1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. جہانگیر بدر سے ’’لاہوت لامکان‘‘ کے سانحہ تک

جہانگیر بدر سے ’’لاہوت لامکان‘‘ کے سانحہ تک

لاہور سے تعلق رکھنے والے میرے کئی صحافی دوستوں کا جہانگیر بدر کے ساتھ یارانہ بہت پرانا اور گہرا تھا۔ مرحوم میری بے تکلفی سے پریشان مگر اس لئے ہوجاتے کہ اندرون دلّی دروازے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ میرے محلے دار بھی تھے۔ سکول بھی ہم دونوں کا ایک تھا۔ اگرچہ وہ بطور طالب علم مجھ سے کئی سال سینئر تھے مگر ہمارے سکول کی کینٹین کے بھائی امین کے چھولے وہ اور میں کبھی بھول نہیں پائے۔

نسبتاََ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوئے بھی تنگ وتاریک گلیوں سے صرف اور صرف سیاسی جدوجہد کے ذریعے ایوان ہائے اقتدار میں اپنی جگہ بنانے والے جہانگیر بدر کی زندگی سے جڑی چند کہانیاں ہیں، جو صرف مجھے معلوم ہیں۔ میری طرح وہ بھی اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ مائوں کا بے پناہ لاڈپیار کچھ چیزوں کا عادی بنادیتا ہے جو تاحیات پیچھا نہیں چھوڑتیں۔

ضد اور بسااوقات احمقانہ ضد،ان عادتوں میں شامل ہے۔ اس ضد کی بدولت ہی جہانگیر بدر نے ’’جئے بھٹو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے جنرل ضیاء کی آمریت کے پہلے سالوں میں اپنی پشت پر کوڑے بہت بہادری کے ساتھ برداشت کئے تھے۔

کٹربائیں بازو والوں نے انہیں ’’نظریاتی‘‘ کبھی شمار نہیں کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی صف اوّل کی قیادت میں سے اکثر لوگ جنرل ضیاء کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتا ری کے بعد عافیت کی تلاش میں تھے۔ جہانگیر بدر لیکن اپنی دیوانگی پر ڈٹا رہا۔ اس کی اصل شان ’’وفاداری بشرطِ استواری‘‘ ہی تھی۔

یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ وطن عزیز میں جاری سیاسی تماشوں سے مکمل طورپر اُکتاجانے کے بعد بھی میں ان لوگوں کی وفات پر تفصیلی باتیں نہیں لکھ پاتا جن سے تعلق یاان کی ذات کے مشاہدے کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ چند روز قبل یاور حیات کا انتقال ہوا۔ میرا ان سے ذاتی تعلق قطعاََ نہیں رہا۔ 70ء کی دہائی میں لیکن لاہور کے پی ٹی وی میں صرف ان کے چرچے ہوا کرتے تھے۔ ٹی وی ڈرامے کے حوالے سے ان کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا۔ ہم اسے ’’یاور سکول آف تھاٹ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ میرا فرض تھا کہ میں اس سکول کے خاص اسلوب سے جڑے تمام تر پہلوئوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا۔ عمران خان کی قلعہ بنی گالہ کی فصیل پر لگائی پش اپس اور پرویز خٹک کی جانب سے اسلام آباد پر ہوئی یلغار نے مگر موقع ہی نہ دیا۔

دریں اثناء اکبر عزیز صاحب کا انتقال بھی ہوگیا۔ وہ جہانگیر بدر اور یاور حیات کی طرح سیاسی یا ثقافتی حوالوں سے معروف شخصیت نہیں تھے۔ تیل کے کاروبار سے متعلق ایک مشہور ملٹی نیشنل کمپنی کے اسلام آباد میں نمائندے تھے۔ بہت خلیق اور مہمان نواز۔ بنیادی شعبہ ان کا تعلقاتِ عامہ تھا۔ اس شعبے سے متعلق لوگوں کی طرح لیکن وہ آپ پر ’’نازل‘‘ نہیں ہوا کرتے تھے۔ چہرے پر مسکراہٹ جمائے بہت وقار کے ساتھ اپنا پیغام دیا کرتے۔

میں 1986 کے دوران ایک غیر معروف مگر محنتی رپورٹر تھا۔ ان دنوں جس ملٹی نیشنل کمپنی کے لئے اکبر عزیز کام کیا کرتے تھے وہ ایک بہت بڑے منصوبے کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہ رہی تھی۔ اس منصوبے کی سخت مخالفت ہوئی۔ مجوزہ منصوبے کی تفصیلات کو جانے بغیر محض جنرل ضیاء کی نفرت میں یہ رپورٹر بھی اس منصوبے کے خلاف لکھنا شروع ہوگیا۔ بجائے مختلف حیلے بہانوں سے مجھے قائل کرنے کے، اکبر صاحب نے میری ملاقات اپنی کمپنی کے سربراہ سے کروادی۔ جنرل ضیاء سے ملاقات کے بعد اس کمپنی کے سربراہ نے اسلام آباد کے 5- ستاری ہوٹل میں مجھے اپنے Suite میں بیٹھ کر ایک تفصیلی انٹرویو دیا۔ ایک غریب ملک کے غیر معروف رپورٹر کے ساتھ یہ ایک غیر معمولی ملاقات تھی۔ یہ انٹرویو بھی اس منصوبے کے مگر کوئی کام نہ آسکا۔ مجھے البتہ ساری عمر کے لئے یہ بات سمجھ آگئی کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آنے سے کیوں کتراتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بن پایا۔ تھر کے ریگستانوں کی تہوں میں چھپے کوئلے کے ذخائر ابھی تک قابلِ استعمال کیوں نہیں ہوپائے۔ ریکوڈیک کا سونا اور تانبا زمین کے اندر ہی کیوں چھپا ہوا ہے اور اب چرچے ہورہے ہیں CPEC کے۔ خدا اسے نظرِ بد سے محفوظ رکھے۔

میرے چند دوست یا شناسا افراد جو اس دنیا میں نہیں رہے اپنی وفات کے بعد اس کالم میں تذکرے کا حق رکھتے ہیں۔ میں یہ حق ادا نہیں کرپاتا کیونکہ ہر روز ہمارے بے حس حکمران کوئی ایسی حرکت کردیتے ہیں جس پر خاموش رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

ہفتے کی شب کراچی سے تقریباََ 250 کلومیٹر دور لسبیلہ اور خضدار کے درمیان واقع ’’لاہوت لامکان‘‘ نامی مقام پر جہاں بلاول شاہ نورانی کا مزار بھی واقع ہے، دہشت گردی کی ایک اندوہناک واردات ہوئی۔ کئی زائرین جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے اس واردات کا نشانہ بنے۔ داعش نے دعویٰ کیا ہے کہ اس جماعت کی ’’ولایتِ خراسان‘‘ کے لوگوں نے یہ حملہ کیا۔ اپنے جانے پہچانے ذرائع کے ذریعے داعش نے مبینہ خودکش کی تصویربھی جاری کردی۔

کوئٹہ سے چند کلومیٹر دورواقع پولیس ٹریننگ اکادمی پر جو وحشت ناک حملہ چند ہفتے قبل ہوا تھا، اس کی ذمہ داری بھی داعش نے اپنے سرلی تھی۔ اس حوالے سے متعلق تخریب کاروں کی تصاویربھی جاری ہوئی تھیں۔ ہماری ریاست مگر بضد ہے کہ داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ ایک کالعدم ’’لشکر جھنگوی(العالمی)‘‘نامی تنظیم کا وجود کسی حد تک تسلیم کیا جارہا ہے۔ پانامہ سے جاری ہوئی ضخیم دستاویزات کا کائیاں منشیوں کی طرح مطالعہ کرنے کے بعد نواز شریف اور ان کے بچوں کو منی لانڈرنگ وغیرہ کا مجرم ٹھہراتے ہم مستعد وبے باک صحافی اپنی ریاست سے مگر اس سوال کا جواب نہیں لے پائے ہیں کہ مبینہ دہشت گردوں کی جو تصاویر داعش نے جاری کی ہیں، ان کا بلوچستان میں حال ہی میں ہوئی وارداتوں سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔

کئی روز سے چینی حکام جو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی جزئیات کے بارے مکمل خاموشی اختیار کرنے کے عادی ہیں، بہت دھیمے اشاروں سے ہمیں بتانا چاہ رہے تھے کہ CPEC صرف مشرقی روٹ کا نام نہیں ہے اس کا ایک مغربی روٹ بھی ہے۔ اپنے اس دعوے کو ٹھوس طریقے سے درست ثابت کرنے کے لئے انہوں نے گلگت سے چند سوکنٹینر گوادر تک پہنچائے۔ ان کنٹینرز کو اتوار کی شب ایک بحری جہاز میں ڈال کر سفر پر روانہ کردیا گیا ہے۔ اس قصے سے جڑی جو تقریب ہوئی اسے مؤخر کرنا مناسب نہ ہوتا۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے لیکن عین اس تقریب کے روز یہ اعلان کردیا کہ ’’لاہوت لامکان‘‘ جاکر روحانی تسکین حاصل کرنے والوں کے لئے اس مقام تک رسائی بند کردی گئی ہے۔ اب اس مقام کے گرد سکیورٹی کا مضبوط حصار اٹھانے کے بعد ہی کوئی رسائی میسر ہوگی۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ایک پیدائشی سردار اور نواب ہیں۔ انہیں ہرگز خبر نہیں کہ ذلتوں کے مارے ہمارے سینکڑوں لوگ اپنے غموں کا مداوامختلف مزارات پر حاضری کے ذریعے کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ عشق کے وجد میں ڈالا دھمال دلوں اور دماغوں میں جمع ہوئے جانے کتنے خوف وغم دور کردیتا ہے۔ نواب ثناء اللہ زہری کو شاید یہ بھی خبر نہیں کہ ’’لامکان‘‘ کا سفر کرنے والے ’لاہوتی‘‘ اپنے سفر کا آغاز سندھ کے سہون شریف سے شروع کرتے ہیں۔ ’’قلندروں‘‘ کا یہ قافلہ سندھ اور بلوچستان کے درمیان موجود 13 مختلف مقامات سے ہوتا ہوا’’لاہوت لامکان‘‘ پہنچتا ہے۔

بلاول شاہ نورانی لہذا کئی حوالوں سے سندھ کو بلوچستان سے جوڑتا ہے۔ اس ’’یکتائی‘‘ کی نفسیاتی گہرائی صدیوں پرانی ہے۔ ’’لاہوت لامکان‘‘ کو سکیورٹی کے نام پرناقابل رسائی بنانے کا فیصلہ اس ’’یکتائی‘‘کی نفی اور توہین ہے۔ میرے وطن کے ہزار ہا بے کس ونادار لوگوں کو روحانی حوالوں سے یتیم بنانے کی ایک قابلِ مذمت حرکت۔

میرے حکمران اپنی نااہلی سے وطن عزیز کے بے کس ولاچار محسوس کرتے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہونے کے بعد ان کے سرپر کھڑی روحانی چھتوں کو مسمار کردیں تو میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اپنے دوستوں اور شناسائوں کا ذکر ان کالموں میں کس دل سے کروں۔ خوف آتا ہے کہیں یہ نہ لکھ ڈالوں کہ اچھا ہوا اس دنیا سے رخصت ہوکر میرے دوستوں اور شناسائوں نے ہمارے بے حس حکمرانوں سے نجات پالی ہے۔