قائدِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے جو تقریر کی وہ واضح طورپر بتارہی تھی کہ پیپلز پارٹی ”پارلیمان کی بالادستی“ کو یقینی بنانے کے لئے نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کا ساتھ دے گی۔ پیر کی رات اگرچہ آصف علی زرداری کے قریبی سمجھے لوگوں سے میری بات ہوئی تو عندیہ یہ بھی ملا کہ شاید خورشید شاہ Solo کھیل گئے ہیں۔ ان کی قیادت اس موقعہ پر عدالتی تحرک کو لگام ڈالنے والی کسی کوشش میں اپنا حصہ ڈالنے کو تیار نہیں۔

بہرحال جس ”دھماکہ دار آئینی ترمیم “ کے تذکرے سرگوشیوں میں ہورہے تھے اس کے امکانات پیر کی شام سے نمایاں تر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ شاید نئے انتخابات سے قبل ہی پنجابی محاورے والا ”کٹی یا کٹا“ نکالنے کی کوشش ہو۔ یہ کوشش Back Fire کرگئی تو انجام کیا ہوگا۔ اس کے بارے میں فی الوقت سوچتے ہوئے میں اپنی صبح خراب نہیں کرنا چاہ رہا۔