1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. خدا اس ’’تاریخ‘‘ کو برقرار رکھے

خدا اس ’’تاریخ‘‘ کو برقرار رکھے

عمران خان اور ان کے متوالے سمجھ ہی نہیں پارہے کہ ان کی تحریک انصاف کو اگر ’’نیا پاکستان‘‘ بنانا ہے تو کپتان کو پہلے اس ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونا پڑے گا۔ آئینی اعتبار سے پاکستان کا ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کہلاتا وزیر اعظم مگر ہمیشہ بہت کمزور رہا ہے۔ محمد خان جونیجو،بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کو پہلے وردی والے اور بعد ازاں آٹھویں ترمیم کے وقت طاقت ور ہوئے صدور نے ان کی آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے کرپشن وغیرہ کے الزامات لگاکر فارغ کردیا تھا۔

نواز شریف 1997ء میں دوسری بار اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تو اپنے ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کی بدولت 8 ویں ترمیم کو آئین سے باہر نکال دیا۔ ان کا یہ فیصلہ بھی مگر انہیں بچانہ پایا۔ 12اکتوبر1999ء کی رات جنرل مشرف کمانڈو کی وردی پہن کر اس ملک کے چیف ’’ایگزیکٹو‘‘ بن گئے۔ سپریم کورٹ نے موصوف کے اس فیصلے کو ’’جائز‘‘ قرار دیا۔ کمانڈو کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ یہ اختیار ملتے ہی جنرل مشرف اس ملک کے صدربھی ہوگئے اور وزیر اعظم ،قومی اسمبلی کو برطرف کرنے کا اختیار بھی اپنے لئے ہتھیالیا۔

اس اختیار کی بدولت ہی وہ ظفر اللہ جمالی کی جگہ چودھری شجاعت حسین کو چند روز وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھاکر بالآخر شوکت عزیز کو وہاں لانے کے قابل ہوئے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد ’’جمہوری عمل‘‘ کی نام نہاد ’’مکمل بحالی‘‘ کی بدولت صدر کسی وزیر اعظم کو فارغ کرنے کے اختیار سے محروم ہوا تو ارسلان کے ابو کی صورت ہمارے ’’مسیحا‘‘ بنے افتخار چوھری نے یہ اختیار سپریم کورٹ کے لئے چھین لیا۔ یوسف رضا گیلانی فارغ کردئیے گئے۔ ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف نے ہاپنتے کانپتے قومی اسمبلی کی بقیہ مدت پوری کی۔

ارسلان کے ابو کو بحال نواز شریف نے لانگ مارچ کے ذریعے کروایا تھا۔ اسے ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کی قوت بھی چودھری نثار علی خان کی زیر قیادت قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن نے فراہم کی تھی۔ عمران خان ان دنوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تو ہرگز نہیں ہیں۔ عوام میں لیکن وہ بے تحاشہ مقبول ہیں۔ میڈیا کو ان کی ’’صاف گوئی‘‘بہت پسندہے۔ کپتان اپنے Charisma اور جسمانی فٹ نس کی وجہ سے شہر شہر جلسے کرتا ہے۔ اسلام آباد میں 126دن تک پھیلا دھرنا دے سکتا ہے اور حال ہی میں قلعہ بنی گالہ میں محصور ہوکر بھی تحریک انصاف کے قائد نے نواز حکومت کو تقریباََ ایک ہفتے تک تگنی کا ناچ دکھانے پر مجبور رکھا۔

عمران خان کی عوامی مقبولیت کی بدولت ہی نواز شریف ان دنوں سپریم کورٹ کے روبرو ’’تلاشی‘‘ دینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ اس ’’تلاشی‘‘ کی وجہ سے وہ 2016ء کے یوسف رضا گیلانی بنادئیے جائیں گے یا نہیں۔ وزیر اعظم کا عہدہ مگر اس تلاشی کی وجہ سے بے توقیر ہوچکا ہے۔

سچ مچ کی جمہوریتوں میں پارلیمان قوانین بناتی ہے۔ عدالتیں ان قوانین کا اطلاق یقینی بناتی ہیں۔

پاکستان کی موجودہ پارلیمان میں نواز مخالف سیاستدانوں کی ایک مؤثر تعداد موجود ہیں۔ سینیٹ یعنی ایوانِ بالا میں اسے قانون سازی کے لئے حکومت سے زیادہ اراکین کی حمایت میسر ہوسکتی ہے۔ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ہو تو وہاں اپوزیشن کا پلہ ہمیشہ بھاری رہتا ہے۔ پارلیمان میں ایسی مؤثر قوت کے ہوتے ہوئے بھی عمران خان کی جماعت نے سپریم کورٹ کو پانامہ دستاویزات کی بدولت اُٹھے شور کی وجہ سے وزیر اعظم کی ’’تلاشی‘‘ لینے پر آمادہ کرلیا۔ یہ تلاشی کونسے ضوابط TORs کے تحت ہوگی اس کا فیصلہ بھی پارلیمان نہیں بلکہ سپریم کورٹ کرے گی۔

اپنا بنیادی حق اور فرض-قانون سازی-سپریم کورٹ کو غلامانہ انداز میں سونپ دینے کے بعد بھی تحریک انصاف کو چین نہیں آیا۔ نیا مطالبہ یہ کردیا گیا ہے کہ نام نہاد ’’ڈان لیکس‘‘ کی تحقیقات جسٹس عامررضا خان (ریٹائرڈ) کی سربراہی میں بنایا ہوا کمیشن نہ کرے۔ اس کمیشن کے قیام کا اختیار بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سپرد کردیا جائے۔ وزیر اعظم کی ’’ڈان لیکس‘‘ کے حوالے سے ایک اور ’’تلاشی‘‘ کو صرف سپریم کورٹ کے ہاتھوں سے کروانے کے لئے عامر رضا خان کے کردار پر بھی گنداُچھالنا شروع کردیا گیا ہے۔

وہ کمیشن جس کی سربراہی عامر رضا خان نے کرنا ہے چودھری نثار علی خان نے ایک ماہ کی مشاورت کے بعد قائم کروایا ہے۔ اس مشاورت کے لئے وہ وزیر اعظم ،پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور آرمی چیف کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ عسکری قیادت سے وابستہ قومی سلامتی کے معاملات پر نگاہ رکھنے والے دو اداروں کے نمائندے بھی مجوزہ کمیشن کے رکن ہوں گے۔ ان اراکین کو یقینا عسکری قیادت کی رضا مندی اور مشاورت ہی سے اس کمیشن کا رکن بنایا جاسکتا ہے۔

عمران خان اور ان کی تحریک انصاف مگر مطمئن نہیں ہوئے۔ اپنے ترجمان -نعیم الحق- کے ذریعے بیان دلوادیا ہے کہ عامر رضا خان مسلم لیگ نواز کے چہیتے ہیں۔’’ڈان لیکس‘‘ کے ذمہ دار ویسے بھی نعیم الحق کی نظر میں کوئی اور نہیں بلکہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی ہیں۔ اب ان دونوں کی اس ضمن میں بھی ’’تلاشی‘‘ مقصود ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس تلاشی پر بھی آمادہ کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔

مجھے خبر نہیں کہ سپریم کورٹ اس تلاشی پر بھی آمادہ ہوگی یا نہیں۔ امکانات مگر اپنی جگہ موجود ہیں۔ عمران خان کے جلسے، دھرنے اور قلعہ بنی گالہ میں بنی فصیل پر پش اپس کے ذریعے اپنی ہر بات اس ملک کے ہر ادارے سے منواہی لیتے ہیں۔ کیا خبر یہ مطالبہ بھی بالآخر ’’فروعی‘‘ نہ ٹھہرے اور پانامہ سکینڈل کے ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ ’’ڈان لیکس‘‘ کا معاملہ بھی اپنے ہاتھ لینے پر تیار ہوجائے۔

میرے جلے ہوئے دل کی اپنے ربّ سے فریاد ہے کہ ’’ڈان لیکس‘‘ کے ضمن میں بھی عمران خان اور ان کی تحریک انصاف اپنا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوجائیں۔ نواز شریف نے لانگ مارچ کے ذریعے ارسلان کے ابو کو بحال کروایا تو موصوف نے ایک وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا تھا۔ کالاکوٹ پہن کر انہی نواز شریف نے ’’میموگیٹ‘‘ کے حوالے سے آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو زچ کردیا تھا۔ عمران خان اب ان کی ذات اور حکومت کے ساتھ وہی کچھ کررہے ہیں جو نواز شریف نے پارلیمان سے بالاتر قوتوں کو ایک منتخب حکومت کی زندگی عذاب بنانے کے لئے کیا تھا۔ Precedents Set ہوچکے ہیں۔ تاریخی مثالیں اور نظیر۔ خدااس ’’تاریخ‘‘ کو برقرار رکھے۔

عمران خان مگر اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوکر ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے سفر پر روانہ ہوں گے تو ’’پرانے پاکستان‘‘ کی سپریم کورٹ تو اپنی جگہ موجود ہوگی۔ اس سپریم کورٹ کے ذریعے عمران خان کو ’’نتھ‘‘ ڈالنے کا طریقہ کار بھی لیکن ایجاد ہوچکا ہے۔ اس طریقے کا مستقل استعمال اسے مزید مضبوط بنادے گا۔ اس ملک کا سب سے کمزور اور ہمہ وقت قابلِ تذلیل عہدہ بالآخر پاکستان کا وزیر اعظم ہونا رہ جائے گا۔جانے کیوں اس عہدے کو اتنا رسوا کرنے کے بعد بھی کپتان اس ملک کے وزیر اعظم ہونے کے خواہش مند ہوں گے۔