1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. اسے جامن کھلاﺅ

اسے جامن کھلاﺅ

گزرے جمعے کے روز میں کسی کام کے لئے گھر سے نکلا تو خیال آیا کہ سگریٹ کا پیکٹ اُٹھاکر گاڑی میں رکھنا بھول گیا ہوں۔ فوری طور پر اس دوکان کے سامنے کار روک لی جہاں سے میری بیوی گزشتہ کئی برسوں سے گھر میں استعمال ہونے والی اشیاءخریدتی ہے۔ میری مرحومہ ساس بھی اس دوکان کی مستقل گاہک تھی۔ اس کے مالکان اور وہاں کام کرنے والے اپنے خاندان کا حصہ ہی محسوس ہوتے ہیں۔

کاﺅنٹر پر ایک خوش شکل نوجوان کھڑا تھا۔ اس کی عمر 20 سے 25 سال کے درمیان رہی ہوگی۔ گاہکوں پر توجہ دینے کی بجائے وہ بہت انہماک سے ایک شیلف کے اوپر فکس ہوئی سکرین پر ٹی وی دیکھ رہا تھا جہاں ایک Breaking News چل رہی تھی۔ وفورِجذبات سے اُکھڑی سانسوں کے ساتھ ایک چینل کا بہت ہی مستعد رپورٹر بتارہا تھا کہ SECP کے چیئرمین ظفر حجازی کی ضمانت منسوخ ہوگئی تو موصوف نے ہسپتال جانے پر اصرار کیا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ شوگر کا دائمی مریض ہے اور اس کا مرض 24 گھنٹے نگرانی کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ ”خبر“ سنتے ہی کاﺅنٹر پر کھڑے نوجوان کے چہرے پر سفاک مسکراہٹ پھیل گئی۔ میری موجودگی سے قطعی بے خبر ہوا وہ سکرین کی جانب دیکھتے ہوئے کافی درشت آواز میں پکار اٹھا: ” اسے (یعنی حجازی کو) جامن کھلاﺅ“۔ اپنی دانست میں شوگر سے محفوظ رکھنے کا ”قدرتی نسخہ“ ٹی وی سکرین کے ذریعے رپورٹر کو بتانے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوا۔

دریں اثناءمیری نظر ایک شیلف میں سجائی خوشبو کی بوتلوںپر جم گئی تھی۔ مجھے خوشبوﺅں کے برانڈڈ ناموں سے خاص آشنائی نہیں۔ ایک برانڈ کو دیکھ کر البتہ خیال آیا کہ ایسی ہی ایک بوتل میں نے 2016ء میں نیویارک سے لوٹتے ہوئے ابوظہبی ایئرپورٹ کی ڈیوٹی فری شاپس سے خریدی تھی۔ اسے لگایا تو دو مختلف مواقع پر چند خواتین نے جنہیں مجھ ایسے غریب غُرباََ ”ممی ڈیڈی“ کہہ کر پکارتے ہیں اپنے قریب پاکر اس برانڈ کا نام لیا۔ تصدیق چاہی کہ میں نے وہی خوشبو لگارکھی ہے یا نہیں مجھے برانڈ کا نام معلوم اور یاد نہیں تھا۔ کندھے اچکاکر حقیقت بتادی مگر دل میں طے کرلیا کہ یہ خوشبو اچھی ہے۔ Elite کلاس خواتین کو اس کی پہچان ہے۔ اسے اکثر استعمال کرنا چاہیے اگرچہ معاملہ اپنا ”گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے“ والا ہوچکا ہے۔

خوشبو کے اس برانڈ کا نام بھول جانے کے باوجود مجھے اتنا یاد تھا کہ ڈیوٹی فری شاپ پر بھی اس کی ایک بوتل کی قیمت 130 ڈالر کے قریب تھی۔ اس قیمت کو یاد کرتے ہوئے میں نے کاﺅنٹر پر کھڑے نوجوان سے بے ساختہ پوچھا :”اصلی ہے ؟“ اس نے براہِ راست کوئی جواب دینے کی بجائے خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ جسے مجرمانہ بھی کہا جاسکتا ہے، صرف اتنا کہا کہ ”فرسٹ کاپی“ ہے میں اس کے بیان کردہ استعارے کو سمجھ کر بھی نہ سمجھنے کا بہانہ بناتے ہوئے ذرا درشت لہجے میں پنجابی میں یہ پوچھنے پر مجبور ہوگیا کہ کھل کر بتاﺅ کہ اصلی ہے یا دونمبری واضح جواب اس نے پھر بھی نہیں دیا صرف اتنا کہا کہ ”باﺅجی تہاڈے نال جھوٹ تے نئی بولیا جا سکدا“ مجھے جواب مل گیا۔ صرف سگریٹ خریدکر گاڑی میں واپس آگیا۔

کارچلاتے ہوئے لیکن بہت دیر تک میرے ذہن میں اس کی وہ مسکراہٹ نمودار ہوتی رہی جس کے ساتھ اس نے ظفر حجازی کی شوگر والی کہانی سنانے والے رپورٹر کو ”“ والا مشورہ دیا تھا۔ فلموں، ڈراموں اور اشتہاروں میں ایک Split Screen ہوتی ہے۔

مثال کے طورپر ایک بجھا ہوا چہرہ جو سانولا اور اداس نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مگر وہی چہرہ کوئی کریم وغیرہ لگانے کے بعد بہت چمکدار اور مسکراتا ہوا نظر آرہا ہوتا ہے۔ کسی مخصوص کریم کے کرشمے کو ثابت کرتا ہوا چہرہ۔ جامن کھلانے کا مشورہ دینے والے نوجوان کی مسکراہٹ کے ساتھ ہی مجھے یاد آتی رہی وہ مسکراہٹ جس کے ساتھ اس نے اپنی دوکان پر موجود خوشبو کو ”فرسٹ کاپی“ بتایا تھا۔

شاعرانہ مبالغے کے الزام کی پرواہ کئے بغیر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ مذکورہ نوجوان کی یہ دونوں مسکراہٹیں ہمارے معاشرے پر حاوی تضادات کی بھرپور نمائندہ تھیں۔ اپنی دوکانوں پر ہم مشہور برانڈز کی ”فرسٹ کاپی“ بیچتے ہیں۔ اسی دوکان پر لگائی ٹی وی سکرین پر لیکن جب کرپشن کہانیاں بے نقاب کرتا کوئی رپورٹر اکھڑی سانسوں کے ساتھ بالآخر ”پکڑے گئے“ کسی ملزم کی جیل سے بچنے کے بظاہر حیلوں بہانوں کی داستان سناتا ہے تو ہم زعم پارسائی کے ساتھ ”اُسے جامن کھلاﺅ“ والے مشورے دینا شروع کردیتے ہیں۔

جامن کھلانے کا مشورہ دینے والی مسکراہٹ Sadist مسکراہٹ تھی۔ ”فرسٹ کاپی“ کا اعتراف کرنے والی مسکراہٹ کم از کم احساس ندامت کا اظہار تھی۔ اپنی دونمبری کا اعتراف کرتی ندامت کے ساتھ ہی ہم کسی اور کی دونمبری پکڑے جانے پر بہت حظ محسوس کرتے ہیں۔ شکنجے میں آئے ملزم کی بے بسی اور حیلہ سازی کو سخت گیر تھانے داروں کی طرح نظرانداز کرتے ہوئے اسے عبرت کا نشان بنادیکھنا چاہتے ہیں۔

”فرسٹ کاپی“ بیچنے والے اس معاشرے میں ان دنوں ویسے بھی ”پانامہ“ کا سیزن چل رہا ہے۔ 1980 کی دہائی سے ملکی سیاست پرچھایا نواز شریف اپنے خاندان سمیت ”شکنجے“ میں جکڑا دکھائی دے رہا ہے۔ خلق خدا اس گماں میں مبتلا ہوئی بہت شاداں دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ”پہلی بار“ قانون ”طاقت ور پر بھی لاگو“ ہوتا نظر آرہا ہے۔

مجھ بدنصیب کو لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہی نہیں، جنرل مشرف کے وہ ابتدائی ایام بھی خوب یاد ہیں جب ”احتساب کا عمل“ شروع ہوا تھا۔ جنرل امجد اسے یقینی بنانے پر تلے ہوئے تھے مجھے یاد ہے کہ انہوں نے کئی نامور اور طاقت ور گھرانوں کے چند افراد کو پکڑ کر تھانوں میں بند کردیا تھا۔ وہاں مقید ہوئے ”بدعنوانوں“ سے ملاقاتوں پر پابندی تھی۔ ان کے رشتے داروں کو انہیں دوائیاں وغیرہ پہنچانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

کئی برسوں تک اس ملک میں بہت طاقت ور سمجھے جانے والے غلام اسحاق خان کے ایک داماد بھی جنرل مشرف کے ”احتساب“ کی زد میں آئے تھے۔ غلام اسحاق خان سفارش کرنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں پتھر دل تصور کیا جاتا تھا۔ وہ بھی مگر اس داماد سے اپنی بیٹی اور نواسوں کی ”صرف ایک ملاقات“ کی درخواست کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

چارسدہ کے ولی باغ سے متعلق اعظم ہوتی بھی اٹک جیل کے ایک تہہ خانے میں ڈالے گئے تھے۔ غالباََ مہتاب عباسی اور ایم کیو ایم کے فاروق ستار بھی وہیں موجودہوا کرتے تھے۔ چند ہی دنوں بعد مگر Plea Bargain کی کہانیاں شروع ہوگئیں۔ نواز شریف بھی اپنے خاندان سمیت سعودی عرب بھیج دئیے گئے اس کے بعد ”قاف“ بنی اور زندگی معمول کے مطابق اور رونق بھری نظر آنا شروع ہوگئی۔ ”فرسٹ کاپی“ بیچتے ہوئے بھی ”پکڑے گئے“ فرد کو جامن کھلانے کا مشورہ دینے والے بے حس معاشروں میں ”احتساب“ ہونا ممکن ہی نہیں وقتی شور و غوغا ہے اور جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا ہے: This Too Shall Pass!