1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. فیصلہ کرلیا گیا ہے؟

فیصلہ کرلیا گیا ہے؟




بادشاہ کو مات سے بچانے کے لئے چند مہرے سوچ سمجھ کر قربان کرنا پڑتے ہیں۔ پرویز رشید کی وزارتِ اطلاعات سے علیحدگی بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے۔ متوسط طبقے سے آئے اس سیاسی کارکن نے طالب علمی کے زمانے سے چند نظریات کو اپنی سوچ کا محور بنالیا تھا۔ یہ نظریات ہمارے ملک میں اصل قوت واختیار رکھنے والوں کو کبھی پسند نہیں آئے۔ 12 اکتوبر1999ء کے بعد ان ہی نظریات کی وجہ سے پرویز رشید کو بہمانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ وہ بالآخر پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوا۔


خود پر ہوئے تشدد کو مگر وہ کبھی بھول نہ پایا۔ نفسیاتی معالجین نے تلخ یادوں کو اس کے ذہن سے نکال باہر کرنے کے لئے بہت محنت کی۔ بہتر تھا کہ اپنے ساتھ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد وہ بندے کا پُتر بن جاتا۔ برطانیہ میں سیاسی پناہ لے کر وہیں ٹکارہتا۔ فلمیں دیکھتا۔ کتابیں پڑھتا۔ موسیقی سے اپنا دل بہلاتا۔ سیاست بھی لیکن ایک علت ہے۔ اسے صرف اقتدار کے کھیل سے کچھ حصہ لینے کے لئے استعمال کیا جائے تو ’’دین ودِل‘‘محفوظ رہتے ہیں۔ پرویز رشید کو دین ودل شاید غالبؔ کی طرح عزیز نہیں ہیں۔’’اس گلی‘‘ میں ہر صورت گھس جاتا ہے جس گلی میں جانے سے ہماری مائیں’’طوطیا من موتیا‘‘ والی کہانیاں سناکر روکنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ میری ناقص رائے میں اس بار ’’اس گلی‘‘ میں نہ جانے کے باوجود بھی ایسے قربان کردیا گیا ہے۔


ڈان کے سرل المیڈا سے میں نے کبھی نہیں پوچھا کہ 6 اکتوبر2016ء کی صبح ڈان اخبار کے صفحہ اوّل پر چھپنے والا مواد اس تک کیسے پہنچا تھا۔ رپورٹرایک دوسرے سے ایسے سوال پوچھنا پیشہ وارانہ اخلاقیات کے حوالے سے انتہائی معیوب سمجھتے ہیں۔ یہ بات کم از کم میرے لئے ویسے بھی بالکل عیاں تھی کہ سرل نے جو کچھ لکھا وہ غلط تھا یا صحیح، کسی ایک ذریعے سے ’’نازل‘‘ نہیں ہوا تھا۔ صحافی کو جب کسی خبر کی سن گن ملے تو وہ اس کی تفصیلات جاننے کے لئے بہت سے متعلقہ لوگوں سے رابطے کرتا ہے۔ سرل،اس ضمن میں پرویز رشید سے رابطہ نہیں کرسکتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے سرسری طورپر واقف ہیں۔ان دونوں کے درمیان ذاتی تعلقات ہرگز موجود نہیں۔


خبر لکھنے سے پہلے رپورٹر نے پرویز رشید سے رابطہ کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ وزیر اطلاعات تھا۔ ایک نام نہاد جمہوری حکومت کا سرکاری ترجمان۔ میری اطلاع کے مطابق سرل سے ملاقات کے دوران پرویز رشید اس بات پر بضد رہا کہ وہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاسوں کے دوران ہوئی جن باتوں کا ذکر کررہا ہے وہ سرے سے ہوئی ہی نہیں۔سرل نے اس کی رائے کو اہمیت نہیں دی۔ خبر لکھ ڈالی۔ وہ چھپ گئی تو تھرتھلی مچ گئی۔ پرویز رشید کا شاید گناہ یہ ٹھہرا کہ اس نے خبرکو روکنے کے لئے حکومتی مشینری کو پوری قوت کے ساتھ استعمال نہیں کیا۔


یہ حقیقت کوئی شخص سمجھنے کو ہرگز تیار نہیں کہ سچ مچ کی صحافت میں لکھنے والے کا اصل تعلق صرف اپنے ایڈیٹر سے ہوتا ہے۔ مثال کے طورپر اس کالم میں بہت اصرار کے ساتھ میں کسی خبر کی صداقت پر ڈٹا رہوں تو مجھے اس عمل سے سوائے میری مدیر محترمہ رمیزہ نظامی کے اور کوئی باز نہیں رکھ سکتا۔


عوام کے ووٹوں سے تیسری بار منتخب ہونے کے دعوے دار وزیر اعظم کی حکومتی مشینری ویسے بھی زنگ خوردہ ہے۔ Live ٹی وی پر وزیر اعظم کو’’مودی کا یار‘‘ کہا جاتا ہے۔ موصوف کے خاندان سے منسوب کارخانوں میں مبینہ طورپر RAW کے اہل کار تکنیکی ماہرین کے طورپر سینکڑوں کی تعداد میں کام کررہے ہیں۔ اس کی حکومت خطرے میں ہوتی ہے تو مخالفین ڈھٹائی کے ساتھ الزام لگاتے ہیں کہ بھارت سرحدوں پر گولہ باری شروع کردیتا ہے۔ کوئٹہ سے چند ہی کلومیٹر دور پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گرد حملہ ہوجاتا ہے۔


قومی سلامتی کے حوالے سے ہوئے اجلاسوں میں وزیر اعظم کومبینہ طورپر جو ’’بے عزتی‘‘ سہنا پڑتی ہے اس کی تفصیلات ٹی وی سکرینوں پر نمک مرچ لگاکر بیان کی جاتی ہیں۔ ہمارا ’’بہادر شاہ ظفر‘‘ اپنی تذلیل کا سبب بنی ان کہانیوں کو روکنے کا تردد ہی نہیں کرتا۔ انہیں روکنے کی کوشش کرے بھی تو اپنی ’’اوقات‘‘ کو مزید بے نقاب کرے گا۔ پرویز رشید تو ایک معمولی کارندہ تھا۔ وہ ’’ڈان‘‘ جیسے تگڑے اخبار کو سرل والی خبر نہ چھاپنے پر مجبور نہیں کرسکتا تھا۔


بہرحال ہمارے ’’بہادر شاہ ظفر‘‘نے قربانی دے دی ہے۔ یہ قربانی البتہ کام آتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ہفتے کی رات کو سونے سے قبل مجھے یکے بعد دیگرے اپنے سمارٹ فون کے ذریعے کئی پیغامات ملے۔ ان پیغامات میں دعویٰ کیا گیا کہ عمران خان کو 2 نومبر والے مارچ سے روکنے پر قائل کرنے کے لئے ’’فیصلہ‘‘ کرلیا گیا ہے کہ پیر کے روز نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ چودھری نثار علی خان ان کی جگہ لے لیں گے۔ اس کے بعد شہباز شریف قومی اسمبلی کے کسی حلقے سے الیکشن لڑکر اسلام آباد آجائیں گے۔ یہاں پہنچ کر وزیر اعظم کی کرسی سنبھال لیں گے۔ نثار علی خان ان کی جگہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن جائیں گے۔


جس پیغام کا میں ذکر کررہا ہوں اس کی صداقت پر اگر میرے کئی سینئر ساتھیوں نے بھی یقین نہ کرلیا ہوتا تو شاید میں اس کا ذکر بھی نہ کرتا۔ مصیبت مگر یہ ہے کہ نہ صرف کئی جید صحافی اورتجزیہ کار بلکہ چند ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران بھی ایسے پیغامات بھیج رہے تھے۔


اتوار کی صبح یہ کالم لکھتے وقت مجھے ہرگز خبر نہیں کہ پیر کے دن کیا ہونا ہے۔ ایک بات مگر سمجھانا ضروری ہے۔ وزیر اعظم استعفیٰ دے تو فوری طورپر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا پڑے گا۔ اس اجلاس کے لئے نئے وزیر اعظم کو منتخب کرنے کا شیڈول، الیکشن کمیشن طے کرے گا۔ آئین میں ایسی کوئی شق ہرگز موجود نہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم استعفیٰ دینے کے بعد کسی اور کو اپنی جگہ ’’نامزد‘‘کردے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد ’’نامزدگی‘‘ نامی چیز کم از کم موجودہ آئین میں سے ہرگز برآمد نہیں کی جاسکتی۔ نیا وزیر اعظم ’’منتخب‘‘ کروانا پڑے گا۔


پیر کے روز نواز شریف مجھے استعفیٰ دیتے ہرگز نظر نہیں آرہے۔ فرض کیا وہ ایسا کر بھی ڈالیں تو چودھری نثار علی خان کو ان کی جگہ لینے کے لئے اس قومی اسمبلی سے ’’منتخب‘‘ ہونا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے پاکستان مسلم لیگ نون کے اراکین کی اکثریت اپنا سربچانے کے لئے چودھری نثار علی خان کو اسی طرح قبول کرلے جیسے پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کو گیلانی صاحب کی نااہلی کے بعد آگے بڑھادیا تھا۔ چودھری نثار علی خان کو ’’مستحکم‘‘ کرنے کے لئے ان کے ایچی سن کالج کے دوست عمران خان بھی دل وجان سے تیار ہوجائیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟۔اس سوال کا جواب سوچنا شروع کیا تو شہباز شریف کی نثار کی جگہ آنے کی گنجائش کم از کم میرے بانجھ ذہن کو تلاش کرنے میں بہت دِقت پیش آرہی ہے۔


حکومتیں ووٹ کی قوت کے بجائے اسلام آباد میں لوگ جمع کرکے اس شہر کو مفلوج بنانے کے ذریعے ہٹانے کی ریت چل نکلی تو پھر کوئی بھی حکومت،خواہ وہ چودھری نثار علی خان ہی کی کیوں نہ ہو، اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پایا کرے گی۔ سیاسی جماعتوں کے پاس ویسے بھی لوگ ہوتے ہیں’’مجاہد‘‘ نہیں۔ ذرا سوچئے وہ دن جب ’’مجاہدوں‘‘نے اسلام آباد کا محاصرہ کرنے کا فیصلہ کرلیا؟