1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. مگر ہم ڈھیٹ لوگ ہیں

مگر ہم ڈھیٹ لوگ ہیں

جھوٹ بولنا اور اس پر انتہائی ڈھٹائی سے ڈٹے رہنا کوئی ہم سے سیکھے۔ اصل حقیقت کی سب کو خبر ہے۔ 2008ء سے مگر اصرار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ایک منتخب پارلیمان ہوتی ہے۔ عوامی تائید سے قائم ہوئی ایک حکومت بھی ہے۔ ریاستِ پاکستان کے سب ادارے اس پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ہر نوعیت کی قومی پالیسیاں”صرف“ اس پارلیمان کے سامنے جوابدہ وزیراعظم اور اس کی کابینہ بتاتے ہیں۔ ریاستی طاقت کا اصل ماخذ مگر ہے کہاں؟ ہم خوب جانتے ہیں۔ یہ ماخذاگرچہ 2008ء کے بعد سے زیادہ تر کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتا نظر آتا رہا۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر بہت تکرار کے ساتھ اصرار کرتے رہے کہ اس ماخذ سے متعلق لوگوں نے سَتو پی رکھے ہیں۔ موصوف کو کبھی سمجھ ہی نہیں آئی کہ ماخذ کو انگریزی والا Chill کرنے کے لئے ان دنوں ایک شخص ہی کافی تھا۔

نام اس شخض کا افتخار چودھری تھا۔ کوٹہ سسٹم کی برکتوں سے بلوچستان کے ڈومیسائل کی بدولت خالی جگہیں پُر کرتا یہ شخص نواب اکبر بگتی کی مدد سے عدالتی اشرافیہ کا حصہ بنا تھا۔ بالآخر سپریم کورٹ پہنچ گیا اور بعد ازاں ہمارا چیف جسٹس۔ یہ شخص اس بنچ میں شامل تھا جس نے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو آئینی قرار دیا۔ فوجی آمر کو یہ سہولت بھی فراہم کی کہ وہ قومی مفاد میں ہمارے آئین کو، جسے بہت جانفشانی اور آدھا ملک گنوانے کے بعد 1973ء میں حتمی شکل دی گئی تھی، معطل رکھے۔ اس دوران نام نہاد Grass-Roots Democracy کے ذریعے بلدیاتی اداروں میں پڑھے لکھے اور صاف ستھرے لوگ لائے۔ یہ لوگ جب بلدیاتی اداروں کی نرسری سے سیاست کا چلن سیکھ لیں تو آئین بحال کر دیا جائے۔ اس بحالی سے قبل مگر اس آئین میں وہ سب کچھ بدل دیا جائے جو عوام کے منتخب مگر ”بدعنوان اور نااہل“ سیاستدانوں کو اپنی اوقات سے باہر نکلنے پر اُکساتا رہتا ہے۔

عدالت کے اس فیصلے کی بدولت پاکستانی جمہوریت اپنی ترکیب میں بہت ہی ”خاص“ ہو گئی۔ صدر اس کا ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعے جنرل مشرف بن گیا۔ اسے فوجی وردی سمیت صدارت کا اعزاز بھی بخش دیا گیا۔ اس کی صدارت پکی ہو گئی تو ایک قومی اسمبلی بھی تشکیل دے دی گئی۔ اس اسمبلی کے لئے ہوئے انتخابات کو ایک ”باضمیر“ جرنیل نے اس انداز سے ترتیب دیا کہ جاہل، گنوار اور بدعنوان سیاست دان انتخاب میں حصہ لینے کی جرات دکھانے کے باوجود ہار گئے۔

بلوچستان سے ایک جی حضوری- ظفر اللہ جمالی- کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ وہ صبح دیر سے اُٹھ کر اپنے گھر اور دفتر میں دوستوں سے گپ شپ لگاتا رہتا۔ معیشت سے جڑے فیصلے امریکہ سے درآمد کئے ایک بینکر کے حوالے رہے۔ دفاعی اور خارجہ امور پر قطعی کنٹرول جنرل مشرف کے ہاتھ رہا۔ موصوف دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت ہونے کے دعوے دار ملک امریکہ کے صدر بش کے Tight Buddy بن گئے۔ افغانستان پر مسلط ہوئی War on Terror میں حصہ دار ہوئے۔ یہ حصہ داری ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ کو ہمارا خیال رکھنے پر مجبور کرتی رہی۔ کافی رونق لگ گئی۔

فرصتِ راحت کے اس موسم میں وہ لوگ جنہیں ریاست نے بڑی محنت کے ساتھ افغانستان کو سوویت یونین سے جہاد کے ذریعے آزاد کروانے کے لئے تیار کیا تھا، اپنے خالقوں سے ناراض ہو گئے۔ خودکش حملوں کا آغاز ہوا۔ سوات ملا ریڈیو کا ہو گیا۔ قبائلی علاقے طالبان کی گرفت میں چلے گئے۔ ستمبر 2006ءمیں امریکہ نے بھی دریافت کرلیا کہ Buddy ان کے ساتھ ہاتھ کرگیا ہے۔ ڈبل گیم کے طعنے دئیے گئے۔ ڈومور کے تقاضے۔

ایسے میں افتخار چودھری نے ”انکار“ کر دیا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک چلی۔ مشرف کے پاﺅں اکھڑ گئے۔ نئے انتخابات ہوئے۔ ان کی بدولت مشرف کو استعفیٰ دینا پڑا۔ افتخار چودھری اور اس کے چاہنے والوں کا مگر اصرار رہا کہ جمہوریت صرف اس کے ”انکار“ کی بدولت بحال ہوئی ہے۔ افتخار چودھری اگرچہ اپنے عہدے پر بحال نہیں ہوا تھا۔ بالآخر نواز شریف نے ایک لانگ مارچ کے ذریعے اسے بحال کروایا۔ اس لانگ مارچ نے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ اور ان دنوں کے آرمی چیف کوافتخار چودھری کی بحالی پر قائل کیا۔

ہیلری کلنٹن اور جنرل کیانی کی معاونت سے بحال ہوا افتخار چودھری جب اپنے عہدے پر واپس آیا تو اپنی بحالی کی راہ میں رکاوٹ بنی پیپلز پارٹی کی حکومت کے ہاتھ دھوکر پیچھے پڑ گیا۔ وزراء اور اعلیٰ ترین سرکاری افسران بجائے ریاستی امور نمٹانے کے ہر صبح اس کے روبرو حاضر ہوتے۔ قوم ہماری مطمئن ہوگئی۔ جج کی صورت اسے مسیحا مل گیا۔ اس مسیحا نے ایک وزیراعظم کو توہین عدالت کا الزام لگا کر فارغ کر دیا۔ اسی فراغت کا بندوبست کرنے کے لئے جو فیصلہ لکھا گیا اس میں ”حیف ہے اس قوم پر“ کی تکرار رہی۔ پیپلز پارٹی کی اندھی نفرت میں مبتلا ہم جیسے دیوانے سمجھ ہی نہ پائے کہ ”حیف ہے اس قوم پر“ دراصل اس بات کا اثبات تھا کہ ہماری قوم ابھی اپنے رہبروں کی پہچان کرنے کے قابل نہیں ہوئی۔ یہ جن لوگوں کو منتخب کرتی ہے انہیں مسلسل نگہبانی کی ضرورت ہے۔ افتخار چودھری وہ نگہبان ٹھہرا۔ ”سب پربالادست پارلیمان“ بے دست و پا ہو کر رہ گئی۔

نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں بھی پارلیمان کا وہی حال ہے جو ظفر اللہ جمالی، چودھری شجاعت، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دنوں میں ہوا کرتا تھا۔ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیراعظم نے اس پارلیمان کی وقعت بحال کرنے کی ہرگزکوئی ٹھوس کوشش نہیں کی۔ اس پارلیمان کا رکن ہوتے ہوئے بھی عمران خان جیسے قدآور رہ نما اسے ”چوروں اور لٹیروں“ کا اکٹھ بولتے ہیں۔

جس پارلیمان کا قائد - وزیر اعظم - اپنے ادارے کو توانا اور متحرک بنانے میں دلچسپی نہ لے۔ جس کے چند قد آور اورعوامی طورپر مقبول اراکین تنخواہیں اور مراعات لیتے ہوئے بھی پارلیمان کو ”چوروں اور لٹیروں“ کی آماجگاہ قرار دیں، اس ادارے کو ”حساس“ قومی امور کے بارے میں فیصلہ سازی کا اختیار دیا ہی نہیں جا سکتا۔

ڈان اخبار میں چھپی ایک خبر نے ”ثابت“ کر دیا ہے کہ قومی سلامتی امور کے بارے میں ”نااہل سیاست دانوں“ کو جو بتایا جاتا ہے وہ صحافیوں کو بتا دیا جاتا ہے۔ عمران خان کو وزیراعظم کی تلاشی لینا ہے۔ اسحاق ڈار، چودھری نثار علی خان اور شہباز شریف دریں اثناء راولپنڈی کے ایک گھر جا کر اپنی حکومت میں موجود ان لوگوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو ان کی دانست میں ”قومی سلامتی کے مفادات کے منافی“ خبریں چھپواتے ہیں۔ معافی تلافی کے لئے منت ترلے ہورہے ہیں۔ ہم مگر ڈھیٹ لوگ ہیں۔ یہ دعویٰ کرنے پربضد کہ پاکستان میں ایک منتخب پارلیمان ہے جو اس ملک کے سب اداروں پر بالادست ہے۔ ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔