1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. برکس مشترکہ اعلامیہ میں لشکر طیبہ اور جیش محمد کی مذمت

برکس مشترکہ اعلامیہ میں لشکر طیبہ اور جیش محمد کی مذمت

کم از کم 3 ہزار سالوں سے اپنی بہت ہی الگ پہچان، تہذیب اور تمدن کے حامل مُلک چین کی پہلی اور آخری ترجیح محض پاکستان کی بقاءاور خوشحالی ہو ہی نہیں سکتی۔ 1980ء کی دہائی سے اس نے خود کو ہر صورت دُنیا کا سب سے طاقتور ملک بنانے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ چین یہ بات خُوب جانتا ہے کہ محض فوجی قُوت کی بُنیاد پر کوئی مُلک خود کو سُپرطاقت نہیں کہلوا سکتا۔ اس کے ہمسائے میں کسی زمانے میں سوویت یونین نام کی ایک سُپرطاقت ہوا کرتی تھی۔ امریکہ نے اس سے ایٹمی جنگ کو ٹالنے کےلئے کئی معاہدے کئے تھے۔ یہ مُلک مگر 1979ء میں افغانستان پر قابض ہونے کے جنون میں مُبتلا ہوگیا تو امریکہ نے ایمان کی طاقت سے مالا مال مُجاہدین کی معاونت سے اس کا ”ویت نام“ بنادیا۔ سوویت یونین سے اب محض روس تک محدود ہوجانے کے باوجود بھی وہ مُلک فوجی اعتبار سے بہت طاقتور ہے۔ شام کے بشارالاسد کی حکومت کو اس نے فضائی بمباری سے بچالیا۔ اگرچہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک اس حکومت کے خاتمے پر تُلے ہوئے تھے۔ فوجی قُوت کے حوالے سے اہم ترین ہوتے ہوئے ہی روس نے کریمیا کو یوکرائن سے چھین لیا۔ عالمی امور میں لیکن روس اب بھی دوسرے درجے کی طاقت شمار ہوتا ہے کیونکہ مُعیشت اس کی مضبوط نہیں۔ اس کی تمام تر آمدنی کا بنیادی ذریعہ تیل وگیس کے بے تحاشہ ذخائر ہیں۔ وہ ان ذخائر کو اپنے ملک میں صنعتی پیداوار بڑھانے کےلئے مگر استعمال نہیں کرپاتا۔ عالمی منڈی میں فروخت کے قابل اشیائے صرف تیار کرنے کی سکت نہ ہونے کے باعث ہی روس معاشی اعتبار سے ایک کمزور مُلک سمجھا جاتا ہے۔

چین کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر موجود نہیں ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے اپنے ہاں پیدا ہونے والا کئی اعتبار سے ناقص کوئلہ جلاکر ماحول کو تباہ کرتا مگر بجلی پیدا کرتا رہا۔ اپنے مُلک میں اس نے غیرملکی سرمایہ کاروں کو بہت ہی آسان شرائط پر کارخانے لگانے کی ترغیب دی۔ اس کی بے پناہ آبادی میں مزدور بے تحاشہ اور عالمی اعتبار سے نسبتاً کم نرخوں پر کام کرنے کو تڑپ رہے تھے۔ ان مزدوروں کو یونین سازی اور ہڑتالوں وغیرہ کی ”عیاشی“ بھی مُیسر نہیں تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کے مکمل کنٹرول میں وہاں ایک سیاسی نظام ہے جو کئی اعتبار سے آمرانہ ہے۔ بنیادی حقوق کے تصور سے ناآشنا چینی اپنی زندگی سنوارنے کو سر جُھکائے خون پسینہ ایک کرتے رہے۔ کئی دہائیوں کی مُشقت کی بدولت چین اب دُنیا کی توانا ترین مُعیشت شمار ہوتا ہے۔ دُنیا کے کسی خِطے میں چلے جائیں وہاں کے بازاروں میں ”میڈاِن چائنہ“ اشیاءکی بھرمار ہے۔ وہ دیکھنے کو بھلی لگتی ہیں اور نرخ بھی ان کے قابلِ برداشت ہیں۔ چین مگر ابھی تک مطمئن نہیں ہے۔ اسے بہت سی نئی مصنوعات کے ساتھ دنیا کے ہر کونے میں پہنچنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کےلئے اس نے One Belt One Road جیسے منصوبے سوچ رکھے ہیں۔ ہمارے گوادر کو چین کے کاشغر سے ملانے والی سڑک اس مہا منصوبے کا صرف ایک جُز ہے اپنے تئیں”کُل“ نہیں۔ تجارتی حوالوں سے خود کو مضبوط تر بنانے کےلئے چین نے بھارت، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر ایک تنظیم بنائی ہے۔ BRICS اس کا نام ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی ہدف ان تمام ممالک کو باہمی اشتراک سے امریکہ اور جاپان جیسے طاقتور معاشی مُلک بنانا ہے۔ BRICS کئی حوالوں سے مستقبل کی یورپی یونین میں تبدیل ہونا چاہ رہی ہے مگر ان کے درمیان بہت سارے سمندر اور ممالک حائل ہیں‘ برازیل لاطینی امریکہ میں ہے‘ جنوبی افریقہ ایک بالکل مختلف براعظم میں‘ جغرافیائی قربتیں صرف روس، چین اور بھارت کے درمیان موجود ہیں۔ یہ تینوں اپنے قدرتی وسائل کو یکجا کرتے ہوئے ایک دوسرے کی صنعتی ہنرمندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشترکہ کاروبار کی راہیں سوچ رہے ہیں اور BRICS کا حالیہ اجلاس گزشتہ ہفتے چین ہی کے ایک شہر میں منعقد ہوا ہے۔ اس اجلاس کے اِختتام پر مُتفقہ طور پر جو مُشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس کے پیراگراف نمبر47 اور 48 میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ BRICS ممالک میں مُعیشت کی رونق کو یقینی بننے کےلئے ضروری ہے کہ افغانستان کا مسئلہ روس کے دیئے ہوئے ایک منصوبے اور ترکی کی جانب سے ”ہارٹ آف ایشیائ“ والے خیال میں تجویز کردہ بنیادوں پر حل کیا جائے۔ افغانستان کے علاوہ ”دائمی امن“ اس پُورے ”خِطے“ کو بھی درکار ہے جہاں روس، بھارت اور چین موجود ہیں۔ BRICS نے برملا اعلان کیا ہے کہ چند دہشت گرد تنظیمیں اس ”خطے“ میں امن قائم ہونے نہیں دے رہیں۔ اس ضمن میں مُختلف تنظیموں کے نام لے کر ان کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ لشکر طیبہ اور جیش محمد بھی ان کی فہرست میں شامل ہیں۔ شاید مُجھے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ مذکورہ بالا تنظیموں میں سے آخری دو کس مُلک سے منسوب ہیں۔ چین اپنا یار ہے اس کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ سے بھی اُونچی اور سمندروں سے زیادہ گہری ہوا کرتی تھی۔ شہباز صاحب نے اپنی ”سپیڈ“ سے اسے ”شہد سے بھی زیادہ“ میٹھی بھی بنادیا تھا۔ شاید ان ہی کی مُحبت کی خاطر چین ابھی تک مذکورہ تنظیموں کا ذکر BRICS کے اجلاسوں اور اعلامیوں میں نہیں ہونے دے رہا تھا۔

2016ء میں BRICS کا اجلاس بھارت کے گوا میں ہوا تھا۔ ان دو تنظیموں کا ذکر چلا تو چینی صدر نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ اس خِطے میں کُچھ Hot Points ہیں۔ وہاں کے مسائل حل کئے بغیر ہم ان سے تعلق رکھنے کی دعوے دار تنظیموں کی مُذمت نہیں کرسکتے۔ یہ بات عیاں تھی کہ Hot Points کا ذکر کرتے ہوئے چینی صدر مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو اُجاگر کرنا چاہ رہے تھے۔

مسئلہ کشمیر اپنی جگہ جُوں کا تُوں موجود ہے۔ چین کے ایک شہر میں حال ہی میں ہوئے BRICS اجلاس میں لیکن لشکرِ طیبہ اور جیش محمد کا نام لے کر ان کی مُذمت کردی گئی ہے۔ بھارتی میڈیا اس ذکر پر بہت شاداں ہے۔ اسے اپنے ملک کی بے پناہ سفارتی کامیابی کی صورت پیش کررہا ہے۔ ہماری ٹی وی سکرینوں پر ہمہ وقت براجمان ”دفاعی اور سلامتی امور“ کے بہت ہی بلند آہنگ مبصرین کو لیکن سمجھ نہیں آرہی کہ وہ BRICS کی جانب سے جاری ہوئے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کےلئے وہ تنکا کیسے تلاش کریں جو ڈوبتے ہوئے شخص کا سہارا ہوا کرتا ہے۔

اپنے سر پر رہے سہے بالوں کو خضاب سے چمکا کر ٹی وی سکرینوں پر پھیپھڑوں کا زور لگاتے ان ماہرین سے میری دست بستہ فریاد ہے کہ دل کو خُوش رکھنے والی کہانیاں گھڑنے سے باز آجائیں۔ صرف اس بنیادی حقیقت کا اعتراف کرلیں کہ کم از کم 3 ہزار سالوں سے اپنی بہت ہی الگ پہچان، تہذیب اور تمدن کے حامل ملک چین کی پہلی اور آخری ترجیح محض پاکستان کی بقاءاور خوشحالی ہو ہی نہیں سکتی۔