1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. اس کا اعلان لال حویلی کے بقراط کے ذریعے کیوں؟

اس کا اعلان لال حویلی کے بقراط کے ذریعے کیوں؟

پاکستان کا اصل المیہ ان دنوں یہ ہے کہ اس ملک میں سیاست دان نہیں رہے۔ ”جمہوریت“صرف انتخابات کے دوران ووٹ دینے کے حق تک محدود ہوچکی ہے۔ ان ووٹوں کی بنیاد پر جو لوگ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے لئے منتخب ہوجاتے ہیں وہ اپنی سرکار کے لئے ”آئین میں دی 5سالہ مدت“ کو ہر صورت پورا کرنے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔

حزب مخالف کے لئے اس عرصے کے دوران اپنا جلوہ دکھانے کا اصل پلیٹ فارم پارلیمان ہوا کرتی ہے۔ ہماری حکومت مخالف قوتوں کے اصلی تے وڈے ترجمان بنے عمران خان اور ان کی جماعت نے لیکن 2013ء کے بعد قائم ہوئی پارلیمان کو ”دھاندلی زدہ“ قرار دے دیا۔ اسے ”چوروں اور لٹیروں“ کا اجتماع بتایا۔ 14 اگست 2014 کے روز سے 126 دنوں تک اسلام آباد میں دھرنا دئیے ہوئے ”ایمپائر“ کو اُنگلی کھڑی کرنے پر مجبور کیا تاکہ اس پارلیمان سے نجات نصیب ہو۔ وہ اُنگلی کھڑی نہ ہوئی تو بناکسی وضاحت اور شرمساری کے ”چوروں اور لٹیروں“ پر مشتمل اسمبلی میں وہ واپس چلے گئے۔ انتہائی ڈھٹائی سے خود کو ”معزز رکن اسمبلی“ کہلواتے ہوئے اب یہی لوگ اس عہدے سے متعلق مراعات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ماہانہ الاﺅنس لیتے ہیں۔ پارلیمانی لاجز میں ملے صاف ستھرے اور جدید سہولتوں سے آراستہ فلیٹوں میں بازار کے مقابلے میں کہیں سستے دام دے کر کرائے پر رہتے ہیں۔ مختلف شہروں کے دوروں کے لئے قومی اسمبلی کے بجٹ سے ملی ہوائی جہاز کی ٹکٹوں پر سفر کرتے ہیں۔ اکثر اوقات انہیں کسی نہ کسی پارلیمانی وفد میں شامل ہوکر غیر ملکی دوروں کی عیاشی بھی بہم ہوجاتی ہے۔

شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک میرے اور آپ کے ٹیکسوں کی بدولت نصیب ہوئی مراعات کی وجہ سے VIP ہوئے یہ خواتین وحضرات حق وصداقت کے علمبردار بنے نظر آتے ہیں۔ حکومتی کرپشن کے خلاف حال ہی میں بیوہ ہوئی دوشیزہ کی طرح ”ہم لٹ گئے۔ برباد ہوگئے“ والا ماتم برپا کرتے ہیں۔ ٹاک شوز میں شرکت کے بعد ان میں سے اکثر کلاکار اسلام آباد کے ایک پوش سیکٹرF-6/3 میں قائم کوہسار مارکیٹ میں موجود ریستورانوں کی میزوں پر براجمان ہوئے اپنے مداحوں سے دادوصول کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

ایک بار پھر مجھے اصرار کرنے دیجئے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے شخص کو اپنی کارکردگی بنیادی طورپر پارلیمان میں دکھانا ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ہوتو اس کی ہر نشست کا آغاز ”وقفہ سوالات“ سے ہوتا ہے۔ مختلف وزارتوں کی کارکردگی کا ٹھوس اعدادوشمار کی بنیاد پر جائزہ لینے کی سہولت فراہم کرنے والے سوالات اٹھانے کے لئے پورے 60 منٹ وقف ہوتے ہیں۔ مجھے حسرت ہی رہی کہ 2008ء اور 2013ء کے انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے کسی ایک سوال کی وجہ سے مجھے کوئی ”خبر“ ملے۔

1985ء سے 2008ء تک قائم ہوئی قومی اسمبلی کا ہر اجلاس میں نے پریس گیلری میں بیٹھ کر بلاناغہ دیکھا ہے۔ اکثر اوقات وقفہ سوالات کے بعد پریس گیلری رپورٹروں سے خالی ہوجایا کرتی تھی کیونکہ اس وقفے کے دوران اراکین کے اٹھائے سوالات سے خبروں کا انبار جمع ہوجاتا۔ سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ اس میں سے کس خبر کو ”ہیڈلائن“ کے لئے لکھا جائے۔ صرف ایک گھنٹے میں جمع ہوئی معلومات کی چھان پھٹک کر اپنے دفتر تک خبر کی صورت پہنچانے میں کئی گھنٹے صرف ہوجاتے۔

تحاریکِ التواءبھی پارلیمان کا ایک اہم وظیفہ ہے۔ ان کے ذریعے حزب مخالف میں بیٹھے لوگ حکومت کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لئے طے کئے ایجنڈے کو بھول کر قوم کے دلوں میں کسی فوری اور غیر معمولی واقعے کی وجہ سے اُبلتے ہوئے سوالات کا جواب دے۔

اپنے پارلیمانی فرائض سے دست بردار ہوکر ٹی وی سکرینوں کے کلاکار بنے ہمارے ”معزز اراکین اسمبلی“ نے اس سہولت کو بھی شاذہی ذہانت سے استعمال کیا ہے۔ وزیر اعظم کی ”تلاشی“ لینے کے لئے یہ فن کار بلکہ سپریم کورٹ چلے جاتے ہیں جو بہرحال ایک غیر سیاسی فورم ہے۔ اس غیر سیاسی فورم سے جب انہیں اپنی منشاءکے فیصلے نہ ملیں تو اس ملک میں ”طاقت ور کے لئے مختلف قانون“ ہونے کی دہائی مچائی جاتی ہے۔ ”شریفوں کی دولت“ کے تذکرے ہوتے ہیں جن کا اصل مقصد ہم عامیوں کو بہت منافقانہ طریقے سے یہ سوچنے پر مجبور کرنا ہے کہ جیسے خدانخواستہ انصاف دینے والوں کو مبینہ طورپر ”خرید“ لیا گیا ہے۔

میرا دُکھ یہ بھی ہے کہ ہماری سپریم کورٹ نے ایسی دشنام طرازیوں کو برداشت کرنے کی عادت اپنا لی ہے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھا بقراط مثال کے طورپر تواتر کے ساتھ کہے چلاجاتا ہے کہ پانامہ کیس کے اختتام پر ”قانون یا نون میں سے کسی ایک کا جنازہ اُٹھے گا“۔ اس فقرے کی تشریح کے لئے ہمیں کسی مولانا ابوالکلام آزاد کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب ہی نہیں کہ اگر نواز شریف کو پانامہ کی وجہ سے سپریم کورٹ نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے نااہل قرار نہ دیا تو ”قانون کا جنازہ“ اُٹھ جائے گا۔ گلی کے غنڈوں والی زبان کے استعمال کے ذریعے سپریم کورٹ سے اپنی پسند کا فیصلہ لینے کی خاطر کہے ایسے فقروں کا لیکن توہینِ عدالت کے قانون کی روشنی میں جائزہ ہی نہیں لیا جاتا۔

لال حویلی کے بلند آہنگ بقراط کی نقالی میں لیکن اگر کوئی دل جلااپنے ٹویٹر یا فیس بک اکاﺅنٹ پر کوئی ”توہین آمیز“ فقرہ لکھ دے تو ایف آئی اے کے ”انسدادِ دہشت گردی“ والے متحرک ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو ”مادرپدرآزاد“ ہوجانے کے طعنے دئیے جاتے ہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے اپنے دلوں کی بھڑاس نکالنے والے افراد کو ”وطن دشمن“ ٹھہرادیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی اجیرن بنادی جاتی ہے۔ لال حویلی کے بلند آہنگ بقراط کے منہ میں لگام ڈالنے کی لیکن ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی والے شعبے میں بیٹھے کسی پاٹے خان نے کبھی جرات نہیں دکھائی۔

منگل کی شب ہی اس بقراط نے عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں دعویٰ کیا ہے کہ جلد ہی پاک فوج کے5ہزار کے قریب جوان اور افسر سعودی عرب کی ایماءپر بنائے ”اسلامی فوجی اتحاد“ میں شمولیت کے لئے روانہ ہوجائیں گے۔ گزشتہ ہفتے کے آخری دو دن امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے سعودی عرب جاکر مجوزہ اتحاد کی ”منظوری“ دی ہے۔ اس اتحاد کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے 55اسلامی ممالک سے حکمرانوں کو ٹرمپ کا وہ خطاب سننے کے لئے بھی بٹھایا گیا جہاں اس شخص نے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی کرتے ہوئے وائٹ ہاﺅس پہنچا ہے،ہم مسلمانوں کو بتایا کہ اسلام کو اصل خطرہ داعش،اسرائیل یا کشمیر میں جاری بھارتی ظلم وستم سے نہیں بلکہ لبنان کی حزب اللہ،شام کے صدراسد اورایران کی حکومت سے ہے۔ مبینہ خطرے سے نبردآزما ہونے کے لئے ”اعلامیہ ریاض“ میں 34 ہزار نفوس پر مشتمل ایک ریزرو فورس کے قیام کا اعلان بھی ہوا ہے۔ جس میں تمام اسلامی ممالک بقدرجثہ اپنا حصہ ڈالیں گے۔ دفاعی اعتبار سے پاکستان کا جثہ اس ضمن میں ماشاءاللہ کافی توانا ہے۔ مجوزہ ریزرو فورس کے لئے لیکن 5ہزار پاکستانی جوانوں اور افسروں کو اگر بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا ہے تواس کا اعلان لال حویلی کے بقراط کے ذریعے کیوںہورہا ہے؟بقیہ حکومتی اور ریاستی ترجمانوں کے منہ کیوں بند ہیں؟