1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ”برانڈ مودی“ اور ”برانڈ شہباز“

”برانڈ مودی“ اور ”برانڈ شہباز“

اندھی نفرت اور محبت میں حریف قبائل کی طرح تقسیم ہوئے ہمارے معاشرے میں گزشتہ جمعے کے روز جو فیصلے آئے ہیں ان کا ”متنازعہ“ ہونا اٹل تھا۔ اس تنازعے میں زیادہ جان ایک عزت مآب جج نے وہ اضافی نوٹ تحریرکرتے ہوئے ڈالی جس کے ذریعے خلقِ خدا کو سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ نواز شریف اور عمران خان کے خلاف ہوئے مقدمات اپنے مواد کے اعتبار سے مختلف کیوں تھے۔ میری ناقص رائے میں اس وضاحت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔ فضا مگربن گئی۔ سوالات اٹھے تو چیف جسٹس صاحب اتوار کے دن لاہور میں ایک جذباتی خطاب پر مجبور ہوگئے۔ اس خطاب نے ہماری وحشیانہ حدود کو چھوتی سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے۔

شریف خاندان سے ہر صورت نفرت میں مبتلا افراد کو حدیبیہ مل کے بار ے میں آئے فیصلے پر بھی کافی تحفظات ہیں۔ ان سب کا خیال تھا کہ اگر نیب کو حدیبیہ کیس منطقی انجام تک لے جانے کی اجازت مل جاتی تو احتساب عدالتیں بہت سرعت کے ساتھ نواز شریف اور اسحاق ڈار کو منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت سزائیںسنانے کے قابل ہوجاتیں۔ اسی مقدمے کی بدولت ”گاڈفادرII“ بنائے شہباز شریف کی نااہلی کے امکانات بھی روشن ہو جاتے۔

علمی اعتبار سے ذرا ٹھنڈے ذہن کے ساتھ سوچا جائے تو بآسانی دریافت کیا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی اپنی کوئی ”ادارتی سوچ“ موجود نہیں ہے۔ وہاں موجود ہر عزت مآب جج سیاسی مقدمات کا بہت سوچ سمجھ کر اپنائے کسی ایسے معیار سے جائزہ نہیں لیتا جسے ادارتی تعصب یا Institutional Bias کہا جا سکے۔ قانونی معاملات کا علمی اعتبار سے جائزہ لینے والوں کی نظر میں اچھی خبر ہے۔ پیشہ ور وکلاءکی پریشانی مگر یہ نظر آتی ہے وہ اپنے موکلوں کا دفاع کرتے ہوئے اس جج کی سوچ پر اب زیادہ توجہ دینے کو مجبور ہوا کریں گے جن کے روبرو ان کا مقدمہ پیش ہو گا۔

اعلیٰ ترین عدالتوں کے ججوں کی انفرادی سوچ تاریخی تناظر میں کوئی انہونی بات نہیں۔ امریکہ کے سپریم کورٹ کے تقریباً ہر جج کی انفرادی اور ”نظریاتی“ ترجیحات کا اکثر ذکر رہتا ہے۔ ان کی ترجیحات مگر اجتماعی اعتبار سے وہاں کی اعلیٰ ترین عدالت کی ساکھ کو زک نہیں پہنچاتیں۔ ہمارے ہاں شاید برطانوی روایات کی وجہ سے اعلیٰ ترین عدالتوں میں ”نظیر“ ڈھونڈ کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کی کاوش ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے سپریم کورٹ کے ”اجتماعی“ ذہن اور رویئے کا تعین ضروری سمجھا جاتا ہے۔ افتخار چودھری کے زمانے میں ہمیں یہ عمل بہت توانا نظر آیا تھا۔ سیاسی حوالوں سے بہت ہی اہم سمجھے مقدمات پر جو فیصلے آئے ان میں ”اختلافی نوٹ“ شاذ ہی دیکھنے کو ملے۔ تقریباً ہر فیصلہ ”متفقہ“ ہوا کرتا تھا جس کی بدولت سپریم کورٹ کی ”ادارتی سوچ“ کا تاثر پھیلا۔ گزشتہ جمعے کے بعد سے یہ تاثر ختم ہوگیا ہے۔

مجھے خبر نہیں کہ بہت سادہ اصولوں پر مبنی ”ادارتی سوچ“ کا موجود نہ ہونا ہمارے لئے خیر کی خبر ہے یا نہیں۔ اگرچہ کئی لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ ایک جمہوری اور Pluralist معاشرے میں ججوںکی ”ادارتی سوچ“ تک محدود رہنے کے بجائے ”خودمختار“ انداز میں مقدمات کو طے کرنا فطری بھی ہے اور کئی حوالوں سے خیر کی خبر بھی۔

علمی مباحث اور اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی اعتراضات سے بالاتر ہوکر سوچیں تو گزشتہ جمعے کے روز سنائے فیصلوں نے ہمارے سیاسی منظرنامے کو ایک حوالے سے صاف بھی کیا ہے اور ”ثبات“ کی کوئی صورت بنتی بھی نظر آئی ہے۔ عمران خان کا ”صادق“ اور ”امین“ ٹھہرائے جانا اور حدیبیہ کے حوالے سے شہباز شریف کی ”جاں خلاصی“ میرے اندر موجود سیاسی رپورٹر کو پیغام یہ دیتی ہے کہ آئندہ انتخابات بنیادی طور پر یہ طے کرنے کی خاطر ہوں گے کہ ہمارے آئندہ وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے یا عمران خان۔ واضح رہے کہ یہ بات لکھتے ہوئے میں ہرگز یہ تاثر دینے کی کوشش نہیں کررہا کہ Game Set کر دی گئی ہے۔ نیتوں پر سوال اٹھائے بغیر میں صرف گزشتہ جمعے کے روز آئے فیصلوں کے تناظر میں بنی فضا کا ذکر کر رہا ہوں۔

سیاسی حوالوں سے Game کا صاف ہو جانا میری نظر میں ایک مناسب خبر ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) اپنے قائد کی نااہلی کے بعد سے کافی پریشان ہے۔ اس میں انتشار کے بے پناہ امکانات موجود تھے۔ اندرونی اختلافات مگر پھٹ کر ہمارے سامنے نہیں آئے۔ نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ آئندہ انتخابات شہباز شریف کی ذات سے وابستہ ”گڈگورننس“ اور ترقیاتی کاموں سے لگن کی بنیاد پر لڑتے ہوئے خاص گھبراہٹ محسوس نہیں کرے گی۔ ذاتی طورپر میں شہباز شریف کی ”گورننس“ کا اگرچہ مداح نہیں۔ موصوف کا دیا یہ ماڈل مگر شہری متوسط طبقے کو کافی پسند ہے۔

بھارت کے نریندر مودی کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر اسے ”پانی، بجلی اور سڑک“ کی فراہمی سے جڑی ”ترقی“ کی علامت سمجھا گیا۔ حال ہی میں گجرات کی صوبائی اسمبلی کے لئے ہوئی انتخابی مہم کے دوران "Brand Modi" کا سہارا لیتے ہوئے BJP دوبارہ برسراقتدار آگئی ہے۔ اگرچہ بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ 22 برسوں سے مسلسل حکومت میں رہنے کی وجہ سے BJP گجرات میں اپنی کشش کھو بیٹھی ہے۔ مودی کی عائد کردہ نوٹ بندی اور GST کے نفاذ سے وہاں کے کاروباری افراد کافی نالاں تھے۔ راہول گاندھی نے یہ انتخاب جیتنے کے لئے مہم بھی زوردار چلائی تھی۔ اس کی جماعت نے ماضی کے مقابلے میں بہتر نتائج حاصل کئے ہیں۔ کئی نشستوں پر وہ بہت کم مارجن سے ہاری ہے۔ "Brand Modi" مگر وہاں کی شہری مڈل کلاس پر مسلسل حاوی نظر آیا۔

آئندہ انتخابات میں "Brand Shahbaz" بھی نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ کے کام آسکتا ہے۔ عمران خان ایک جاندار اور Populist Constituency اور Appeal کے ہوتے ہوئے بھی کئی وجوہات کی بنا پر حکومت سازی کے لئے ضروری نشستوں کے حصول میں ناکام ہو سکتے ہیں۔

اصل مسئلہ مگر یہ بھی ہے کہ "Brand Shahbaz" اپنے تئیں کوئی شے نہیں۔ وہ نواز شریف کے سائے ہی میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے اور نواز شریف سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوجانے کے باوجود سیاسی اعتبار سے اب بھی ایک اہم ترین Factor کے طورپر موجود ہیں۔ Brand Shahbaz برگد کے سائے تلے رہتے ہوئے بازار میں چل سکتا ہے یا نہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنا ہو گا!