1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. خدا خیر کرے

خدا خیر کرے




نواز شریف کے موجودہ وزیروں اور مشیروں میں سے صرف سرتاج عزیز صاحب اس کابینہ کے رکن تھے جو محمد خان جونیجو مرحوم نے 1985ء میں وزیر اعظم نامزد ہونے کے بعد بنائی تھی۔


جونیجو صاحب کی سیاسی قوت کا ماخذ ایک ایسی قومی اسمبلی تھی جسے ’’غیرجماعتی‘‘ انتخابات کے ذریعے معروضِ وجود میں لایا گیا تھا۔وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد ہوتے ہی لیکن جونیجو صاحب نے اعلان کردیا کہ مارشل لاء اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔آئین کو مکمل طورپر بحال کرنا ہوگا۔اس آئین میں دئیے بنیادی انسانی حقوق کا احترام بھی لازمی ہے اور پارلیمانی نظام، سیاسی جماعتیں منظم کئے بغیر چلایا ہی نہیں جاسکتا۔ظاہر ہے اس ضمن میں ان کی ترجیح پاکستان مسلم لیگ ہی تھی جس کی اسمبلی میں بحالی کے بعد وہ اس کے صدر منتخب ہوگئے تھے۔


آئین کی بحالی نے 10 اپریل 1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹنے کی راہ ہموار کی۔لندن سے لاہور ایئرپورٹ اُترنے کے بعد وہ پنجاب، اس وقت کے صوبہ سرحد اور سندھ کے تقریباََ تمام شہروں اور قصبوں میں عوامی رابطہ مہم میں مصروف ہوگئیں۔ہر جگہ ان کا استقبال ’’تاریخی‘‘ ٹھہرایا گیا۔جن اجتماعات سے انہوں نے خطاب کیا وہاں حاضرین کا جوش وجذبہ بھی دیدنی تھا۔سب سے حیران کن بات ان اجتماعات میں نوجوانوں اور خواتین کارکنان کی شرکت تھی۔جونیجو حکومت کے بارے میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوگئی۔محمد خان جونیجو اور ان کے وزراء مگر سرجھکائے اپنے کام میں مصروف رہے۔اپنی ’’عوامی قوت‘‘ دکھانے کے لئے البتہ انہوں نے 14 اگست 1986ء کے روز مینارِپاکستان کے سائے تلے ایک جلسے کا اعلان کردیا۔


محترمہ بے نظیر بھٹو کے جیالوں کو یقین تھا کہ 14 اگست 1986ء ہی کے دن، لاہور کے تاریخی موچی دروازے کے باہر ایک جلسے کے انعقاد کے ذریعے وہ جونیجو حکومت کے ’’کھوکھلے پن‘‘کو ’’بے نقاب‘‘ کرسکتے ہیں۔اس جلسے کے انعقاد کا اعلان بھی کردیا گیا۔


اسلام آباد کے ایوان ہائے اقتدار میں تھرتھلی مچ گی۔وہاں موجود ہر دوسرا شخص اس فکر میں گھلتا نظر آیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے وزیروں اور مشیروں کی مدد سے بسوں میں بھرکر مینارِ پاکستان آئے لوگ، پیپلز پارٹی کے ’’عوامی اجتماع‘‘ کے مقابلے میں نہ صرف تعداد میں انتہائی کم بلکہ ’’کرائے پر لایا ہجوم‘‘ نظر آئیں گے۔اس بات کے بھی ٹھوس امکانات موجود تھے کہ مینارِ پاکستان کے جلسے کے لئے جانے والی بسوں کو پیپلز پارٹی کے جیالے روکنے کی کوشش کریں گے۔حکمران جماعت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے جیالوں کے درمیان اس کی وجہ سے فسادات بھی پھوٹ پڑیں گے۔


ان تمام امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جونیجو مرحوم کے چند وفادار وزراء نے مشورہ دیا کہ ان کے وزیر اعظم مینارِ پاکستان تلے جلسے کا فیصلہ واپس لے لیں۔اس بات کے بارے میں وہ البتہ یکسو نہیں تھے کہ اپنا جلسہ منسوخ کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کو لاہور میں 14 اگست 1986ء ہی کے دن موچی دروازے میں جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔حتمی فیصلہ کرنے کے لئے کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کرلیا گیا۔اس اجلاس کے دوران جونیجو صاحب کے وفادار وزیروں نے یک زبان ہوکر سرکاری جلسے کی منسوخی پر اصرار کیا۔


اس وقت کے DG ISI،جنرل اختر عبدالرحمن، بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔کابینہ کے وزراء افغانستان میں سوویت یونین کو ناکوں چنے چبوانے والے اس جنرل کی قوت، ذہانت اور فطانت سے بہت مرعوب تھے۔جنرل صاحب نے ’’سیاسی وزرائ‘‘ کو ’’بکری‘‘ بنتے دیکھا تو تلملا اُٹھے۔میز پر گھونسے مارتے ہوئے بلند آواز کے ساتھ وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ 14 اگست 1986ء کے دن لاہور میں اپنے جلسے کو منسوخ کرنے کے بعد جونیجو مرحوم،خلق خدا کے سامنے محترمہ بے نظیر بھٹو کی عوامی قوت سے ہارے ہوئے نظر آئیں گے۔ان کی حکومت کی ساکھ اس فیصلے کے بعد ہوا میں تحلیل ہونا شروع ہوجائے گی۔اس کا وقار رُعب ودبدبہ برقرار نہ رہ پائے گا۔


جنرل اختر عبدالرحمن نے جب وزیر اعظم کو اپنے اعلان کردہ جلسے کے پروگرام پر ہر صورت عمل کرنے پر زور دیا تو وزراء کی اکثریت کنفیوژ ہوگئی۔انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جونیجو صاحب کی حمایت میں کیا دلائل پیش کریں۔ان کی خاموشی نے کابینہ کے اس اجلاس میں موجود اس وقت کے سیکرٹری داخلہ سید خالد محمود کو اپنی زبان کھولنے پر مجبور کردیا۔


سید خالد محمود ایک دبنگ سرکاری افسر تھے۔جھنگ اور ملتان کے گدی نشین خانوادوں سے ان کی رشتے داریاں تھیں۔گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی تھی۔ان کا اپنا خاندان بھی کئی برس سے اس شہر میں مقیم تھا۔وہ ایک خالص DMG افسر تھے۔جبلی طورپر صاحب مارکہ۔دوستوں میں انہیں SK کہا جاتا تھا۔اپنے قریب ترین دوستوں کے ساتھ بھی وہ شاذہی گپ بازی کیا کرتے۔خاموشی سے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سمیت محض ان کی باتیں سنتے۔کوئی بات یادلیل اگر انہیں پسند نہ ہوتی تو بلند آواز مگر انتہائی مختصر فقرے کے ساتھ اسے رد کردیتے۔


کابینہ کے اس اجلاس میں جنرل اختر عبدالرحمن کی طولانی تقریر کے بعد چھائی خاموشی کو توڑتے ہوئے SK نے جونیجو مرحوم کوانگریزی میں براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیر اعظم صاحب، DG ISI آپ کو 14 اگست کا جلسہ منعقد کرنے پر مجبور اس لئے کررہے ہیں کہ انہیں خوب علم ہے کہ اس روز آپ کی جماعت اور پیپلزپارٹی کے کارکنان کے درمیان تصادم یقینی ہے۔یہ تصادم ہوا تو حسبِ روایت نام نہاد خانہ جنگی روکنے کے نام پر جنرل صاحبان دوبارہ مارشل لاء نافذ کردیں گے‘‘۔


یہ فقرہ کہنے کے بعد SK خاموش ہوگئے۔جنرل اختر عبدالرحمن نے جوابی تقریر کرنا چاہی تو جونیجو مرحوم نے انہیں روک دیا۔وزیر اعظم کے خیال میں کابینہ کااجلاس طویل اور بحث کافی ہوچکی تھی۔اب فیصلے کی گھڑی تھی۔فیصلہ جونیجو مرحوم کا یہ تھا کہ اپنے جلسے کی منسوخی کا اعلان وہ ٹیلی وژن کے ذریعے قوم سے براہِ راست خطاب کی صورت کریں گے۔اس فیصلے کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی سے درخواست کی جائے گی کہ وہ بھی لاہور میں 14 اگست 1986ء کے دن موچی دروازے میں اپنے جلسے کا فیصلہ واپس لے لے۔اس درخواست کے باوجود پیپلز پارٹی اپنا جلسہ منعقد کرنے پر بضد رہی تو پوری ریاستی قوت کے ساتھ اس کا انعقاد ہر صورت روکا جائے گا۔


وزیر اعظم نے مجوزہ تقریر کرڈالی۔پیپلزپارٹی اس کے باوجود اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی۔موچی دروازے کے باہر آنسو گیس چلی۔فائرنگ بھی کرنا پڑی جس کے نتیجے میں چار کارکنان جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔دُنیا پر ثابت ہوگیا کہ جلسے اور جلوسوں کا ہلہ گُلہ منظم ریاستی قوت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔جونیجوحکومت مستحکم ہوگئی۔اسے بالآخر پیپلز پارٹی سے نہیں جنرل ضیاء الحق نے مئی 1988ء میں فارغ کیا کیونکہ فوجی آمر اپنے ہی نامزد کئے وزیر اعظم کی سیاسی قوت اور خود مختاری کو برداشت نہیں کرپارہا تھا۔


1986ء سے ہم 2016ء تک پہنچ چکے ہیں۔نومبر کے پہلے ہفتے میں عمران خان اور ان کی جماعت نے اسلام آباد کی تالہ بندی کرکے نواز شریف سے استعفیٰ لینے کا اعلان کررکھا ہے۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ اس تالہ بندی سے نواز حکومت کیسے نبردآزما ہونا چاہ رہی ہے۔ایک بات کا البتہ مجھے یقین ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کے پاس SK جیسا کوئی دبنگ اور کھرا افسر ہرگز موجود نہیں ہے۔شہباز صاب کے سدھائے Yes Sir - Yes Sir والے نمونے ہیں۔۔