1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. مادر پد ر آزاد میڈیا کا مکو ٹھپنے کی تیاری

مادر پد ر آزاد میڈیا کا مکو ٹھپنے کی تیاری

واقعات میرے پاس بہت ہیں ان سب کو ذرا توجہ اور سلیقے سے بیان کیا جائے تو آپ میری پریشانی کو زیادہ آسانی سے سمجھ لیں گے۔ تفصیلات میں لیکن اُلجھ گیا تو چسکہ فروشی ہو جائے گی۔ غیبت گوئی کی طرف بہک گیا تو اپنی مشکل سمجھا نہ پاﺅں گا اصل موضوع پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔

صحافت میرا پیشہ نہیں عشق ہے، رپورٹنگ میری دانست میں اس شعبے کا اہم ترین فریضہ ہے اس کے ذریعے خلقِ خدا کو وہ حقائق معلوم ہوجاتے ہیں جسے ہر نوع کی اشرافیہ چھپاکر رکھنا چاہتی ہے۔

غلامی کی کئی صدیوں کے بعد 1947ء میں قائم ہوئی ریاستِ پاکستان کو لیکن روز اوّل سے اپنی بقاءکی فکر لاحق ہوگئی تھی اس فکر کے تدارک کے لئے دفاعی امور کو ”حساس“ بنادیا گیا رپورٹروں کے لئے یہ نوگوایریا ہوگئے۔ کشمیر کا قضیہ شروع ہوا تو لاہور سے شائع ہونے والے انگریزی کے ایک قدیم اورمعروف روزنامے”سول اینڈ ملٹری گزٹ“ میں ایک خبر چھپی اس خبر کو ”قومی سلامتی“ کے منافی سمجھا گیا۔ اخبار کو سزا دینے کا فیصلہ ہوا۔ حکمران مگر ”سول اینڈ ملٹری گزٹ“ کی ساکھ سے گھبرائے ہوئے تھے ریاست کی آسانی کے لئے پاکستان کے تمام اخبارات نے باہمی اختلافات اور معاصرانہ چشمک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مشترکہ اداریہ تیار کیا۔ اس اداریے کو سب اخبارات نے مل کر صفحہ اوّل پر چھاپا۔”سول اینڈ ملٹری گزٹ“ بند ہوکر تاریخ کے کچرا دان کی نذر ہوگیا۔ کشمیر کا مسئلہ مگر آج تک حل نہیں ہوپایا۔

قومی سلامتی کی ”حساسیت“ کے قائل ہوئے پاکستانی اخبار نویسو ں نے 1970ء میں پاکستان کی تاریخ میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلی بار ہوئے انتخابات کے بعد حقائق کو مکمل طورپر بیان نہیں کیا۔ مرحوم مشرقی پاکستان میں ہم ”محبت کے زمزم“ بہتے ہوئے دکھاتے رہے۔ ہم نے پاکستانیوں کو اس گماں میں مبتلا رکھا کہ چین جو اپنا یار ہے اور جس پر جان بھی نثار ہے بھارت کے ہاتھوں ہمیں دولخت نہیں ہونے دے گا۔ اصغر خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں جو وفود ان دنوں چین گئے تھے انہیں اس وقت کی قیادت نے کھل کربتادیا تھا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں وہ پاکستان کی خاطر خواہ مدد کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہیں پاکستانیوں سے مگر چین میں ہوئی یہ باتیں چھپائی گئیں سقوطِ ڈھاکہ ہوگیا۔

ہمیں یہ گماں بھی تھا کہ پاکستان کو حتمی شکست سے بچانے کے لئے امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ خلیج بنگال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یحییٰ خان نے ڈاکٹر کسنجر کو راولپنڈی سے خفیہ طورپر چین بھجوایا تھا۔ موصوف کے اس دورے نے صدر نکسن کو کمیونسٹ دنیا کے اہم ترین ستون ”چین“ کو سوویت یونین سے جدا ہونے میں آسانیاں فراہم کیں اس ”تاریخی“ عمل کے سہولت کار ہونے کی وجہ سے ہم نکسن کے بہت لاڈلے بن گئے تھے۔ ہمیں اُمید تھی کہ احسان مندی کے بوجھ تلے دبا نکسن پاکستان کو متحد رکھنے کے لئے آخری حد تک جائے گا ایسا مگر ہرگز نہیں ہوا۔ برطانیہ اور امریکہ نے 1971ء کے سانحے سے متعلق تمام دستاویزات کواب Declassify کردیا۔ ہم میں سے اکثر نے ان دستاویزات کو دیکھنے کا تردد تک نہیں کیا۔ تاریخ سے سیکھنے کی ہمیں عادت ہی نہیں۔

1978ء سے افغانستان میں مسلسل خوں ریزی ہورہی ہے۔ پاکستان کا کردار اس ملک کے معاملات میں کلیدی ہے ہمارے تعاون سے امریکہ اور اس کے حواریوں نے وہاں مقیم سوویت افواج کو مکمل طورپر زچ کردیا۔ کمیونسٹ فوج کی یہ شکست سوویت یونین کی تحلیل کا حتمی سبب ہوئی اس کے باوجود اب تک نہ تو افغانستان میں امن قائم ہوا اور نہ ہی پاکستان اس امن کی بدولت اپنے اہداف حاصل کرپایا۔ طالبان کی مدد سے ہم نے یہ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی تو نائن الیون ہوگیا۔ امریکہ نے اس کا بدلہ افغانوں سے لینے کا فیصلہ کیا جنرل مشرف کی حکومت نے ایک بار پھر ہمیں امریکہ کا مدد گار بنادیا گیا۔ اربوں ڈالر کے زیاں اور ہزاروں جانوں کی قربانی کے باوجود امریکہ ابھی تک افغانستان میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرپایا ہے۔ اپنی ناکامی کا ذمہ دار لیکن وہ پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ ہم سے Do More کے تقاضوں کے بعد اب پاکستان پر Double Game کے الزامات تواتر کے ساتھ لگائے جارہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جس جنرل کو امور قومی سلامتی کے بارے میں اپنا مشیر بنانے کا فیصلہ کیا ہے وہ امریکہ کی ملٹری انٹیلی جنس کاسربراہ ہوتے ہوئے Double Game کی داستان پھیلانے والوں کا سرغنہ تھا۔ ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس میں اس ریٹائرڈ جنرل کی موجودگی ہمارے لئے مستقل فکر کا باعث بنی رہے گی۔ افغانستان سے جڑی ہماری مشکلات سے لیکن پاکستانی عوام کی اکثریت قطعاََ لاعلم رکھی گئی ہے قومی سلامتی کے بارے میں اپنائی روایتی ”حساسیت“ ہماری لاعلمی کا اصل سبب ہے۔

بھارت روزاوّل سے ہمارا دشمن ہے مودی کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے اپنے عزائم کو وہ کھل کر بیان کرنا بھی شروع ہوگیا ہے بات اب فقط بڑھک بازی تک محدود نہیں رہی پاکستان میں تخریب کاری کی پشت پناہی کے ساتھ ہی ساتھ بہت مہارت سے دنیا کے طاقت ور ممالک کے سامنے ایک بیانیہ رکھا گیا یہ بیانہ امریکہ میں ہمیں Double Game کے طعنے دینے والوں میں کافی مقبول ہو رہا ہے۔ مودی اور ٹرمپ کے مابین پاکستان کے خلاف یکجا ہوکر مخاصمانہ اقدامات اٹھانے کے امکانات ٹھوس ترہورہے ہیں۔

ہمارے میڈیا میں لیکن ہماری سلامتی، بقاءاور خوش حالی سے جڑے ان سوالات پر ہرگز کوئی بحث نہیں ہو رہی صحت مندانہ بحث کے لئے حقائق تک رسائی ضروری ہے۔ یہ رسائی مگر ناممکن بنادی گئی ہے۔ پرویز رشید کی قربانی کے بعد اہم ریاستی عہدوں پر فائز کوئی ایک شخص بھی متجسس مشہور ہوئے کسی ایک صحافی سے روایتی سلام دُعا کے لئے بھی میسر نہیں ہوگا۔ حقائق کا بیان تو بہت دور کی بات ہے۔

خود کو ”سب پربالادست“ کہتی پارلیمان میں بیٹھے سیاست دانوں کا فرض تھا کہ وہ ”ان کیمرہ“ اجلاسوں اور پارلیمان کی دفاعی اور خارجہ امور سے متعلق کمیٹیوں میں تھوڑی تحقیق کے بعد اٹھائے سوالات کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ ہمارے سیاستدانوں کو مگر ”پانامہ“ ہوگیا ہے۔ اس کا علاج بھی سپریم کورٹ سے حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سپریم کورٹ کو تسلی بخش اقدامات اٹھانے کے لئے وقت درکار ہے۔ میڈیا میں لگی عدالتوں نے لیکن ”فیصلہ“سناڈالا ہے تحقیق وتفتیش پر توجہ دینے کی بجائے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو اب اپنی ساکھ بچانے کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ میڈیا پر رونق تو خوب لگی ہے مگر ملک میں ہیجان ہے۔ افراتفری ہے ڈنگ ٹپاﺅ چل چلاﺅ والا ماحول جہاں ثبات ایک سراب محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے۔

ٹھوس حوالوں کی بدولت میں خوب جان چکا ہوں کہ ہمارے ملک کی ہر نوع کی اشرافیہ نے بالآخر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ پاکستان میں چل چلاﺅ والا ہیجان پیداکرنے کا صرف اور صرف ذمہ دار اس ملک کا ”مادرپدرآزاد“ میڈیا ہے۔ نام نہاد”ڈان لیکس“ کے بارے میں مچائے شور کی بدولت میڈیا کو نکیل ڈالنے کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ قومی سلامتی سے جڑی ”حساسیت“ کی تسکین کے بعد ہر صورت نشانہ بنیں گے وہ ”بے باک اور جی دار“ صحافی جو ”مودی کے یار“ کو ہر شب گھر بھیج کر اطمینان کی نیند سوتے ہیں۔

پرویز رشید کی قربانی دینے کے بعد نواز حکومت ”حساس معاملات“ سے چھیڑچھاڑ کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنانے پر تلی بیٹھی ہے۔”ان“ کی تسلی کے بعد رُخ ہوگا ان حق گو خواتین وحضرات کی جانب جو شام سات بجے سے ات 12 بجے تک صرف سیاست دانوں کی بھداُڑانے میں مصروف رہتے ہیں۔ کسی اور معاملہ پر نہ سہی مگر ”مادر پدرآزاد“ میڈیا کامکوٹھپنے کے لئے عسکری اور سیاسی قیادت اب یقینا ایک پیج پر آچکے ہیں۔