1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. بچپن والی ’’تخلیقی زبان‘‘ کے پھوٹتے سوتے

بچپن والی ’’تخلیقی زبان‘‘ کے پھوٹتے سوتے

’’12 دروازوں اور ایک موری‘‘والے میرے شہر لاہور کے کچھ محلے ایسے بھی تھے جہاں کی خواتین بدکلامی کے حوالے سے بہت مشہورتھیں۔اپنے ہمسایوں کے ساتھ ان کا کسی بات پر تنازعہ کھڑا ہوجاتا تو کئی دنوں تک اپنے چوباروں میں لگی کھڑکیوں پر کھڑی ہوکر مخالف فریق کی خواتین کو صبح اُٹھ کر للکارنا شروع ہوجاتیں۔ اس ’’للکار‘‘ میں زیادہ زور ہر نوعیت کے بُرے اور فحش الفاظ استعمال کرتے ہوئے،فریق مخالف کی خواتین کی جسمانی خامیوں اور کجی کی بھد اڑانے پر ہوتا۔ انہیں بدکرداری کے طعنے دئیے جاتے۔ لفظوں کے ذریعے لڑی یہ جنگ کئی دنوں تک برپارہتی۔

کئی گھرانوں کی خواتین ’’وضاحت وبلاغت‘‘ کے اس ہنر سے محروم ہوتے ہوئے اپنے ’’دفاع‘‘ میں ناکام ہوتی نظر آتیں تو بدزبانی کی ماہر کسی ہمسائی کو ان پر رحم آجاتا۔ تھوڑے دنوں تک ’’غیر جانبدار‘‘ رہنے کے بعد اس ماہر خاتون کو پسپا ہوتے ہوئے فریق پر رحم آجاتا۔ آناََ فاناََ اپنا دوپٹہ سرپر باندھ کر وہ آستینیں چڑھاکر ان کے چوبارے پر آدھمکتی اورپھر اللہ دے اور بندے لے۔ بدکلامی کی Specialist ان رضا کار خواتین نے مجھے ہمیشہ بہت Fascinate کیا۔ میں اکثر کسی نہ کسی حوالے سے ان کے قریب ہوکر اس کھوج میں مبتلا رہتا کہ ان کی ’’تخلیقی زبان‘‘ کے سوتے کیسے اور کہاں سے پھوٹتے ہیں۔

’’ممی ڈیڈی‘‘ کہلاتے اپنے کئی دوستوں کے سامنے اگرچہ میں ایسے کرداروں کے درمیان رہنے والی حقیقت کے بارے میں بہت شرمندہ رہتا۔ میری شرمندگی مگر بتدریج غروروفخر میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی کیونکہ اکثر مجھے نام نہاد خوش حال اور پوش خاندانوں اور محلوں میں پیداہوکر جوان ہوئے بچوں سے ’’فرمائش‘‘ آتی کہ آئندہ میری پہنچ والے کسی محلے میں عورتوں کے درمیان لفظوں کی ایسی جنگ شروع ہو جائے تو اس کا نظارہ کرنے کی سہولت انہیں بھی مہیا کی جائے۔ کئی مرتبہ میں نے بڑی فیاضی سے اس ضمن میں ’’سہولت کاری‘‘ کا فریضہ سرانجام دیا۔

یہ فریضہ ادا کرتے ہوئے میں نے ٹھوس حوالوں سے بالآخر یہ دریافت کیا کہ انسان جبلی طور پر بہت کمینہ ہوتا ہے۔وہ فحش کلامی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ بدکلامی کے ہاتھوں بے بس ہوئے لوگوں پر اسے رحم نہیں آتا۔ وہ ان کی بے بسی کا بلکہ لطف اٹھاتا ہے۔ فحش کلامی سے لطف اٹھانے والی اس جبلت کا اعتراف کرنے سے مگر ہم گھبراتے ہیں۔ وہی منافقت جو ہمیں غیروں کے روبرو خود کو بہت پارسا اور نیکوکار ثابت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

1975ء کے بعد مگر میں صحافی بن گیا۔اسلام آباد منتقل ہوا تو بتدریج سیاست پر رپورٹرنگ میری Beat ہوگئی۔ سیاست دان ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ یہ الزام لگانے سے پہلے مگر وہ ٹھوس ہوم ورک بھی کیا کرتے تھے۔ فریق مخالف کے خلاف چند دستاویزی ثبوت جمع کرنے کے بعد وہ پریس کانفرنس کے ذریعے یہ الزامات لگاتے تو ہم میں سے اکثر رپورٹر ان دستاویزات کو بغورپڑھ کر ان کو غیر متعلق یا کمزور ثابت کرنے کے لئے سوالات اٹھاتے۔ الزامات لگاتے سیاستدان کے لئے اپنا دفاع بہت مشکل ہوجاتا ہے۔وہ اپنی بات پر ڈٹا بھی رہتا تو اس کی پریس کانفرنس کو رپورٹ کرتے ہوئے ہم بہت محتاط رہتے۔ فلاں سیاستدان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ’’الزام‘‘ لگایا، ہماری خبر کا انٹرو ہوا کرتا تھا۔ ’’مبینہ‘‘ ایک ایسا لفظ تھا جسے بارہا استعمال کرنا ہماری مجبوری تھی۔

میری بدقسمتی کہ صحافت، جس سے مجھے عشق رہا ہے،ان دنوں بہت ’’آزاد‘‘ ہوچکی ہے۔اس’’آزادی‘‘ کی اصل حقیقت سے میں خوب واقف ہوں۔ خلقِ خدا کو مگر یقین ہے کہ ہماری صحافت واقعتا آزاد ہے۔ وہ اس ’’آزادی‘‘ سے بلکہ لطف اٹھاتی ہے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھا ایک بقراطِ عصر اسی لئے تو ٹی وی پروگراموں کو شرطیہ ریٹنگ فراہم کرسکتا ہے۔ Ratings کو یقینی بنانے والے اس ’’حق گو‘‘کا اصل کردار مگر میرے بچپن کی ان عورتوں جیسا ہے جو ماتھے پر دوپٹہ باندھ کر آستینیں چڑھائے چوباروں میں کھڑی ہوکر فحش کلامی کے دریا بہادیتی تھیں۔

راولپنڈی کا بقراطِ عصر یقینی طورپر لیکن ایک Trend Setter ہے۔ میرے دوست اور بھائی چودھری اعتزاز احسن جو ایچی سن کالج اور کیمرج کے طالب علم رہے ہیں، خورشید شاہ کو ساتھ لے کر لال حویلی میں اس کے روبروحاضر ہوئے تھے۔ ایچی سن کالج اور آکسفورڈ سے پڑھا ہمارا عالمی شہرت یافتہ کپتان بھی جو جبلی طورپر اپنی زبان، نسل اور اقدار کے بارے میں مغروربرطانوی اشرافیہ میں یکسا ں مقبول ہے، اسی بقراطِ عصر سے تنہائی میں بیٹھ کر Street Wisdom سے آشنا ہوا ہے۔ خورشید شاہ کو ’’ڈبل شاہ‘‘ کہتا ہے۔ سرپر مفلر ڈال کر محمود خان اچکزئی کی نقل اُتارتا ہے۔ نواز شریف کو ’’چور‘‘ اور اس کے حامیوں کو درباری اور ’’فکرِ کپتان‘‘ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنے والے لکھاریوں کو ’’لفافہ‘‘ پکارتا ہے۔

بہت ہی ’’آزاد‘‘ ہوئے ہم صحافی مگر سوال اٹھانا بھول چکے ہیں۔ ہمیں فکر ہے تو صرف اتنی کہ ہمیں تنخواہیں دینے والے سیٹھوں کے چلائے چینل سکرین پر آجائیں تو دیکھنے والے ریموٹ پھینک کر وہیں رُک جائیں۔ ہم ’’بی جمالو‘‘بن چکے ہیں۔ عمران خان خورشید شاہ کو ’’ڈبل شاہ‘‘ کہتا ہے تو ہم اسے حیدرآباد میں ڈھونڈلیتے ہیں۔ موصوف وہاں اپنے ایک دیرینہ ساتھی سید نوید قمرکے ہاں ان کے والد کی وفات پر تعزیت کے لئے گئے تھے۔ تعزیت کے بعد خورشید شاہ کو کیمروں کے سامنے روک لیاگیا۔ اہم ترین ’’صحافیانہ‘‘ سوال اس وقت یہ بن گیا کہ عمران خان نے آپ کو جو ’’ڈبل شاہ‘‘ کہا، اس کے جواب میں آپ کیا کہتے ہیں۔ خورشید شاہ جال میں نہیں پھنسا۔جوابی بدکلامی پرتیار نہ ہونا مگر موصوف کے کسی کام نہیں آئے گا۔ لوگ اس کی خاموشی کو بلکہ اس الزام کا اثبات شمار کریں گے کہ عمران خان ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ ’’پارلامان‘‘ بچانے کی فکر میں مبتلا نظر آتا خورشید شاہ درحقیقت نواز شریف کا Partner in Crime ہے۔ خواہ مخواہ کا ’’معتبر‘‘ اور ’’خوش کلام‘‘ نظر آنے کی کوشش کرتا ہے۔

زمانہ اب تو ویسے بھی انٹرنیٹ کا ہے۔ اس پر چند تصویریں لگادیں۔ اصلی نہ بھی ہوں تو Photoshop کرلیں۔ان میں موجود چند کرداروں کے گرد سرخ دائرے لگادیں ۔ انہیں فیس بک اور ٹویٹر پر چڑھادیں۔ خود بھی شرمسار ہونے کے بجائے لطف اندوز ہوں۔ Likes کے ابنار لگ جائیں گے۔ ہزار ہا لوگ آپ کی تخلیقی بدکلامی کو Share کرنے پر بھی مجبور ہوجائیں گے۔

’’12 دروازوں اور ایک موری والے‘‘ اپنے شہر لاہور کی بدکلام عورتوں سے میں نے اپنے بچپن میں’’تخلیقی زبان‘‘ کے جن سوتے کو دریافت کیا تھا ان سے رجوع کرنے پر طبیعت بہت مائل ہورہی ہے۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ ’’نوائے وقت‘‘ کا اب بھی اصرار ہے کہ وہ اپنی روایت پسند اور مہذب زبان والی پہچان برقرار رکھے گا۔ آستینیں چڑھا کر کونسے چوبارے پر چڑھ جائوں؟ سمجھ نہیں آرہی۔ ذہن اگرچہ رواں ہوچکا ہے اپنی ’’طبعِ رواں‘‘ کا اظہار مگر کیسے اور کہاں کروں؟