1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. مڈ نائیٹ کال

مڈ نائیٹ کال

از

بدترین آمریت کے حوالے سے مشہور ہوئی ایک اصطلاح ہے Mid-Night Knock۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ رات گہری ہو جانے کے بعد کے کسی مرحلے میں آپ کے گھر پر حکومتوں کے تنخواہ یافتہ ”محافظ“ آ دھمکتے ہیں۔ حاکموں کے لئے مشکلات کھڑی کرنے والے صحافیوں اور لکھاریوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ گھر سے اٹھائے ایسے لوگوں کا اکثر اوقات بعد میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ان کے عزیز و اقارب تا عمر یہ بھی نہیں جان پاتے کہ رات کی تاریکیوں میں اٹھائے گئے یہ لوگ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ وہ Missing Persons ہو جاتے ہیں۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر نے Half Widows کی اصطلاح بھی متعارف کروائی ہے۔ یہ وہ بدنصیب بیویاں ہیں جن کے شوہر کئی سال قبل رات کے اندھیرے میں اٹھا لئے گئے تھے اور آج تک ان کے بارے میں کوئی اچھی یا بُری خبر نہیں آئی ہے۔

پاکستان ایک خوش نصیب ملک ہے۔ سنا ہے یہاں آئین کی مکمل عملداری ہے۔ شہریوں کے حقوق ہیں۔ حکومتیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہیں۔ منتخب ہوتے ہوئے یہ حکومتیں پارلیمان اور عدلیہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ پارلیمان اور عدلیہ، اشرافیہ سے جوابات لینے میں کوتاہی اپناتی نظر آئیں تو ہمارا مکمل طور پر آزاد اور دن و رات کے 24 گھنٹے مستعد میڈیا دہائی مچا دیتا ہے۔ میڈیا کی مچائی دہائی بھی کام نہ آئے تو عمران خان جیسے قائد دھرنے دیتے ہیں۔ دارالحکومت کی تالہ بندی کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔

شہری حقوق کی بالادستی اور احترام کے اس موسم میں منگل کی رات مجھے ایک فون آیا۔ یہ کالم لکھنے کی وجہ سے میں نے علی الصبح اُٹھنے کی عادت اپنا لی ہے۔ اس عادت کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ شب گیارہ بجے کے قریب میں اپنے بستر پر لیٹ جاﺅں۔ نیند کے جلد آنے کو یقینی بنانے کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ ٹیلی فون بند کر دیا جائے۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ میں رزق کمانے کے لئے صحافی بنا ہوا ہوں۔ جن اداروں کے لئے لکھتا اور بولتا ہوں، انہیں کسی بھی اہم خبر ملنے کے بعد مجھ سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے فون کی گھنٹی تو بند کر دی جاتی ہے مگر شیشے کی میز پر رکھا ہو تو فون کی سرسراہٹ جگا دیتی ہے۔ منگل کی رات 11:43 منٹ پر ایسی ہی سرسراہٹ گونجنا شروع ہو گئی۔ بستر کے ساتھ رکھی روشنی جلا کر دیکھا تو 92 سے شروع ہونے والا ایک نمبر تھا جہاں سے ٹیلی فون آ رہا تھا۔ اسلام آباد میں عام طور پر سرکاری دفتروں میں موجود ٹیلی فونوں کے نمبر 92 سے شروع ہوتے ہیں۔ فرض کر لیا کہ شاید کسی سرکاری بریفنگ یا پریس کانفرنس کے لئے بلائے جانے والا ٹیلی فون ہے۔

تھوڑی اُکتاہٹ سے ”ہیلو“ کیا تو دوسری جانب سے اپنا تعارف کروائے بغیر ایک صاحب نے اپنا نام بتائے بغیر ارشاد فرمایا کہ وہ SIB سے بات کر رہے ہیں۔ SIB کیا ہوتا ہے؟ یہ بتانے کا انہوں نے تردد ہی نہ کیا۔ جلدی سے بس یہ اعلان کیا کہ وہ قومی شناختی کارڈ کا ایک نمبر بولے گا۔ مجھے بس یہ تصدیق کرنا ہو گی کہ میں جس نمبر سے بات کر رہا ہوں وہ اسی قومی شناختی کارڈ نمبر کے حامل کو جاری کیا گیا ہے یا نہیں۔

جب آتش جوان تھا تو ایسے ٹیلی فون آنے سے میں بھنا جایا کرتا تھا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ مگر طبیعت اب کچھ نرم ہوگئی ہے۔ میں نے بڑی ”عاجزی“ سے عرض کیا تو صرف اتنا کہ محض یہ تصدیق کرنے کے لئے کہ میں جس فون پر بات کر رہا ہوں میرے شناختی کارڈ کے نام ہی پر جاری ہوا ہے یا نہیں رات کے اس پہر فون کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔ دوسری جانب سے ایمانداری کی بات ہے بہت تمیز کے ساتھ جواب ملا کہ ”ہمارے پاس Enquiry آئی ہے۔ اس میں دئیے نمبروں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ آپ تک پہنچنے میں دیر ہو گئی۔“

میرا فطری سوال اب یہ تھا کہ ایسی کونسی Enquiry ہے جس میں میرے ٹیلی فون نمبر کی تصدیق ضروری سمجھی گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ قومی شناختی کارڈ کا جو نمبر بول رہا ہے اس کی تصدیق کے لئے مجھے اپنے بستر سے اُٹھ کر گھر کے برآمدے میں کھڑی اپنی گاڑی کو کھولنا ہو گا جس میں یہ شناختی کارڈ رکھا ہوا ہے۔ بہتر ہے وہ میرا نام لے دے۔ میں تصدیق کر دوں گا کہ اس نے جس ٹیلی فون نمبر پر مجھ سے رابطہ کیا ہے میرے نام سے اجراءہوا ہے یا نہیں۔ انکوائری کرنے والے کے پاس مگر جو فہرست تھی اس میں صرف نمبر تھے۔ موبائل نمبر اور قومی شناختی کارڈوں کے وہ نمبر جن کو ان کی سمیں فراہم ہوئی تھیں۔

میں نے ان صاحب کی آسانی کے لئے اپنا نام بتایا۔ یہ بھی کہ میں کیا کام کرتا ہوں۔ اس کے بعد عرض کی کہ میرا نام معلوم کر لینے کے بعد وہ بآسانی پتہ چلا سکتا ہے کہ وہ جس قومی شناختی کارڈ کی بات کر رہا ہے وہ میرا ہے یا نہیں۔ اگر میرا ہے تو وہ جس موبائل نمبر پر مجھ سے گفتگو کر رہا ہے وہ بھی اسی نام کو ملا ہوا ہے۔ SIB والے کی تسلی ہو گئی۔ اس نے شکریہ ادا کر کے فون بند کر دیا۔

رات گئے تک لیکن میں سوچتا رہا کہ SIB۔ جس کے بارے میں یہ کالم لکھتے ہوئے بھی مجھے معلوم نہیں کہ کیا بلا ہے۔ ایسی کونسی Enquiry کر رہی ہے جو مجھ سے کسی بھی طرح متعلق ہو۔ یقیناً کوئی بہت ہی سنگین ”واردات“ سرزد ہوئی ہے۔ اس ”واردات“ سے متعلقہ کچھ ٹیلی فون نمبروں کا سراغ بھی لگا لیا گیا ہے۔ ان نمبروں کی فہرست بہت لمبی ہے اور میرا نمبر بھی اس فہرست میں شامل ہے۔

آپ سے کیا پردہ؟ میں پنجابی محاورے والی ”بھولی تے آں پر ایڈی وی نئیں“۔ مجھے خبر ہے کہ ان دنوں چودھری نثار علی خان جیسے فرض شناس وزیر کے زیر نگرانی ادارے ایک ”خبر“ کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں۔ حکومت کا اصرار ہے کہ اس ”خبر“ نے قومی سلامتی کے مفادات کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جس ”خبر“ کا تذکرہ ہو رہا ہے وہ انگریزی کے ایک موثر معاصر ”ڈان“ کے صفحہ اوّل پر سیرل المیڈا کے نام سے چھپی تھی۔ ”خبر“ لکھنے اور شائع کرنے والے کا علم تو پوری دنیا کو ہے۔ معلوم اب یہ کیا جا رہا ہے کہ یہ ”خبر“ Feed کس نے کی تھی۔

ظاہر سی بات ہے کہ خبر لکھنے والے کے زیر استعمال ٹیلی فون کا Data حاصل کیا جا چکا ہو گا۔ اب اس کے Contacts کی فہرست میں درج نمبروں کی تصدیق ہو رہی ہے۔ میرا نمبر بھی یقیناً اس فہرست میں شامل ہو گا۔ میں کوئی خبر Feed کرنے کے مگر ہرگز قابل نہیں ہوں۔ خود خبروں کی تلاش میں ساری زندگی خجل خوار ہوتا رہا ہوں۔ اب مگر خبر ڈھونڈنے سے کہیں زیادہ لطف مجھے مختلف موضوعات پر بھاشن دینے میں آتا ہے۔ یہ لطف دوبالا اس لئے بھی ہو جاتا ہے کہ خبر دینے کے مقابلے میں بھاشن دینا میرے لئے مناسب اور کافی حد تک باوقار معاوضے کا حصول بھی یقینی بنا دیتا ہے۔

SIB ۔ جس کے بارے میں مجھے ہرگز خبر نہیں کہ کس بلا کا نام ہے۔ رحم کے قابل ہے جو رات گئے تک ٹیلی فون نمبروں کی ایک لمبی فہرست لئے ان ناموں کی تصدیق کر رہی ہے جن کو ان کی سمیں جاری ہوئی ہیں۔ گھر بیٹھ کر ریموٹ کے بٹن دبائیں تو ہمہ وقت باخبر رہنے والے ٹی وی اینکرز آپ کو مسلسل بتائے چلے جا رہے ہیں کہ ”مودی کے یار“ کے لئے کام کرنے والے کونسے وزیروں اور افسروں نے قومی سلامتی کے منافی گردانی اس خبر کو Feed کیا ہے۔ فیس بُک اور ٹویٹر پر اس سے بھی زیادہ تفصیلات موجود ہےں۔ Whatsapp کے ذریعے مسلسل چھوٹی چھوٹی ویڈیوز بھیFeed ہو رہی ہیں جو ”غداروں“ کو مسلسل بے نقاب کر رہی ہیں۔

”معلومات“ کے ایسے انبار کے ہوتے ہوئے بھی SIB والوں کو Mid Night Calls کے ذریعے مجھ ایسے ناکارہ اشخاص کو سوتے سے جگانا ہرگز ضروری نہیں۔ چودھری نثار علی خان کو اگر کچھ معلومات درکار ہیں تو مجھے اپنے دفتر جب چاہیں طلب کرلیں۔ جو کچھ میرے علم میں ہے ان کے روبرو پیش کر دوں گا۔ اگرچہ Feed ہوئی ”خبر“ کے بار ے میں میرے پاس کوئی ٹھوس اطلاع موجود نہیں ہے۔ اس کے لئے انہیں عقل کُل دِکھتے اینکر خواتین و حضرات کو ٹیلی وژن پر باقاعدگی سے سُننا ہو گا۔