1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. مل بھی گیا تو پھر کیا ہو گا

مل بھی گیا تو پھر کیا ہو گا

بہتر تو یہی تھا کہ یہ کالم لکھنے کے لئے انتظار کرلیتا۔ عمران خان سمیت ہمارے ملک کے کئی طاقت ور اور باخبر لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ جمعرات کی سہ پہر تک پانامہ کے بارے میں تفصیلی نہ سہی تو کوئی’’مختصر فیصلہ‘‘ضرور آجائے گا اور یہ فیصلہ مختصر ہو یا تفصیلی’’تاریخی‘‘ ضرورہوگا۔یہ کالم چھپنے تک وہ فیصلہ آگیا تو جو کچھ اس وقت لکھ رہا ہوںباسی اور غیر متعلقہ ہوجائے گا۔گزشتہ تین برسوں سے مگر صبح اُٹھتے ہی قلم اٹھالینے کی بیماری لاحق ہوچکی ہے۔ ’’تاریخی فیصلہ‘‘ اگر آج سہ پہر تک آبھی گیا تو شاید اس کے بارے میں فوری طورپر کچھ لکھنے کو ذہن تیار نہ ہوپائے۔

ذہن میرا اس وقت بھی منتشر ہے۔رات برابر سو نہیں پایا ہوں۔حسبِ عادت نیند کی گولی بھی کھائی تھی اور رات گیارہ بجے بتیاں بجھاکر اپنے ٹیلی فون کو Silent Mode میں ڈالنے کے بعد بسترپر لیٹ گیا تھا۔ بطور صحافی اور اپنے گھرانے کا ذمہ دار فرد ہوتے ہوئے ٹیلی فون مگر قطعاََ خاموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بستر کے ساتھ رکھی میز پر پڑا ہو اور کوئی رابطہ کرنا چاہے تو مسلسل سرسراہٹ مجھے نیند سے جگادے گی۔ بدھ کی رات بہت دیر تک مجھے یہ سرسراہٹ کئی بار جگاتی رہی۔

ٹیلی فون کرنے والے میرے ہیلو کہنے کے بعد اندازہ لگالیتے کہ مجھے نیند کے قریب جگایا گیا ہے۔ سرسری اور روایتی معذرت کے بعد مگر فوراََ مجھ سے یہ ’’کنفرم‘‘ کرنا شروع ہوجاتے کہ جمعرات کے روز نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہنے کے لئے نااہل قرار دے دیا جائے گا یا نہیں۔میرے پاس اس سوال کاجواب موجود ہوتا تو اس کالم میں کسی نہ کسی صورت بیان کردیا ہوتا۔پانامہ کے بارے میں سپریم کورٹ میں جو بھی ہوتا رہا ہے،اس کے بارے میں عام پاکستانیوں کی طرح صرف ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ہی کچھ جاننے کی کوشش کی ہے۔ان سکرینوں پر گزشتہ دو روز سے مسلم لیگ (نون) کے ترجمانوں کے چہرے لٹکے نظر آئے تھے۔ وہ ’’عوام کی عدالت‘‘ کا ذکر کرنا بھی شروع ہوچکے تھے۔ تحریک انصاف والے ان کے مقابلے میں بہت پُراعتماد اور شاداں نظر آئے۔ یہی سب کچھ میں بدھ کی رات ٹیلی فون کرنے والوں کے لئے بھی دہراتا رہا۔ وہ مگر بضد رہے کہ میں اپنی ’’رائے‘‘ کا اظہار کروں جو میں نے بنائی ہی نہیں تھی۔ مجھے ٹیلی فون کرنے والے مگر اعتبار کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ میری وضاحتیں کسی کام نہ آئیں۔

بالآخر ایک بہت ہی ’’باخبر‘‘ شخص نے رات ایک بجے کے بعد مجھے Whats app کے ذریعے ایک پیغام بھیجا۔ یہ پیغام اس نوعیت کا تھا جسے Forward کرنے سے پہلےAs Received لکھ دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد وہی ہوتا ہے جو کبھی اخبارات کے مدیر’’ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں‘‘والی سطر لکھنے کے ذریعے حاصل کیا کرتے تھے۔دوپیروں پر مشتمل اس پیغام کے ذریعے اس ’’مختصر فیصلے کے خدوخال قانونی زبان میں بیان کردئیے گئے تھے جو جمعرات کی سہ پہر تک متوقع تھا۔کاش میں اس پیغام کو ہوبہو آپ تک پہنچاسکتا۔ توہینِ عدالت کے قانون سے مگر خوف آتا ہے۔

یہ پیغام پڑھنے کے بعد میں نے ارادہ باندھ لیا کہ فون کو قطعاََ آف کردیا جائے ورنہ سونا ناممکن ہوجائے گا۔اس فیصلے پر ابھی عمل نہیں کرپایا تھا کہ ٹیلی فون دوبارہ بج اٹھا۔دوسری طرف سے ’’اطلاع‘‘ یہ دی گئی کہ اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی اخبارات اور نیوزایجنسیوں کے لئے کام کرنے والے کئی افراد عمران خان اور ان کے متحرک کارکنوں اور رہ نمائوں سے رابطہ کرکے معلوم یہ کرنا چاہ رہے ہیں کہ نواز شریف،جمعرات کے روز’’اپنے خلاف فیصلہ آنے کے بعد‘‘وطن لوٹیں گے یا نہیں۔انہیں ’’ذرائع‘‘ نے یقین دلایا تھا کہ وزیر اعظم ترکی کے دورے پر ’’اچانک‘‘ صرف اس لئے روانہ ہوگئے کہ اپنے خلاف فیصلہ آجانے کے بعد وہاں سے وطن واپس لوٹنے کی بجائے برطانیہ چلے جائیں۔

آپس کی بات ہے۔ یہ فون آنے سے قبل ہی میرا صبر جواب دے چکا تھا۔جھکی ذہن بڑبڑانا شروع ہوگیا کہ میری بلا سے نواز شریف وطن لوٹتے ہیں یا نہیں۔وہ جانیں اور عدالت۔ فی الوقت میری فوری ترجیح نیند ہے تاکہ صبح حسبِ معمول اُٹھ کر اپنی روزی کے لئے کالم لکھ سکوں۔مجھے فون کرنے والے کا مگر دل ٹوٹ گیا۔ اس نے اعتراف کیا کہ گزشتہ تین روز سے وہ سپریم کورٹ جاکر پانامہ کے بارے میں ہوئی کارروائی کو بہت اشتیاق سے دیکھ رہا تھا۔اسے یہ دیکھ کر بہت فخر محسوس ہوا کہ پاکستان کی عدالتوں میں طاقت ور لوگوں سے انتہائی سخت سوالات پوچھے جاتے ہیں۔’’شاید یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے‘‘۔

تاریخ میں ’’پہلی بار‘‘والے دعوے نے مجھے ذوالفقار علی بھٹو کی یاد دلانے پر مجبور کردیا۔یہ بات اگرچہ درست ہے کہ ان پر قتل کا مقدمہ فوجی بغاوت کے بعد قائم کیا گیا تھا۔یوسف رضا گیلانی مگر بطور وزیر اعظم سپریم کورٹ کے روبروگئے اور وہاں سے نااہل ہوکر واپس لوٹے تھے۔افتخار چودھری صاحب کے دنوں میں بھی اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز لوگوں کو روزانہ عدالتی کٹہرے میں بے تحاشہ لتاڑا جاتا تھا۔

پاکستان میں ’’تاریخ بنتی‘‘ ہوئے دیکھنے کے شوقین خواتین وحضرات جن کی اکثریت تحریک انصاف کی حامی بھی ہے،ماضی کے حقائق کو یاد نہیں رکھتی۔ انہیں شاید یہ بات بھی یاد نہیں رہی ہوگی کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کے زیر سربراہی قائم ہوئے بنچ نے نواز شریف کی پہلی حکومت کی برطرفی کا دفاع کرنے والے وکلاء کو بھی بہت لتاڑا تھا۔چند روزہ سماعت کے بعدوہ حکومت بحال کردی گئی تھی۔نواز حکومت کی بحالی کے لئے جو ’’تاریخی‘‘فیصلہ لکھا گیا تھاوہ آج بھی پارلیمان کی راہداریوں میں نمایاں طورپر سنگ مرمر پر کندہ نظر آتا ہے۔اس ’’تاریخی ‘‘فیصلے کے بعد بھی صدر فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو وقت سے پہلے برطرف کردیا تھا۔جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہ میں کام کرنے والے سپریم کورٹ نے مگر اس حکومت کی برطرفی کو جائز قرار دیا تھا۔اس کے بعد جو انتخابات ہوئے انہوں نے نواز شریف کو ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘کی بدولت ایک بار پھر وزیر اعظم بنادیا تھا۔وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے فوراََ بعد نواز شریف نے صدر کو آئینی اعتبار سے میسر وزیر اعظم اور اس کی اسمبلی کو برطرف کرنے والے اختیارات سے محروم کردیا تھا۔ یہ عمل بھی مگر 12 اکتوبر 1999ء کو روک نہ پایا۔ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو سپریم کورٹ نے نہ صرف فوجی بغاوت کو جائز قرار دیا بلکہ اس آمر کو یہ اختیار بھی دیا کہ وہ ’’قومی مفاد‘‘ میں آئین میں مختلف ترامیم کے ذریعے اسے ’’قابل عمل‘‘ بنانے کا حقدار بھی ہے تاکہ وطنِ عزیز کو ’’سیاسی استحکام‘‘ نصیب ہوسکے۔

المختصر منیرنیازی نے ’’لاکھوں ملتے دیکھے ہیں۔پھول بھی کھلتے دیکھے ہیں‘‘کہتے ہوئے ’’مل بھی گیا تو پھر کیا ہوگا‘‘کے بارے میں جس اُکتاہٹ کا اظہار کیا تھا، میں سپریم کورٹ کے ’’تاریخی فیصلوں‘‘کے بارے میں بھی ویسا ہی محسوس کررہا ہوں۔