1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. فیس بک کے ذریعے اشتہاری مہم کے مضمرات

فیس بک کے ذریعے اشتہاری مہم کے مضمرات

فیس بک کی انتظامیہ نے بالآخر تھوڑی تحقیق کے بعد اعتراف کرلیا ہے کہ سینکڑوں روسی شہریوں نے جعلی ناموں سے اکائونٹس بنائے۔ ان کے ذریعے امریکہ کی سفید فام اکثریت کے دلوں میں کئی دہائیوں سے پلنے والے تعصبات کو ہوادی۔ نام نہاد ’’روایتی اشرافیہ‘‘ کے خلاف اُبلتی نفرت کو ہیلری کلنٹن کو صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار کروانے کے لئے استعمال کیا۔ یہ بات اگرچہ اب بھی واضح نہیں ہو رہی کہ روس کے جاسوسی اداروں نے تعصبات کو ہوا دینے والے ان اکائونٹس کی تشکیل میں ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کس حد تک کوئی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔

سوشل میڈیا کے تباہ کن اثرات کی نشان دہی پر مامور کچھ محققین ہزار ہا مثالوں سے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نفرت سے بھرے پیغامات پھیلانے کے لئے کسی ایک شخص یا ادارے کو صرف Lead لینا ہوتی ہے۔ وہ ہمارے تعصبات کو ہوا دینے والا کوئی پیغام مؤثر انداز میں تخلیق دے کر فیس بک وغیرہ پر چڑھادے تو Like اور Share جیسی سہولتوں کے ذریعے یہ انتہائی سرعت کے ساتھ پھیل جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی زبان میں اسے کسی پوسٹ کا Viral ہو جانا کہتے ہیں۔ مختصر لفظوں میں آپ یوں کہہ لیجئے کہ ایسا پیغام جو ڈینگی یا ہیضے جیسی وبائوں کی صورت پھیل جاتا ہے۔ اس پیغام سے متاثر ہو کر سینکڑوں افراد بھی اپنی ’’تخلیقی صلاحیتوں‘‘ کو کسی خاص واقعہ یا شخصیت کے حوالے سے کوئی نفرت بھراپیغام تیار کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اسے ’’اشتہارکی صورت فیس بک کے ذریعے منٹوں میں لاکھوں افراد تک پھیلا کر جہالت و تعصب کو بآسانی فروغ دیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ فیس بک کے دنیا بھر میں کم از کم دو ارب صارف ہیں۔ اس پر کوئی ’’اشتہار‘‘ چڑھانے کے لئے آپ کو نسبتاً بہت ہی کم رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ مثال کے طورپر امریکہ کی صدارتی مہم کے دوران نفرت بھرے پیغامات پھیلانے والے سینکڑوں جعلی ناموں نے مجموعی طورپر اپنے اشتہارات کی اشاعت کے لئے ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم خرچ نہیں کی۔ نہایت ارزاں نرخوں پر اشتہارات کی یہ سہولت مہیا کرنے کے باوجود فیس بک نے اشتہارات کے ذریعے 2016ء میں 27 جی ہاں 27۔ 6 ارب ڈالر منافع کمایا تھا۔

انسانی معاشروں میں تھوڑا توازن، مدلل مباحث اور سماجی اقدار کے تحفظ کو بے چین محققین کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ فیس بک کے منفی اثرات کو روکنے کو کیا بندوبست کریں۔ امریکی معاشرے میں شہریوں کو منافع کمانے کا حق حاصل ہے۔ ان کا آئین آزادیٔ اظہار کی مکمل ضمانت بھی مہیا کرتا ہے۔ صرف 470 جعلی اکائونٹس نے مگر 3000 کے قریب ’’اشتہارات‘‘ دے کر صرف ایک لاکھ ڈالر خرچ کئے اور مذکورہ سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بحران وانتشار کی ایسی کیفیت پیدا کی جس کا انجام ٹرمپ جیسے متعصب اور کھوکھلے شخص کے وائٹ ہائوس پہنچنے کی صورت دیکھنے کو ملا۔ بات مگر اب ٹرمپ کی کامیابی تک محدود ہوتی نظر نہیں آرہی۔ دن بدن یہ خطرہ سنگین تر ہوتا نظر آرہا ہے کہ دنیا بھر کے کسی بھی ملک میں انتشار کو فروغ دینے کے لئے فیس بک کو متعصب اور جنونی افراد بہت آسانی سے استعمال کرسکتے ہیں۔

اس کالم میں فیس بک کے بارے میں جو کچھ میں نے ابھی تک بیان کیا ہے اس کے بارے میں کئی دنوں سے غیر ملکی جرائد میں لکھے مضامین پڑھ رہا تھا۔ اپنے ملک کے حوالے سے اس کی اہمیت کا اندازہ مجھے حال ہی میں ہوئے ایک حادثے کی وجہ سے ہوا ہے۔

اسلام آباد کی شاہراہ ایوان کے بالکل آغاز میں پاکستان ٹی وی اسلام آباد کے پچھواڑے اور قومی اسمبلی کی عمارت کے عین سامنے ’’عوامی مرکز‘‘ کے نام سے ایک کثیر المنزلہ عمارت موجود ہے۔ چند روز قبل اس عمارت میں آگ لگ گئی۔ وہ آگ بجھانے کے لئے فائربریگیڈ والے بہت تاخیر سے پہنچے۔ ان کی تاخیر نے دو نوجوانوں کو خوف اور گھبراہٹ سے عمارت کی چھت سے چھلانگ لگاکر کودنے پر مجبور کردیا اور وہ اس کوشش میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

’’عوامی مرکز‘‘ میں آگ لگنا اور اس آگ سے تحفظ کے لئے مناسب حفاظتی بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے ایک سانحے میں تبدیل ہوجانا صحافتی حوالوں سے ایک بہت بڑاواقعہ تھا۔ اس کے ہوچکنے کے بعد ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تفتیشی کہانیوں کا ایک سیلاب اُمڈا ہوا نظر آنا چاہیے تھا۔ ان کہانیوں کے ذریعے ہم صحافی یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے کہ آیا’’عوامی مرکز‘‘ جیسی کثیر المنزلہ عمارتوں کے ڈیزائن اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ اس عمارت میں کبھی آگ بھی لگ سکتی ہے۔ وہ آگ لگنے کی صورت میں خود کو خطرے میں گھرے محسوس کرتے افراد کے لئے اس عمارت سے نکلنے کے لئے Emergency Exit والے راستے موجود ہیں یا نہیں۔ اسلام آباد میں فائربریگیڈ کے پاس ہنگامی صورتوں سے نبرد آزماہونے کے لئے کونسی سہولتیں موجود ہیں۔ کیا وہ سہولتیں بروقت استعمال ہوسکتی ہیں۔ ان کے لئے ضروری سمجھا سازوسامان میسر ہے یا نہیں۔ یہ سامان اس ملک میں تیار ہوا یا اسے غیر ممالک سے خریدا گیا۔ خریداری کا یہ عمل شفاف انداز میں مکمل ہوا۔ سب سے بڑھ کر یہ سوال بھی کہ آیا اسلام آباد میں کوئی ایسا مخصوص ادارہ متحرک ہے جو وقتاََ فوقتاََ باقاعدگی کے ساتھ اس شہر میں موجود کثیر المنزلہ عمارتوں کے Surprise Visits کے ذریعے اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ وہاں آگ کے پھیلائو کو روکنے کا مناسب بندوبست موجود ہے۔

انتہائی شرمساری کے ساتھ میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ماسوائے چند اخبارات کے صحافتی اداروں کی بے پناہ اکثریت نے مذکورہ سوالات اٹھانے اور ان کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ٹھوس حقائق جاننے کے لئے صحافتی اخلاقیات کے تناظر میں واجب سمجھی اس تڑپ کی عدم موجودگی ہمارے ہاں فیس بک اور ٹویٹر اکائونٹس کو تعصبات پر مبنی پیغامات پھیلانے والوں نے سفاکانہ دیدہ دلیری کے ساتھ استعمال کیا۔ ان پیغامات کی بدولت ہمارے لوگوں کی بے پناہ تعداد نہایت اعتماد کے ساتھ یہ محسوس کررہی ہے کہ ’’عوامی مرکز‘‘ میں آگ حادثاََ نہیں بھڑک اُٹھی تھی۔ یہ آگ ’’لگائی‘‘ گئی تھی اور مقصد اس کا وہ ریکارڈ جلاکر ضائع کرنا تھا جس کے بغور مطالعے سے شاید ہم یہ جان سکتے کہ CPEC معاہدوں کے ذریعے شریف خاندان نے کمیشن کی صورت کتنی رقم وصول کی تھی۔ وفاقی محتسب برائے امور ٹیکس کا ریکارڈ بھی شاید شریف خاندان کو مبینہ منی لانڈرنگ کے الزامات کے ٹھوس ثبوتوں سے بچانے کے لئے جلادیا گیا ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان یہ تردید جاری کرنے پر مجبور ہوئے کہ ’’عوامی مرکز‘‘ میں CPEC کے تحت چلائے مختلف منصوبوں کی مالیاتی تفصیلات موجود نہیں تھیں۔ وہ یہ تردید جاری کرنے پر اس لئے مجبور ہوئے کہ اسلام آباد کا چینی سفارت خانہ بہت سنجیدگی سے یہ محسوس کرنا شروع ہوگیا ہے کہ چند افراد باقاعدگی کے ساتھ CPEC کے تحت چلائے منصوبوں کو ’’بدنام‘‘ کرنے کی مہم چلارہے ہیں۔ چینی حکومت کو یہ خدشہ بھی لاحق ہونا شروع ہوگیا ہے کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی پوسٹوں کے ذریعے چینی منصوبوں کو جس انداز میں بدنام کیا جارہا ہے وہ بالآخر پاکستان میں چینی ماہرین اور کارکنوں کی جان ومال کو مختلف النوع خطرات سے دوچار کرسکتا ہے۔

نائن الیون کے بعد سے امریکی اور یورپی ممالک کے سرمایہ کار اور ماہرین سکیورٹی خدشات کے باعث پاکستان آنا تقریباً چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات ان خدشات کی وجہ سے تقریباً معدوم ہوگئے۔ 2013ء کے بعد سے چین نے قدم بڑھایا ہے تو اب نئی کہانیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ہماری حکومت اور صحافتی ادارے مگر ان کے منفی اثرات کے بارے میں قطعاََ لاتعلق نظر آرہے ہیں۔ ربّ کریم ہمیں شمالی کوریا کی طرح دنیا میں تنہا رہ جانے سے بچائے۔