1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ایکو کانفرنس، اور پی ایس ایل فائنل کا انتظار

ایکو کانفرنس، اور پی ایس ایل فائنل کا انتظار


ایکو کانفرنس، اور پی ایس ایل فائنل کا انتظار


دُنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اخبارات کو محض سرکولیشن کی بنیاد پر زندہ رکھنا ناممکن ہوچکا ہے۔ کئی صورتوں میں قارئین کی بڑھتی ہوئی تعداد تک اخبار پہنچانا بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے کیونکہ اخبار کی ایک کاپی شائع کرنے کی لاگت اس رقم سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو صارف ہر ماہ بل کی صورت یا کبھی کبھار کسی نیوزسٹال سے کوئی اخبار اُٹھاکر ادا کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ قاری پیدا کرنے کی کوشش لہذا گھاٹے کا سودا بھی ہوسکتی ہے۔


اپنا وجود برقرار رکھنے اور کچھ منافع کمانے کے لئے اخبارات کو اشتہارات کی ضرورت ہے۔ اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ پرنٹ صحافت میں لیکن اشتہارات پر انحصار کرتے ہوئے بھی اپنی بات کہنے کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ ٹیلی وژن کے لئے کی جانے والی صحافت کے لئے یہ گنجائش برقرار رکھنا تقریباََ ناممکن ہوتا جارہا ہے۔


دن کے 24 گھنٹے سکرین پر خبروں اور تبصروں کے ساتھ نظر آناخطیر اور مسلسل سرمایہ کاری کا تقاضہ کرتا ہے۔ گھروں میں بیٹھے لوگ جن کی اوسطاََ 100 سے زیادہ چینل دیکھنے کی سہولت بھی حاصل ہے، صرف آپ کا چینل ہی دیکھ رہے ہوں تو بھی اس کے مالک کو براہِ راست کوئی رقم ادا نہیں کرتے۔ناظرین صرف کیبل آپریٹرز جیسے Service Providers کو معاوضہ دیتے ہیں۔ ناظرین سے اپنی نشریات کے لئے ایک پائی بھی حاصل نہ کرنے کی وجہ سے ٹی وی چینلز کو صرف اور صرف اشتہارات کے ذریعے خود کو زندہ رکھنا اور بالآخر کچھ منافع کمانا ہوتا ہے۔


اشتہارات کا دھندا چلانے والے یہ نہیں دیکھتے کہ آپ کیا دکھارہے ہیں۔ ان کی ساری دلچسپی فقط Eye Balls سے ہوتی ہے جسے عام فہم زبان میں Ratings کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں Ratings کو طے کرنے والے پیمانے بہت مستند اور معیاری نہیں ہیں۔ امریکہ جیسے ملکوں میں بھی جہاں بڑی تحقیق کے بعد اس حوالے سے چند پیمانے ایجاد کئے گئے تھے مگر ان پیمانوں کی وقعت اور صداقت کے بارے میں اب سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ حال ہی میں کچھ نئے آلے ایجاد ہوئے ہیں۔ اشتہاری کمپنیاں گھریلو صارفین کو ماہانہ معاوضہ دے کر یہ آلہ ان کے ٹی وی سیٹ پر لگادیتی ہیں۔ اس آلے کی بدولت بہت ٹھوس انداز میں یہ بھی طے کیا جاسکتا ہے کہ کسی خاندان کے کس عمر والے مرد یا عورت نے کتنی بار سکرین سے توجہ ہٹائی۔ بجائے سکرین پر توجہ دینے کے اس کی آنکھ کس وقت کسی اور جانب دیکھنا شروع ہوگئی اور سکرین پر دکھائی جانے والی شے سے یہ لاتعلقی کتنی دیر تک جاری رہی۔


Eye Balls کی اہمیت کو یاد دلانے کے لئے یہ طولانی تمہید مجھے PSL کے حوالے سے باندھنا پڑی ہے۔ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے یکسو ہوکر یہ طے کردیا کہ اس کا فائنل ہر صورت 5 مارچ کو لاہور میں ہوگا تو ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت کے دل شاد ہوگئے۔ اب بحث طلب بات صرف یہ رہ گئی ہے کہ فائنل دیکھنے کے لئے کتنے غیر ملکی کھلاڑی لاہور آنے کو تیار ہوں گے۔ 22 کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیموں کے مابین فائنل کھیلنے کے لئے 4سے 5غیر ملکی کھلاڑی بھی پاکستان آگئے تو ہم سب فخر سے پھولے نہیں سمائیں گے۔ اس گمان میں مبتلا ہوجائیں گے کہ دنیا کو یہ پیغام مل گیا کہ پاکستان میں امن لوٹ آیاہے۔ ہماری روزمرہّ زندگی ”نارمل“ ہوگئی ہے۔


چار سے پانچ غیر ملکی کرکٹرز کی لاہور آکر ہمارے سٹیڈیم میں فائنل کھیلنے پر آمادگی کو پاکستان کے Soft Image سے متعلقہ سوالات سے جس انداز میں جوڑا جارہا ہے ذرا اس کا تقابل اس حقیقت سے کیجئے کہ جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس وقت پاکستان کے دارالحکومت میں ایک بین الاقوامی کانفرنس جاری ہے۔ اس میں حصہ لینے کے لئے ترکی،آذربائیجان، ایران اور تاجکستان کے صدور ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ ان کی یہاں موجودگی کو مگر وہ Hype نصیب نہیں ہوا جو PSL کے فائنل میں ایک ہاتھ کی اُنگلیوں پر گنے غیر ملکی کرکٹرز کی ممکنہ آمد سے دیکھنے کو مل سکتا ہے۔


PSL کا تقابل اسلام آباد میں جاری بین الاقوامی کانفرنس سے کرتے ہوئے میں البتہ یہ طے نہیں کرپارہا ہوں کہ ترکی اور ایران کے صدور کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں کوئی Feel Good موڈ نہ بنانے کا ذمہ دار کس کو ٹھہراﺅں۔ سرسری جائزے کے بعد میڈیا کو فوری طورپر اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ذرا غور کرنے کے بعد سوال مگر یہ بھی اُٹھتا ہے کہ ہماری حکومت کے میڈیا منیجرز اور خاص طورپر وزارتِ خارجہ نے بھی تو اسلام آباد میں ہوئی اس بین لاقوامی کانفرنس کو Hype کی صورت دینے کی کوشش نہیں کی ہے۔


اس حوالے سے غور کرنا شروع کیا تو ذوالفقار علی بھٹو کا دور یاد آگیا جب پاکستان میں کسی ایک غیر ملکی سربراہ کی آمد بھی کئی دنوں تک گلی محلوں میں تھڑوں پر بیٹھے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی تھی۔


ترکی کے صدر کی ان دنوں اسلام آباد آمد کوئی چھوٹی بات نہیںہے۔ دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات اس وقت ان کے ملک میں ہورہے ہیں۔ ان کے خلاف فوجی بغاوت ناکام ہونے کے باوجود اردوان کی ذات کو اب بھی شدید خطرات لاحق ہیں اور پاکستان میں ایسے کئی ترک نژاد موجود ہیں جو ان کے بدترین مخالف فتح اللہ گولن کے پیروکار ہیں۔ گولن کو پاکستانی صحافیوں کی ایک کثیر تعداد ایک ماڈرن مگر انسان دوست ”صوفی“ کے طورپر سراہتی ہے۔ ترکی نیٹو کا حصہ ہے اور اس کی فوج نے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں حصہ بھی لیا ہے۔ ناراض افغان بھی اردوان کو پاکستان میں اپنا نشانہ بنانے کی کوشش کرسکتے تھے۔ ان سب خطرات کے باوجود اردوان اسلام آباد آئے ہیں اور ہم ان کی موجودگی کو یہ ثابت کرنے کے لئے استعمال نہیں کر پائے کہ پاکستان میں امن وامان یقینی بنانے والے اداروں کے پاس یہ سکت موجود ہے کہ وہ یہاں آئے مہمانوں کی حفاظت کرسکے اور اردوان جیسا دنیا بھر میں جانا پہچانا غیر ملکی سربراہ اس صلاحیت پر اعتماد کرتا ہے۔


ایرانی صدر کی پاکستان آمدایک اور تناظر میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ چند ماہ قبل جب وہ پاکستان آئے تھے تو سابق آرمی چیف کے ساتھ ان کی ملاقات کے بعد سفارتی حوالوں سے کافی بدمزگی پیدا ہوئی تھی۔ ایرانی Protocol، جسے وہاں ”تشریفات“ کہا جاتا ہے،کے حوالے سے بہت حساس واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے ایک ادارے کی جانب سے ہوئی ٹویٹ کو ان کی حکومت نے سخت ناپسند کیا تھا۔ اس بدمزگی کو بھلاکر ایرانی صدر اسلام آباد آئے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہاں جاری کانفرنس کی کچھ اہمیت جسے وہ نظرانداز نہیں کرسکتے۔


وہ ”اہمیت“ کیا ہے؟ کاش میری وزارت خارجہ نے مجھے اس ضمن میں کچھ بتایا ہوتا تاکہ میں اس کالم کے ذریعے اسے آپ کے روبرو پیش کرسکتا۔ مجھ ایسے صحافیوں کو اس ضمن میں چونکہ کچھ بتانے کا تردد ہی نہیں کیا گیا اس لئے اسلام آباد میں جاری کانفرنس کے بارے میں Feel Good باتیں لکھنے سے معذور ہوں اور آپ کی طرح پاکستان کے بارے میں ”اچھی باتیں“ کہنے اور سننے کے لئے PSL کے فائنل کا انتظار کرنے کو مجبور بھی۔