نہالِ خشک سے کیا برگ و بر نکل آئے
بہار آئی تو شاخوں کے پر نکل آئے
زمانہ وہ ہے کہ نیکی بھی کرکے ڈرتے رہو
نہ جانے خیر سے بھی کیسا شر نکل آئے
نکل تو آئے خوشی کی کسی خبر کے لیے
مگر خبر نہیں کیا سوچ کر نکل آئے
ہمارے عہد کی یہ بے گھری عجب تھی کہ لوگ
گھروں میں رہتے ہوئے دربدر نکل آئے
پکارنے پہ کوئی شخص بھی نہ نکلا سعود
اگرچہ چاروں طرف سر ہی سر نکل آئے